Chitral Times

Jul 3, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

وارسائی کامحل اورمسولینی کی سیاست …….. ایس این پیرزادہ

شیئر کریں:

آج سے تقریباؑ تین سو سال پہلے کی بات ہے جب فرانس کے بادشاہ لوئیس دی۱۴ کے دل میں خیال آیا کیوں نہ دنیا پر اپنی روپ اور دبدبہ بٹھانے کے لیے کچھ نیا کیا جائے،اپنی اسی سوچ کو لیکر بادشاہ نے پیرس سے۱۹ کلومیٹرکے فاصلے پر واقع وارسائی کے مقام پر ایک عظیم وشان محل تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا،اس مقصد کے لیے یونان سے فنِ تعمیرکے مشہورماہرین کی خدمات حاصل کر کے ۱۵ہزار مزدوروں کے زریعے۱۶۶۱ء میں اس شاندار منصوبے پر کام کا آغاز کیاگیا،۷۰۰ کمروں پر مشتمل اس محل کی سجاوٹ کے لیے سونے،چاندی،اور قیمتی پھتروں کے بیش بہا مجسموں اور دلکش نقش ونگار کے علاوہ محل کے احاطے میں۲ہزارفوارے اور ڈھیڑلاکھ پودے بھی لگائے گئے،بلاآخر۲۱ سال بعد ۱۶۸۲ءمیں جب یونانی طرز تعمیر کے اس شاہکار کو بادشاہ کی رہائش کے لیے کھول دیا گیا تو یورپ بھر سے بادشاہ،شہزادے اور امرا محل کو دیکھنے کے لیے آئے،چونکہ اس عمارت میں ۲۰ہزار سے زائد افراد کے رہنے کی گنجائیش تھی اسلیے بادشاہ نے اپنے ساتھ ۱۰ہزاردرباریوں کو بھی محل میں منتقل کر دیا،ساتھ ہی محل میں رہنے والے وزارا،مشیروں کے علاوہ امرا اور علماء کی کثیر تعدادکو ہروقت خوش رکھنے کے لیے شاہ خرچیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا،روزانہ رقص وسرور کی محفل،سرِعام جوا کھیلنے کےعلاوہ مملکت کا تیسرا کام شکار کرنا رہگیا،گوکہ پہلے سے ہی محل کی تعمیر پر فرانس کا آدھا خزانہ خالی ہوچکا تھا اب دربار کے اخراجات کنٹرول سے باہر تھے،نتیجتاؑ اپنے عیاشیوں کو جاری رکھنے کے لیے قرض لینے کی نوبت آگئی،ممکنہ معاشی بہراں سے نمٹنے کے لیے عوام پر مذید ٹیکس لگانے کا فیصلہ کیا گیا،دوسری طرف عوام کی بہتری پر خرچ کرنے کے لیے حکومت کے پاس کوئی رقم موجود نہیں تھی،الٹا شاہی خزانے کی کمی کو پورا کرنے کے لیے عوام پر مذید ٹیکس لگ چکے تھے،جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وارسائی کے جس محل کو پورے یورپ میں فرانس کی شان وشوکت کی علامت سمجھا جاتاتھا وہ فرانسیسی عوام کی نظرمیں ظلم و جبر کی نشانی بن کر رہ گیا،اس زمانے میں امریکہ،کینیڈا اور ویسٹ انڈیز میں فرانس کی کالونیاں موجود تھے اور وہاں سے وافر مقدار میں ہر سال خوراک کا ذخیرہ فرانس آتا تھا اسی وجہ سےبادشاہ کو اپنی زندگی میں کھبی بھی اس بات کا احساس ہی نہیں ہوا کہ عوام میں انکے خلاف نفرت کا لاوہ ابل رہا ہے،کنگ لوئیس دی فورٹین فرانس پر۷۲ سال حکومت کرکے ۱۷۱۵ءمیں اس دنیا سے رحصت ہوئے،بادشاہ کی زندگی میں ہی اسکے بیٹے لوئیس ڈوفین اور پوتا ڈیوک آف برگینڈی وفات پاچکے تھے،اسلیےاسکےپانچ سالہ پڑپوتے کولوئیس دی فیفٹین کا نام دے کرفرانس کا بادشاہ بنایا گیا۔