Chitral Times

Jul 3, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

نوزائیدہ بلدیاتی اداروں کا مستقبل ۔ محمد شریف شکیب

شیئر کریں:

الیکشن کمیشن نے خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کا شیڈول تاحکم ثانی جاری کرنے سے روک دیاہے جس باعث خیبرپختونخوا کے اٹھارہ اضلاع میں بلدیاتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ تاخیر سے شروع ہونے کا امکان ہے۔ موسم کی صورتحال کے باعث بلدیاتی انتخابات مارچ یا اپریل میں کرانے پر مشاورت شروع کر دی گئی ہے، الیکشن کمیشن حکام کے مطابق جنوری اور فروری میں بیشتر اضلاع میں شدید برف باری کے امکان کے پیش نظر انتخابات کا التواء زیر غور ہے۔الیکشن کمیشن کو متعدد جماعتوں نے دوسرے مرحلہ کا انتخاب تاخیر سے کرانے کی درخواست دی تھی، الیکشن کمیشن جلد ہی صوبے میں بلدیاتی انتخاب کے دوسرے مرحلے کے شیڈول کا اعلان کرے گا۔ اس سے قبل الیکشن کمیشن نے 16جنوری کو خیبرپختونخوا میں دوسرے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات کروانے کا اعلان کیا تھا۔19دسمبر کو صوبائی دارالحکومت پشاور کے علاوہ مردان، چارسدہ، صوابی، بونیر، باجوڑ، نوشہرہ، کوہاٹ، کرک، ڈیرہ اسماعیل خان، بنوں، ٹانک، ہری پور، ہنگو، لکی مروت، مہمند اور ضلع خیبر میں بلدیاتی اداروں کے انتخابات ہوئے ہیں سترہ اضلاع میں 66تحصیلوں سمیت ویلج اور نیبرہڈ کونسلوں کے انتخابات کے نتائج بھی آچکے ہیں۔ ج

ن اٹھارہ اضلاع میں دوسرے مرحلے کے انتخابات ہونے ہیں ان میں اپرچترال، لوئرچترال، اپردیر، لوئر دیر، ملاکنڈ، سوات، شانگلہ، تورغر، اپر کوہستان، لوئر کوہستان، بٹگرام، مانسہرہ، ایبٹ آباد، اورکزئی، کرم، شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان شامل ہیں۔ یہ تمام پہاڑی علاقے ہیں جہاں دسمبر سے مارچ تک برفباری ہوتی ہے اور رابطہ سڑکیں بند اور کاروبار زندگی تقریباً مفلوج ہوجاتا ہے۔ ان علاقوں میں جنوری میں انتخابات کا انعقاد ممکن ہی نہیں تھا۔ جس کی نشاندہی مختلف سیاسی جماعتوں نے بھی کی تھی۔ بلدیاتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ اپریل میں بھی انجام پایا تو خیبر پختونخوا طویل وقفے کے بعد بلدیاتی ادارے بحال کرنے والا پہلا صوبہ بن جائے گا۔ صوبائی حکومت کا اصل امتحان منتخب بلدیاتی اداروں کو اختیارات اور وسائل کی منتقلی ہے۔

حکومت نے ویلج اور تحصیل کونسلوں کے بجٹ کی تیاری اسسٹنٹ کمشنرز اور تحصیل کونسلوں کی ڈپٹی کمشنرز کے سپرد کردی ہے۔ حالیہ بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں بیشتر اضلاع میں اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی جماعتوں کے امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیاصوبائی حکومت جے یو آئی اور اے این پی کے منتخب میئرز اور چیئرمینوں کو تمام مالی و انتظامی اختیارات سونپتی ہے یا انہیں بیوروکریسی کے رحم و کرم پر چھوڑا جاتا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ اگر حکومت نچلی سطح پر عوام کے مسائل ان کی دہلیز پر حل کرنا چاہتی ہے تو بلدیاتی اداروں کو مالی طور پر خودکفیل اور بااختیار بنانا ہوگا۔ یہی بلدیاتی ادارے گلیوں اور نالیوں کی پختگی، صاف پانی کی فراہمی، نکاسی آب، صحت و صفائی اور شہریوں کے چھوٹے موٹے مسائل حل کرتے ہیں۔

وسائل اور اختیارات کے بغیر بلدیاتی اداروں کا قیام سعی لاحاصل ہے۔ محدود وسائل اور اختیارات کے ساتھ شہری سہولیات کی فراہمی کا کام ٹی ایم اوزکی وساطت سے بھی ہوتا رہتا تھا۔ کروڑوں اربوں روپے خرچ کرکے انتخابات کرانے کی چنداں ضرورت نہیں تھی۔بلدیاتی اداروں کو جمہوریت کی نرسری قرار دیا جاتا ہے۔ جب نرسریاں سرسبزوشادات اور ہری بھری ہوں گی تب ملک میں جمہوری قدروں کو فروغ ملے گا۔ تعجب خیز امر یہ ہے کہ منتخب جمہوری حکومتوں نے ہمیشہ بلدیاتی اداروں کو نظر انداز کئے رکھا۔ ملک میں پہلی بار بنیادی جمہوریتوں کے نام سے بلدیاتی ادارے 1960کے عشرے میں فوجی حکمران کے عہد میں قائم ہوئے۔ دوسری بار 1980کے عشرے میں دوسرے فوجی حکمران نے بلدیاتی ادارے قائم کئے۔تیسری بارسن2000کے بعد جنرل مشرف نے اپنے دور میں بلدیاتی انتخابات کروائے۔ آج جمہوری حکومت کے دور میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد نہایت خوش آئند ہے۔نومنتخب عوامی نمائندے اور عوام بھی توقع رکھتے ہیں کہ صوبائی اور مرکزی حکومت نوزائیدہ بلدیاتی اداروں کی سرپرستی کریں گی تاکہ اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کے ثمرات عوام تک پہنچ سکیں۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامین
56606