Chitral Times

Jul 2, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

نوائے سرُود …….. امتحانی نظام ……………. شہزادی کوثر

Posted on
شیئر کریں:

سردیوں کےگزر جاتے ہی دو موسم اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ آتے ہیں، ایک بہار جو مری ہوئی زمین میں نئی زندگی کی روح بن کر نمودار ہوتی ہے اور ہر شے کو نکھار اور تازگی بخشتی ہے اور دوسرا امتحانات کا موسم ہے جو انسان کے چہرے سے نکھار اور تازگی کا سارا رس نچوڑ دیتا ہے۔ اس موسم کے اثرات والدین اور بچوں دونوں پر شدت سے پڑتے ہیں۔ محنتی طالب علم اپنی پوری صلا حییت صرف کر کے تیار ہوتا ہے جب کہ کام چور طالب علموں کو یہ پریشانی لاحق رہتی ہے کہ ڈیوٹی کس کی لگے گی، ہال میں جاتے ہوئے چکنگ ہوگی تو کیا ہو گا اور نقل کے لیے سب سے چھوٹا پاکٹ بک کہاں سے ملے گا۔ اس موسم میں سب سے زیادہ گائڈ اور پاکٹ بک فروخت ہوتی ہیں جس سےبک سیلرز کی موجیں ہوتی ہیں ۔ والدین کو یہ فکر دامن گیر ہوتی ہے کہ ہمارے بچے کی محنت نقل کی وجہ سے ضائع نہ ہو ،اور نہ پڑھنے والوں کے والدین کو ڈر ہوتا ہے کہ اگر نقل نہ ہوئی تو ہمارے بچے کیسے پاس ہوںگے گویا یہ ان کا امتحان ہے۔ اصل میں یہ ڈیوٹی پر مامور عملے کا امتحان ہے کہ وہ اپنے فرض کی ادائگی میں کتنے مخلص ہیں ،ان کا ضمیر ذندہ ہے یا کب کا دفن ہو چکا ،اپنے مفاد اور فرض میں وہ کس کو فوقییت دیتے ہیں ؟انہیں اپنے پیشے کی لاج رکھنی ہے یا رشتہ داروں اور جاننے والوں کو خوش کرنا ہے، انہیں رب کے آگے جواب دہ ہونا ہے یا لوگوں کے سامنے؟ افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ یہ سوچ کسی کی نہیں ہوتی، انہیں صرف اور صرف پیسے کمانے ہیں چاہے کسی کا حق ضائع ہو یا کسی کی محنت۔۔۔ بہت سے ہالز میں صحیح طور پر چیکنگ ہی نہی ہوتی۔طالب علم تمام تر اسلحے سے لیس ہالز کا رخ کرتے ہیں، ان کے پاس سے اتنی گائڈز برامد ہونگی کہ بوریاں بھر جائیں مگر عملہ بڑے آرام سے ان کے درمیان گھومتا ہے مگر مجال ہے کہ ایک پرزہ پکڑ لیں ، ناک کے نیچے ہونے والی نقل انہیں نظر نہیں آتی لیکن باتیں اتنی بڑی کریں گے کہ انکا سر پیٹنے کو دل کرتا ہے۔ سننے میں تو یہ بھی آرہا ہے کہ ایک کی جگہ دوسرے کو بٹھا کر پرچہ کروایا جاتا ہے ،اگر عملے میں سے کوئی آواز اٹھا لے تو اسے طرح طرح کے القابات سے نوازتے ہیں اور ذاتیات پر اتر آتے ہیں ، ایسے محنت کرنے والوں کا حق نقل خوروں کے دامن میں ڈالا جاتا ہے۔ ایسا کرتے ہوئے ان کی روح نہیں کانپتی انتہائی ڈھیٹ بن کر جواب دیتے ہیں کہ ۔۔۔خود تو نقل کر کے آتے ہو ان بیچارون کے ساتھ یہ سلوک کہان روا ہے؟ ان کی بد دعا لگ جائے گی۔۔۔۔یہ پاکستان ہے ،،ہر جگہ یہی ہوتا ہے تم اتنے پاک باز کہاں سے آئے ہو ۔۔۔؟ایسے لوگوں کے نزدیک پاکستان ایک گالی ہے،بدعنوان لوگوں کی سر زمین ،اس کا نظام کبھی ٹھیک نہیں ہو سکتا۔۔کاش کوئی انہیں سمجھاتا کہ پاکستان ہماری وجہ سے خراب ہے اسے ٹھیک بھی ہمی نے کرنا ہے،اس کے لیے کوئی فرشتہ نازل نہیں ہو گا، کوئی بھتری کی کوشش کرتا ہے تو برے الفاظ سے پکارا جاتا ہے کوئی کرے بھی تو کیا کرے اور کیسے؟ نقل کے اس نظام کو پروان چڑھانے کی ایک اور بڑی وجہ اچھا رزلٹ دینے والے سکولوں کو ملنے والی انعام کی رقم ہے جس نے ان کے مستقبل کو داو پر لگا دیا ہے۔ بہت سے سکولوں میں اپنے طالبعلون کے لیے امتحانی ہال مقرر کیا جاتا ہے،وہاں پر مامور عملے کے لیے باری باری اس سکول لے ٹیچرز کی طرف سے زبردست لنچ کا اہتمام کیا جاتا ہے تاکہ نقل کا بندوبست ہو سکے، لقمہ قبلو غریر، آپ سمجھ گئے ہوں گے پھر اس سکول اور پرنسپل کے وارے نیارے۔۔۔ خراب نظام کی ایک اور وجہ یہ سوچ ہے کہ سٹوڈنٹس کو فیل نہ کیا جائے جیسے بھی ہو انہیں گھسیٹتے ہوئے پاس کریں تا کہ ان کے والدین کی وجہ سے پریشانی نہ ہو۔۔۔ ایسی سوچ لے کر ہم دنیا کا مقابلہ کرنے کی کوشش میں ہیں آفرین۔۔۔ ملک کو معماروں کی ضرورت ہے بیماروں کی نہیں۔ ہم اپنے ہی ہاتھوں مستقبل کو برباد کر رہے ہیں ۔ ابھی تو ان معصوموں کو لگے گا کہ شکر ہے آسانی سے میٹرک کر لیا، جب عملی زندگی میں قدم رکھیں گے تو چپراسی کی پوسٹ کے لیے بھی این ٹی ایس پاس کرنا پڑے گا تو ہمیں بد دعا دیں گے۔ ابھی بھی وقت ہے والدین اور اساتذہ ہوش کے ناخن لیں ۔بچوں کو محنت کی عادت ڈالیں ،نقل کی حوصلہ شکنی کریں ہمیں کوشش کرنی چاہیے تھوڑی ہی صحیح، جب سب مل کر اس ناسور کو اکھاڑ پھینکیں گے تبھی تو ہمارا نظام بہتر ہو گا۔۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
20315