کچھ عرصے بعد شاہی دربار کے نگران کو احساس ہوگیا کہ انکی عیاشیوں کی وجہ سے ریاست دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ چکا ہے،طویل گفت وشنید کے بعد درباریوں نے اپنے شاہ خرچیوں کو ختم کرنے کی بجائے شاہی استبل کے نصف گھوڑوں کو فروخت کرنے کا فیصلہ کرلیا،جب یہ خبرفرانس کے مشہورزمانہ فلسفی والٹیرکو ملی توانہوں یہ فقرہ کہا کہ گھوڑوں کی جگہ اگر محل میں موجود آدھا گدھوں کو دربار سے نکال دیاجاتا توزیادہ بہترتھا،فلسفی کے یہ تنزیہ کلمات حکمرانوں کو برداشت نہ ہوے اور والٹیر کو بیستیل کے تہہ خانے میں قید کردیا گیا۔نئےبادشاہ لوئیس دی۱۵ نے جب ہوش سھنبالہ تو عوام کو اس سے بہت سارے توقعات وابستہ تھے مگر وہ تو اپنے پڑدادا سے بھی نکمہ نکلا،عوام کو اپنے حال پر چھوڑ کر اس نے ساری زندگی وارسائی کے محل میں خوبروحسیناوں کی رقص دیکھنے،شراب کی محفلیں منعقد کرنے،کھیل تماشہ اورشکار کھیلتےہوئے گزارا،ان سب کے علاوہ اس بادشاہ سے جو سب سے بڑی غلطی سرزد ہوئی وہ یہ تھی کہ اس نےآسٹریا اور کروشیا کی جنگ میں آسٹریا کا ساتھ دے کر پہلے سے معاشی بہران سے دوچار فرانسیسی قوم کو غیروں کی جنگ میں دھکیل دیا،اس مشہورِزمانہ سات سالا جنگ کا نتیجہ یہ نکلا کہ آسٹریااور فرانس کوبرطا نیہ کے ہاتھوں شکست ہوئی،اور فرانس کو امریکہ،کینڈا،ویسٹ انڈیز اور ہندوستاں میں موجود اپنے کالونیوں سے ہاتھ دھونا پڑا،اس جنگ کے بعد فرانس عملی طور پر دیوالیہ ہو چکا تھا مگر بادشاہ کی عیاشیوں میں کوئی کمی نہ آئی،اوراخراجات کو پوراکرنے کے لیے عوام پر مذید ٹیکس لگا دیا گیا،اسی دوراں بادشاہ نے اپنے پوتے اور ولی عہد لوئیس کیپے کی شادی آسٹریا کے ملکہ ماریہ ٹریسا کی بیٹی میری انڈونیٹ سے کرادی جو کہ بادشاہ سے بھی زیادہ فصول خرچ نکلی،جس نے آتے ہی وارسائی محل کے ایک حصے کو بیوٹی پالر میں تبدیل کر دیا جہاں پر بیش بہا قیمتی زیورات اور قیمتی جوڑوں کی بھرمار ہو گئی،جلد ہی شہزادی کے فیشن اورفضول خرچیوں کے چرچے پورے ملک میں پھیل گیے،دوسری طرف عوام میں شاہی خاندان کے خلاف نفرت اور بےچینی میں اس قدر اضافہ ہو گیا تھا کہ پیرس کی گلیوں میں حکمران خاندان کے خلاف پمپفلٹ تقسیم ہونا شروع ہو گیے،یہ وہ دور تھا جب یورپ رینیسنس سے ایج آف ریزنز میں میں داخل ہو رہا تھا،یعنی آرٹ اور کلچر کی جگہ سائنس اور فلسفے نے لینا تھا،اور اس دور کے تین بڑے فلسفی منٹسکیو،والٹیر اورروسو اپنے قلم کی طاقت سے زہنی انقلاب برپا کر رہے تھے،اسی دوراں بادشاہ چیچک کی مرض میں مبتلا ہو کر مرگیا اس کی جگہ ولی عہد لوئیس کیپے لوئیس دی ۱۶ کے نام سے تخت پر بیٹھ گیا،نیے