Chitral Times

Jul 1, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

نئی تحقیق کے ہوشرباء انکشافات ۔ محمد شریف شکیب

شیئر کریں:

نئی تحقیق کے ہوشرباء انکشافات ۔ محمد شریف شکیب

نئی تحقیق سے یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ تنہا زندگی گزارنا مردوں کی صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ ڈنمارک کی کوپن ہیگن یونیورسٹی کی اس تحقیق میں 4835 افراد کے خون کے نمونوں کے ذریعے جسم میں ورم کی مجموعی سطح کی جانچ پڑتال کی گئی۔ خون کے ٹیسٹوں میں ایسے پروٹین کو دیکھا جاتا ہے جو جسم میں ورم کی سطح کا عندیہ دیتے ہیں۔ تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ شادی شدہ مردوں کے مقابلے میں تنہا یا شریک حیات سے الگ ہونے والے مردوں میں ورم کی سطح نمایاں ہوتی ہے، مگر خواتین میں ایسا اثر دیکھنے میں نہیں آیا۔تحقیقی رپورٹ میں بتایاگیا ہے کہ ورم کی زیادتی امراض قلب کا باعث بننے والا اہم عنصر ہے۔

حیرت انگیز طور پر تنہا زندگی گزارنے یا شادی ٹوٹنے والی خواتین کو جسمانی طور پر نقصان پہنچنے کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ جب ورم کے خطرات کا علم ہوگا تب ہی لوگ صحت مند طرز زندگی اختیار کرسکتے ہیں۔ قبل ازیں برطانیہ کے آسٹن میڈیکل اسکول کی تحقیق میں بتایا گیا تھاکہ شریک حیات کا ساتھ ہائی بلڈ پریشر، ہائی کولیسٹرول اور ذیابیطس ٹائپ ٹو سے موت کا خطرہ کم کردیتا ہے۔جس کی بنیادی وجہ شوہر یا بیوی کی جانب سے اپنے شریک حیات کی نگہداشت ہے جو ان جان لیوا امراض کا اثر کم کردیتا ہے۔ شریک حیات ہی اپنے ساتھی کی ادویات،غذا اور مناسب جسمانی سرگرمیوں کا خیال رکھتی ہے تحقیق سے ثابت ہوا کہ شادی شدہ افراد میں ہائی کولیسٹرول کے عارضے سے موت کا خطرہ 16فیصد کم ہوجاتا ہے۔ بلڈپریشر سے موت کا خطرہ 14 فیصد اور ذیابیطس کا خطرہ 10 فیصد تک کم ہوجاتا ہے۔

معاشیات کا ایک مسلمہ اصول یہ ہے کہ ”اگر دیگر عوامل جوں کے توں رہیں تو“ معاشیات کا فارمولہ کارگر ہوتا ہے۔ازدواجی زندگی میں بھی یہی اصول کارفرما ہوتا ہے۔اگر میاں بیوی کے درمیان خارجی اور داخلی امور پر مکمل ہم آہنگی ہو۔تب ہی جان لیوا امراض سے موت کا خطرہ کم ہوسکتا ہے۔ دیگر عوامل جوں کے توں نہ رہنے کی صورت میں موت کے خطرات پہلے سے بھی بڑھنے کا اندیشہ ہوتا ہے اور کچھ لوگ اسی اندیشے کی بیماری میں مبتلا ہوکر عمر بھر تنہا رہتے ہیں۔ثابت ہوگیا کہ شادی کرنا مذہبی فرض اور سماجی ضرورت ہی نہیں۔بہت سی اخلاقی، معاشرتی، معاشی اور خاندانی خرابیوں سے نجات اور مہلک امراض سے بچاؤکا ذریعہ بھی ہے۔کہاجاتا ہے کہ بی بی حوا کو اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی پسلیوں سے پیدا کیا۔ انسان کی پسلیاں چونکہ ساخت کے لحاظ سے ٹیڑھی ہوتی ہیں اس لئے عورت بھی پیدائشی طور پر ٹیڑھی فطرت کی ہوتی ہے۔

دانش مند مرد اس کے ٹیڑھے پن سے ہی فائدہ اٹھاتے ہیں اسے اپنی پسند کے سانچے میں ڈھالنے کے لئے بزور طاقت سیدھی کرنے کی کوشش کی گئی تو اس کے ٹوٹ جانے کے ننانوے فیصد خطرات ہیں۔ازدواجی زندگی کے حامیوں نے اپنے موقف کے حق میں کئی مقولے وضع کئے ہیں کہاجاتا ہے کہ میاں بیوی ایک گاڑی کے دو پہیے ہیں ناقدین کا کہنا ہے کہ گاڑی کے تو چار پہیے ہوتے ہیں گویا مرد کو یہ حق حاصل ہے کہ ضرورت پڑنے پر مزید دو پہیوں کا بندوبست کرسکتا ہے۔ ان کا یہ بھی موقف ہے کہ دین اسلام نے بھی مردوں کو بہ یک وقت چار شادیوں کی اجازت دی ہے۔ ضروری نہیں کہ اضافی بیویاں انسانی جسم میں ورم کی شدت کم کرنے میں ہی معاون ثابت ہوں گی۔ اکثر مواقع پر دیکھا گیا ہے کہ زیادہ بیویوں کے شوہر جلد انہیں داغ مفارقت دے جاتے ہیں۔سائنسی تحقیق سے سرمنہ انحراف تو نہیں کیاجاسکتا لیکن بندے کو اپنے مزاج، معروضی حالات، معاشی حالت اور سائیڈ ایفکیٹ کے خطرات کو پیش نظر رکھ کر دوسری، تیسری، یا چوتھی شادی کا فیصلہ کرنا چاہئے۔ ایک بلا کے ساتھ بند ہ لڑجھگڑ کر بھی گذارہ کرسکتا ہے مگر بہت سی بلاؤں کا مقابلہ کرنا آسان نہیں ہوتا۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57612