Chitral Times

Jul 3, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

نوائے سُرود –  تقلیدی رویہ اور ہماری پہچان – شہزادی کوثر

Posted on
شیئر کریں:

نوائے سُرود –  تقلیدی رویہ اور ہماری پہچان – شہزادی کوثر

ابن آدم فطری طور پر تقلید کا پابند ہے ۔بچپن میں مختلف آوازیں سن کر انہیں اپنے طور پر ادا کرنے کی کوشش ہی اس کی تقلیدی فطرت کی غمازی کرتی ہے۔ رفتہ رفتہ وہ زندگی گزارنے کے ڈھنگ سے واقفیت حاصل کر لیتا ہے ۔اس ضمن میں سب سے پہلے سماعت سے کام لیا جاتا ہے۔ اس کے بعد بصارت جو مشاہدہ کی صورت میں اپنا کردار ادا کرتی ہے، دوسروں کو کرتا ہوا دیکھ کر ان جیسا کرنا تقلیدی روش ہے جو بعض اوقات فائدہ مند ہوتا ہے کیونکہ سیکھنے کے عمل میں قوت مشاہدہ بہت مدد دیتی ہے، اس سے وقت اور توانائی دونوں کی بچت ہوتی ہے لیکن مشاہداتی عمل اس وقت کامیاب ہوتا ہے جب اپنی تخلیقی صلاحیتوں کوبھی بروئے لایا جائے ورنہ وہ سوائے تقلید و نقل کے کوئی اور نتیجہ سامنے نہیں لاتا۔ اگر انفرادی سطح تک تقلیدی عمل کی کارفرمائی ہو تو نقصان اتنا نہیں ہوتا جتنا اجتماعی سطح پر تقلید برباد کرتی ہے ،بد قسمتی سے ہمارا چلن تقلیدی رہا ہے یعنی اندھی تقلید والا چلن۔۔۔۔۔۔۔۔

 

ہم بحثیت قوم اپنی قومی شناخت برقرار رکھنے میں ناکام ہو تے جا رہے ہیں ،ہم ان روایات کو بھول چکے ہیں جنھیں اپنا کر ہم اپنا تشخص برقرار رکھ سکتے ہیں ۔ ہر معاشرہ تہذیبی و ثقافتی طورپر اپنی کچھ اقداررکھتا ہے جو اس کی شناخت کا ذریعہ ہوتی ہیں ،المیہ یہ ہے کہ اقدار کے معاملے میں بھی ہماری حیثیت پیچھے رہ جانے والوں کی ہی رہی ہے ،دوسروں کی دیکھا دیکھی زندگی گزارنے کا طریقہ اور تقلید کی روش نے ہمیں وہاں پہنچایا ہے جہاں ہم اپنے ہی خدوخال کو پہچاننے سے عاری ہو گئے ہیں یہ کیفیت “غلامی ” کہلاتی ہے جو تہذیبی، معاشرتی، ذہنی اور اخلاقی انحطاط کا نتیجہ ہے۔ اس زمین پر مختلف رنگ ، نسل اور قوموں کے لوگ بستے ہیں ، جن میں سے ہر ایک علاقائی، جغرافیائی اور معاشرتی تقاضوں کی وجہ سے دوسرے سے مختلف ہے ،ان کے علاوہ مذہبی ،قانونی اور اخلاقی تقاضے بھی ہیں جن کی بنا پر زندگی کے اصول مرتب ہوتے ہیں اور ان پر عمل کیا جاتا ہے ۔ضروری نہیں کہ ہر اصول کو قانونی شکل دے کر ہی قابل عمل بنایا جائے بلکہ اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے کچھ غیر تحریری اصول بھی ہوتے ہیں جو شعوری یا لاشعوری طور پر قابل عمل ہوتے ہیں ۔

 

ان تمام قوانین اور اصولوں کو پس پشت ڈال کردوسرے معاشرے اور تہذیب کے تقاضوں کو اپنانے سے سوائے اپنی پہچان گنوانے کے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ جب ایسے لوگوں پر نظر پڑتی ہے تو ان کی ذہنی حالت اور سوچ پر رحم آتا ہے کہ بنا سوچے سمجھے دوسروں جیسا بننے کی آرزوانہیں کتنا حقیر بنا رہی ہے لیکن انہیں اس کا اندازہ ہی نہیں ۔ تقلیدی تہواروں کی فہرست اگرچہ بہت طویل ہے جن میں سے ایک “ویلنٹائن ڈے”ہے جس کی تیاریاں دیکھنے کو مل رہی ہیں ۔اس دن کے پس منظر اور تاریخ سے بے خبرنوجوان محبت کے نام پر تہوار مناتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ اسلام میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ۔ محبت ایک پاکیزہ اور خوبصورت جذبے کا نام ہے ،جو مختلف رنگوں میں ہمارے رگ و پے میں موجود ہے اور اپنی خوشبو سے ہماری زندگی کو معطر بناتا ہے اگر اس میں ملاوٹ کرتے ہوئےناجائز تعلق کی آمیزش کی جائے تو اس سے خوشبو کی لپٹیں نہیں بلکہ تعفن کے بھبکے اڑنا شروع ہوجاتے ہیں ۔

 

ہر ذی شعور اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ ہے کہ ویلنٹائن ڈے خرافات اور فحاشی کے اعلانیہ اظہار کا نام ہے ،غیر مسلموں کے اس تہوار/ دن کو منانے والے مشرقی اقدار کی پامالی کے ساتھ اسلامی احکامات کو بھی ہوا میں اڑا دیتے ہیں جس سے فحاشی اور بد اخلاقی عام ہو کر معاشرے میں بگاڑ کا سبب بن جاتی ہے۔ اسلامی معاشرے میں ایسے ہر تہوار کی بھر پور حوصلہ شکنی ہونی چاہئیے۔ گھروں سے لے کر تعلیمی اداروں اور معاشرتی سطح پر اس کے خلاف لائحہ عمل مرتب ہونا چاہیئے ،کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم غیروں کے رنگ میں رنگ کر اپنی پہچان ہی نہ کھو دیں ۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
71465