Chitral Times

Jun 30, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

نیا مجوزہ بلدیاتی نظام …………….محمد شریف شکیب

Posted on
شیئر کریں:

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے خیبر پختونخوا کے بلدیاتی نظام میں اصلاحات اور نئے نظام کو پورے ملک میں رائج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں ترامیم کے لئے ٹاسک فورس کو ذمہ داری سونپ دی گئی ہے۔ وزیراعظم نے ٹاسک فورس کو ایک ہفتے کے اندر بلدیاتی نظام کا جامع پلان پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔ مجوزہ نئے بلدیاتی نظام میں ضلع یا تحصیل کونسل میں سے ایک کو ختم کرنے کی تجویز ہے۔ غالب امکان تحصیل کونسل کے خاتمے کا ہی ہے۔ جبکہ ویلج اور نیبر ہڈ کونسلوں کا ڈھانچہ بھی تبدیل کیا جائے گا۔ ویلج اور نیبرہڈ کونسلوں میں پانچ جنرل کونسلرز ہوں گے جبکہ مخصوص نشستوں میں بھی کمی کا امکان ہے۔ بلدیاتی نظام میں مجوزہ اصلاحات کے تحت ضلع ناظم کا انتخاب براہ راست ہوگا۔اور اسے مالی اور انتظامی لحاظ سے زیادہ بااختیار بنایاجائے گا۔ بلدیاتی ممبران کی تعداد 44ہزار سے کم کرکے 24ہزار رکھی جائے گی۔ جبکہ بلدیات کے ماتحت بعض اداروں کو بھی ایک دوسرے میں ضم کئے جانے کا امکان ہے۔بجٹ میں ایک تہائی ترقیاتی فنڈبلدیاتی اداروں کو دینے کی تجویز ہے۔وفاقی حکومت خیبر پختونخوا کے بلدیاتی اداروں کو قبل از وقت تحلیل کرکے قبائلی اضلاع اور خیبر پختونخوا میں آئندہ سال بیک وقت بلدیاتی انتخابات کرانے پر بھی غور کر رہی ہے۔ بلدیاتی نظام میں اصلاحات کی صدائے باز گشت کے ساتھ منتخب بلدیاتی نمائندوں میں بھی تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔لوکل گورنمنٹ ایسوسی ایشن کے پلیٹ فارم سے ناظمین کا اجلاس پشاور میں ہوا۔ ایسوسی ایشن نے 8اکتوبر کو بلدیاتی کنونشن منعقد کرنے کا اعلان کیا ہے جس میں بلدیاتی نظام میں قابل عمل اصلاحات پر مبنی سفارشات حکومت کو پیش کرنے کافیصلہ کیا گیا ہے۔مختلف پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے ناظمین کا کہنا ہے کہ وہ موجودہ پیچیدہ بلدیاتی نظام میں اصلاحات کے حامی ہیں۔ لیکن ان کا مطالبہ ہے کہ بلدیاتی نظام کو موثر بنانے کے لئے منتخب نمائندوں کو مزید اختیارات اور وسائل فراہم کئے جائیں تاکہ عوام کو ان کی دہلیز پر زندگی کی بنیادی سہولیات بہم پہنچائی جاسکیں۔انہوں نے ضلع کونسل کے ممکنہ خاتمے کی مخالفت کی۔اور اس خدشے کا بھی اظہار کیا ہے کہ بیوروکریسی اپنی مرضی اور پسند کا نظام لانے کے لئے حکومت کو شیشے میں اتار کر بوتل میں بند کرنا چاہتی ہے۔ ناظمین کے یہ خدشات اپنی جگہ درست ہیں۔ کیونکہ گذشتہ پانچ سالوں میں یہ دیکھا گیا ہے کہ افسر شاہی اسٹیٹس کو ہر صورت میں برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ وہ عوامی نمائندوں کے ماتحت کام کرنے کو تیار نہیں۔ جنرل مشرف نے جو بلدیاتی نظام متعارف کرایا تھا اس میں ڈپٹی کمشنر کا عہدہ ختم کرکے ڈی سی او کو ضلع ناظم کے ماتحت کردیاتھا۔ جس کی وجہ سے منتخب نمائندوں اور افسر شاہی کے درمیان چپلقش پیدا ہوگئی اور بلدیاتی نظام کے مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں ہوسکے۔ بلدیاتی اداروں کو جمہوریت کی نرسری کہا جاتا ہے۔ ترقیافتہ ممالک میں تمام وسائل بلدیاتی اداروں کے پاس ہی ہوتے ہیں۔ان اداروں سے خدمت اور کارکردگی کی بنیاد پر لوگ صوبائی اور قومی سطح کی سیاست میں داخل ہوتے ہیں ۔خیبر پختونخوا کے حالیہ عام انتخابات میں تقریبانصف درجن ایم پی ایز بلدیاتی اداروں سے آئے ہیں۔اگر ویلج اور نیبرہڈ کونسلوں کی سطح پر منتخب نمائندوں کو بااختیار بنایاجائے تولوگوں کو اپنے چھوٹے چھوٹے مسائل کے حل کے لئے ایم پی ایز اور ایم این ایز کے پیچھے بھاگنے اور ان کا سیاسی آلہ کار بننے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ضلع کونسل بلدیاتی نظام میں سب سے اہم ادارہ ہے۔ توقع ہے کہ نئے مجوزہ بلدیاتی نظام میں اسے مزید فعال، خود کفیل اور بااختیار بنایا جائے گا۔ البتہ تحصیل اور ٹاون کونسلوں کو ختم کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ ویلج اور نیبرہڈ کونسل کے ممبران کی تعداد میں کمی اس لئے ضروری تھی کہ وہ گذشتہ چار سالوں سے وسائل نہ ملنے کی وجہ سے بالکل غیر متحرک ہوگئے تھے۔ بہت سے کونسلرز نے اپنے لئے متبادل کام ڈھونڈ لیا تھا۔نیا بلدیاتی نظام ایسا جامع ہونا چاہئے کہ اسے عوام کی تائید و حمایت حاصل ہو۔ اور کوئی نئی حکومت اسے ختم کرنے کی جرات نہ کرسکے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
14157