بادشاہ کے سامنے ملک کی کمزور معیشت اور خالی خزانہ سب سے اہم مسلہ تھا،ابتدا میں بادشاہ نے ملک میں معاشی اصلاحات لانے کی خاطر کچھ اقدامات کرنے کی کوشش مگر ملک میں جاری پارلیمانی نظام جس میں امرا اور پادریوں کو خاص حیسیت حاصل تھی اس کی راہ میں رکاوٹ بن گیا،دوسری طرف ملکہ کی شاہ خرچیاں تھیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی،حکمران طبقے نے ان تمام غیرضروری اخراجات کو پورا کرنے اور خالی خزانے کو سہارا دینے کے لیے عوام پرمذید ٹیکس لگانے کا فیصلہ کر لیا تو عوام نے اس ظالمانہ فیصلے کے خلاف بغات شروع کر دی،کیونکہ پہلے ہی سے مملکت کو چلانے کی خاطر عوام پر ناقابل برداشت ٹیکسس لگائے جا چکے تھے جن میں ٹیلا ٹیکس یعنی نیے کپڑے پہننے پرٹیکس اور نمک کی استعمال پر ٹیکس وغیرہ شامل تھے،اسی اثنا میں برطانیہ اور امریکہ کے درمیان جنگ شروع ہوگئی تو ملک کے اندرونی صورتحال سے بے نیاز بادشاہ لوئیس سات سالا جنگ کی شکست کا بدلہ لینے کے لیے امریکہ کی حمایت میں جنگ میں کود پڑا،اب کی بار وہ امریکہ کے ساتھ مل کر برطانیہ کو شکست دینے میں تو کامیاب رہا مگر اسکا اپنا ملک مکمل طور پر دیوالیہ ہو چکا تھا،بھوکے لوگ ٹولیوں کی شکل میں جگہ جگہ بیکریوں،تندوروں اورگندم آٹا کے گوداموں کو لوٹ رہے تھے،اس صورتحال سے نکلنے کے لیےریاست نے گندم کی خریداری کی خاطر۴ لاکھ فرینککا قرض بھی لیا،بادشاہ نے عوام کو خوش کرنے کے لیے کچھ وزارتوں کے قلمدان بھی تبدیل کر دیا اور سابق عوام دوست رہنما کو وزیرخزانہ بنایا،ساتھ ہی پارلیمنٹ میں عوامی نمائیندگان یعنی تھرڈاسٹیٹ کی تعدات میں بھی اضافہ کردیا،مگر اب پانی سر سے گزر چکاتھااوررائےعامہ بادشاہ کے خلاف ہوگیا تھا،اس ہنگامی صورتحال کا مقابلہ کرنے اور اپنے شاہ خرچیوں پر قابو پاکر درباریوں کا قبلہ درست کرنے کی بجاے بادشاہ لوئیس نے وارسائی محل کی رنگینیوں میں راہِ فرار اختیار کرنے میں عافیت جانا اورخوابوں کی حسین دنیا میں ایسا کھو گیا کہ۱۴اور۱۵جولائی ۱۷۸۹ء کی آدھی رات کو کنگ لوئیس دی۱۶ کے قریبی درباری لیان کوٹ نےبادشاہ کو جگا کربولا حضوراٹھیےبیستیل کے قلعے پر قبضہ ہو گیا ہے،بادشاہ خواب خرگوش کے مزے میں آنکھیں ملتے ہوے کہنے لگا کیا کسی نے بغاوت کر دیا ہے،تو درباری نے ادب سے سر جھکا کر جواب دیا جی نہیں حضور یہ بغاوت نہیں انقلاب ہے،اور اسی انقلاب کے نتیجے میں بادشاہ لوئیس دی۱۶ اور ملکہ میری انڈونیٹ کا سر تن سے جدا کر دیا گیا۔

