Chitral Times

Jul 2, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

میں روزے سے ہوں……. تحریر: ظفر احمد

Posted on
شیئر کریں:

رمضان المبارک کا مقدس مہینہ اور کروڑوں مسلمانوں کے ساتھ میں بھی روزے سے ہوں۔ چونکہ میں روزے سے ہوں تو میرے کچھ privileges بنتے ہیں مثلاً رمضان میں میرے ذمے جو کلاسیس پڑھانے ہیں وہ میں ادھا بھی نہیں پڑھاؤں گا۔ جس ادارے میں تنخواہ لیکر کام کرتا ہوں وہاں کا ذمہ دار بھی مجھ سے نہیں پوچھ سکتا کیونکہ میں روزے سے ہوں۔ غصہ میری ناک پہ چڑھا رہے گا اور کسی بھی وقت کسی پر بھی پر نازل ہو سکتا ہے۔ سرکار نے رمضان کے مقدس مہینے کا خیال رکھتے ہوئے کام کے دورانیے کم کر دئیے ہیں مگر اس پر اکتفا نہیں کروں گا بلکہ میرے کام کا دورانیہ میرے موڈ کے تابع ہو گی۔ عید پر سرکاری چھٹی تین کی ہے مگر میں کم ازکم ایک ہفتہ تک نکال لوں گا۔

اُدھر میرے ایک دوست گل خان کی پکوڑوں کی دوکان ہے، اب اس کی دوکان پر روزے داروں کی رش لگی رہتی ہے تو demand کے قانون کے مطابق اس نے بھی قیمتیں دوگنی کردی۔ اب چونکہ سرمایہ درانہ نظام میں منافع ہی سب کچھ ہے تو اسے مذید بڑھانے کے لیے گل خان کو سستے اور غیر معیاری کوکنگ اوئل اور دوسری چیزیں چاہیے تھی جو اس نے دوڑ دوپ کے حاصل کر لیے۔

ساتھ ہی توبوز خان کی سبزیوں کی دوکان ہے، اب چونکہ سب نے موقع کی مناسبت سے قیمتیں بڑھا دیئے ہیں، تو اپنے اخراجات اور آنے والی عید کی اخراجات کو مد نظر رکھتے ہوئے تربوز خان نے بھی قیمتیں اپنی مرضی کے تابع کر دیئے ہیں۔ اب چونکہ انسان معاشرتی حیوان ہے جو کہ اپنے اردگرد کے ماحول اور لوگوں سے الگ تھلک نہیں رہ سکتا چنانچہ درزی سے لیکر میکینیگ تک سب نے اپنے اپنے ریڈ بڑھا دیے جو مالیاتی کرپشن نہیں کر سکتے انھوں نے کام چھوڑ کر سستی اور لمبی تان کر سونے کی ٹھان لیئے۔ چونکہ روزے سے ہیں تو کوئی پوچھ گھچ بھی نہیں کرسکتی اور نہ ہم کسی کو یہ موقع دینگے۔

ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔ روزہ صرف بھوکے پیاسے رہنے کا نام نہیں بلکہ اس کے اور بھی تقاضے ہیں۔ روزے دار کے بھوک و پیاسے کے پیچھے بھی اپنا فلسفہ ہے جسے ہمیں عملی طور پر سمجھنا چاہیے۔ مسلمان ہونے کے ناتے رمضان المبارک کا احترام بہت ضروری ہے۔ آیئے ہم عہد کر لیں ہم سب روزوں کو اسکے صحیح روح کے ساتھ رکھیں۔ بھوک و پیاس سے ہم ان لوگوں کی حالت کو محسوس کر لیں جو عام دنوں میں بھی بھوک و پیاس کا شکار ہیں۔ اگر ہم سارا سال برے کاموں سے باز نہیں آ سکتے تو کم از کم روزوں میں اسکی مشق کر لیں۔ اور نہیں تو رمضان میں ملاوٹ، دو نمبری، بے جا منافع خوری، جھوٹ، دھوکہ و فریب اور منافقت سے باز رہنے کی پرئکٹیس کر لیں۔ سارا سال نہیں تو کم از کم رمضان میں ہی کام چوری، غصہ، بغض و فریب اور دوسرے سارے ایسے کاموں سے خود کو روکیں جو اخلاقیات کی ڈکشنری میں برے تصورکیے جاتے ہوں۔ آخر یہی تو بنیادی فلسفہ ہے رمضان کے روزوں کی۔ ہم میں سے ہر مسلمان کو سوچنا ہوگا کہ میں “روزے سے ہوں” تو وہ کون سے بنیادی چیزیں ہیں جو مجھے کرنے ہیں اوروہ کون سے ایسے کام ہیں جن سے مجھے اجتناب کرنا چاہیے اور ان میں کتنے ایسے ہیں جنھیں ہم کر پاتے ہیں۔ تمام نہ صحیح چند ہی کی مشق کر لیں۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
22037