جولائی ۱۸۸۳میں اٹلی میں پیدا ہونے والا مسولینی ایک جزباتی نوجوان تھا، جو شروع دن سے کارل مارکسکے نظریات سے متاثر ہو کر سوشیلزم کے لیے ہر وقت اپنے جان تک دینے کو تیار رہتا تھا ،روزگار کی تلاش میں جب اس نے اٹلی سے سویٹزرلینڈ کا سفر کیا تو اس کے جیب میں سوائے کارل مارکس کی ایک عدد تصویر کے کچھ بھی نہیں تھا،سویٹزرلینڈ میں جب اسکو ایک ٹریڈ یونین میں ملازمت ملی تو اس نے کھل کر حکومت پر تنقید شروع کردی اور سوشلسٹ تحریک میں بڑچھڑ کر حصہ لیا،جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ سویٹزرلینڈ کی حکومت نے دوسرے رہنماوں کے ساتھ مسولینی کو بھی جیل میں بند کر دیا،جیل سے رہا ہو کر جب وہ اٹلی پہنچا تو سیاسی رہنما بن چکا تھا،اس وقت اٹلی میں سوشیلزم کی پرچار کرنے والوں نے مسولینی کی زہانت اور جزبے سے متاثر ہو کر ۱۹۱۳ ء میں اسکو اٹلی میں بائین بازو کی سب سے مقبول اخبار اوانتی کا ایڈیٹر مقرر کردیا،اس نادر موقے سے فائدہ اٹھا کر مسولینی نے بادشاہی نظام اور معاشرتی ناہمواریوں کے خلاف قلم کی طاقت سے اپنا جوہر دیکھانا شروع کردیا،اس زمانےمیں پہلی جنگ عظیم کا آغاز ہوچکا تھا،شروع میں تو مسولینی نے جنگ کی سخت مخالفت کی مگر بعد میں اچانک یوٹرن لے کر جنگ کی حمایت شروع کردی،چونکہ سوشیلسٹ جنگ کے خلاف تھے اس لیے مسولینی کو پارٹی نکال دیا گیا،دوسری طرف مسولینی کو جنگ کی حمایت میں پروپیگینڈا جاری رکھنے کے لیے اسلحہ ڈیلیروں کی شکل میں اسپونسرمل گیے اور اس نےجنگ کی حمایت میں خوب پروپیگینڈا کیا،جنگ کے احتتام پر اٹلی اور اتحادیوں کو فتح ہوئی اور مسولینی قومی ہیرو بن کر سامنے آیا،اگرچہ جنگ میں کامیابی کے باوجود اٹلی کو کوئی خاطرخواہ فائدہ نہیں ہوا بلکہ ملکی خزانہ خالی ہوگیا جس کی وجہ سے عوام پر مذید ٹیکس لگادیا گیا،اس صورتحال کو پیش نظر رکھ کر مسولینی نے پھر یوٹرن لیا اور حکومت کے خلاف قوم پرستی کے نام تحریک شروع کر دیا،اب کہ بار اس نے سابق فوجیوں کو ساتھ ملاکر۱۹۱۹ء میں فاشسٹ پارٹی کا قیام عمل میں لایا اورمسلح جدوجہد کی خاطربلیک شرٹس کے نام سے تنظیم بھی تشکیل دیا،شروع میں تو انکا نشانہ سوشلسٹ نظریات رکھنے والے لوگ تھے مگر بعد میں عوامی پزیرائی ملنے پر اس نے حکومت پرچڑھائی کرنے کا منصوبہ تیار کر لیا،اور ملک میں انقلاب لانے کا اغلان کرتے ہوے انہوں نے۲۸اکتوبر۱۹۲۲ءکواپنے تمام ساتھیوں،پارٹی کارکناں اور عسکری وینگ کو روم پہنچنے کا حکم دیا،اور خود تیسری مرتبہ یوٹرن لیکر رات کے اندھیرے میں بادشاہ کے ساتھ ڈیل کرکےوزیرآعظم بن گیا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیرآعظم بننے کے بعد مسولینی نے اپنے ان تمام ساتھیوں کو مکمل طور پر نظرانداز کردیا جنہوں نے مشکل جدوجہدمیں انکا بھرپورساتھ دیا تھا،توسیع پسندانہ سوچ کے حامل مسولینی چوتھی مرتبہ یوٹرن لے کر ملک میں جاری پارلیمانی نظام کو تہہ وبالا کرکے ڈکٹیٹر بن گیا۔چونکہ مسولینی مہم جوئی کا شوقین تھا ڈکٹیٹر بننے کے بعد اس نے پہلے سے معاشی بہران کا شکاراٹالئین قوم کو نہ ختم ہونے والے جنگوں میں دھکیل دیا،آخرکار مسولینی کی غلط پالیسیوں سے تنگ آکرشکست خوردہ قوم انکےمقابلےمیں کھڑا ہوا تو موصوف نے آخری مرتبہ یوٹرن لیکر مذہب کا لبادہ آوڑھ لیا اور خود کو بنیاد پرست سابت کرنے کی سرتوڑ کوشش کی،اس مقصد کے لیے اس نے روم میں واقع عیسائیوں کے مقدس شہر ویٹی کن سٹی کو ازاد ملک کا درجہبھی دے دیا،مگر اب بہت دیرہو چکی تھی،اٹلی سوشلسٹ انقلاب کی راہ پر گامزن ہو گیا تھا،سخت عوامی دباو کے نتیجے میں بادشاہ نے مسولینی کو اقتدار سے برطرف کرکے شہر سے باہر پہاڑی مقام پر قید کردیا،بعد میں اسکے دوست ہٹلر نے فوجی کاروائی کر کے انکووہاں سے آزاد کرایا اورشمالی اٹلی کے کچھ علاقوں پر قبضہ کر کے مسولینی کو وہاں پر حکمران بنانے کی کوشش کر رہا تھا کہ دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر کو تاریخی شکست ہوئی اور مسولینی اپنی محبوبہ سمیت سویٹزرلینڈ فرار ہوتے ہوئے سرحد پر سوشلسٹوں کے ہاتھ لگ گیا جنہوں نے اسکو پکڑ کراسی مقام پے لے جاکر محبوبہ سمیت گولی مار کر قتل کردیا جہاں پر اس سے چند سال پہلے مسولینی ۱۰۰سے زائد سوشلسٹ رہنماوں کو موت کے گھاٹ اتارچکا تھا،غرض روم کا ماڈرن جولئیس سیزر بننے کے چکرمیں مسولینی تاریخ کا حصہ بن گیا۔

حالاتِ حاضرہ کی روشنی میں اگردیکھا جائے تو مملکتِ اسلامی میں وارسائی محل والا نظام اورمسولینی کی طرزِسیاست کا دوردورا ہے،ایک طرف سابقہ بادشاہوں کی شاہ خرچیوں کے نتیجے میں ملک پر پڑنے والے ۳۰ہزارارب روپیہ قرضہ کا حساب برابر کرنے کے لیے غریب عوام پرنہ ختم ہونے والے ٹیکسوں کا بوجھ ڈالا جارہا ہے تودوسری طرف موجودہ شہنشاہ امورِ سلطنت کو چلانے کے لیے ۱۹ارب ڈالرکا قرض لیکربھی غریب عوام کو بخشنے کے لیے تیار نہیں،او روزانہ کی بنیاد پر اعلانیہ اورغیراعلانیہ مہنگائی کا آغاز کردیا ہے،اشیائے خوردونوش سے لیکرادویات اورضروریات زندگی کی ہر شے کی قیمتوں پر روز کے حساب سے اضافہ کیا جارہا ہے،دوسری طرف ملک کو فلاحی ریاست بنانے کے دعوےدار عوام کو ریلیف دینے کی بجاے یوٹرن اوروزارتوں کی تبدیلیوں میں مصروف ہیں، گزشتہ دنوں ایک انگریزی اخبار میں شائع ہونے والے سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان کی ۶۰فیصد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے،سادہ الفاظ میں اس ملک میں رہنے والے ۱۲کروڑ افراد روزانہ ۲ڈالریعنی ۲۷۰روپے کمانے سے بھی محروم ہیں،ان غریبوں پر مذید ظلم کرنے سے پہلے کنگ خاں کو یہ سوچناچاہیے کہ اس کے بنی گالہ محل میں پالتو کتوں کا روزانہ کا خرچہ ۳ہزار سے زیادہ ہے،بس دعایہی ہے کہ خدا مدینے کی اس ریاست میں کسی غریب کو بیماری میں مبتلا نہ کرے آمین۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
22032