Chitral Times

Jul 4, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

میری ڈائری کے اوراق سے ۔ شاہانہ آدمی تھے ہمارے دلوں پر راج کرتا رہیگا ۔ تحریر: شمس الحق قمرؔ

شیئر کریں:

میری ڈائری کے اوراق سے ۔ شاہانہ آدمی تھے ہمارے دلوں پر راج کرتا رہےگا ۔ تحریر: شمس الحق قمرؔ

کہتے ہیں کہ الفاظ میں بلا کی طاقت ہوتی ہے  ،   اچھے  اور  بُرے الفاظ انسان پر اپنی گہری چھاپ چھوڑ جاتے ہیں، ایسا ہی ہوا   منیجر شیر نادر مستوج کے ایک  لفظ میں قلزم کی  سی  گہرائی  تھی  کہ ایک جملہ  جو صوبیدار ( ر)  حاکم اکبر علی خان ( مرحوم ) کی تعزیتی مجلس میں اُن سے ادا ہوا  ، تعزیتی ہجوم کواشکوں کے سمندر میں ڈوبو کے رکھدیا۔  موصوف آئے ، بیٹھے، فاتحہ خوانی ہوئی اور پھر  اُن  سے ضبط کا دامن  بے محابا چھوٹ گیا۔  انہوں نے صرف ایک جملہ بولا ” شاہانہ آدمی تھے ہمارے  دلوں پر راج  کرتا  رہےگا  “   یہ جملہ  پتھر پر لکیر کی طرح   محفل میں موجود   تمام لوگوں کے دلوں پر پیوست ہوا ۔موصوف نے   اور کوئی گفتگو  نہیں فرمائی  سوچوں میں محو رہے    لیکن  اُن کا چہرہ  ( مرحوم ) اکبر علی خان سے اُن کی کئی سالوں پر محیط  والہانہ  محبت  ورفاقت اور پھر اُن کے داغ مفارقت کے دکھ کا ایک شفاف آئنہ  بنا   ہوا تھا اس آیئنے کا جس نے بھی سامنا کیا  اشک بار ہوا   ۔ اُن کے اسی ایک لفظ میں وہ نشتریت  تھی کہ جملہ  ایک   دل سے  نکل کر  ہزاروں دلوں  کے پار ہوا ۔تعزیتی محفل پر ایک ایسی شاندار اورطویل سکوت  و خاموشی طاری ہوئی کہ صوبیدار( مرحوم) کے کچھ ہم عصر اور کچھ ہم مشرب و ہم رکاب دوستوں کی رفاقت کے آنسوؤں کے ٹپکنے کی آواز سنائی دینے لگی ۔   تعزیتی محفل میں موجود   دوسرے تمام   لوگوں کی طرح میں  بھی  ماضی کے دھندلکوں میں محو ہوگیا تھا ۔  ( مرحوم)  صوبیدار  کے ساتھ میری یاد اللہ کے دو  اہم زا ویے تھے  ،پہلا  زاویہ:  وہ میرے بے تکلّف دوستوں کی پہلی صف کے علمبردار تھے  اور  دوسرا  تعلق:   اُن کی بیٹی  میرے عقد میں آئی تھی ( 1992)    ۔ یوں  اُن کے  ساتھ بیتے لمحات  یکے  بعد دیگرے  میرے  ماضی کے جھروکوں کے اُس پار   ایک پردے پر  چلتے  رہے ۔  میری اُن کی  بے  تکلّف   رفاقت کا  زمانہ   تقریباً  سن 1984 سے   28 جون سن 2021  کے 11 بجکر  20  تک   محیط ہے    ۔ دوستی کے رشتے کی وجہ اور اُس کی  استواری       قدر مشترکات    کے عوامل کی کارفامائی پر   ہوتی ہے     ۔     اگرچہ میری خالہ  اُن  کی زندگی کا نصف حصہ تھیں   لیکن میری اور اُن کی بے تکلّف میل جول میں اُن کی  قدر مشترک اُن کی موٹر سائکل تھی ۔

  1983 میں  حاکم اکبر علی خان  چترال سکاؤٹ سے  جونیئر  کمیشنڈ  افسر  کے عہدے پر سبکدوش ہوئے۔  اُنہیں  سماجی کاموں میں جنون کی حد تک دلچسپی تھی ۔ اُس زمانے میں گاڑیوں کا  رواج بہت کم تھا    کسی  ایمرجنسی  اور ضروری  کام کے سلسلے  میں ایک جگہے سے دوسری جگہے  تک رسائی   میں مسافت کی بڑی  دقتیں ہوا کرتی  تھیں  لہذا  اُنہوں نے اس مسئلے کے پیش نظر   ہونڈا  موٹر  سائکل   200 سی سی مبلع 13000  روپے رائج الوقت پاکستانی   میں خریدی تھی    جو کہ اُس زمانے میں  خطیر رقم  تھی ۔  میں  نے غالباً  جون ، 1984   کے  کسی دن   اُنہیں پہلی بار بونی میں    دیکھا   اُس وقت وہ اپنے سسرال  (موردیر )کی طرف رو بہ سفر تھے (  اُن کا سسرال میرا ننھیال ہے )۔   انہوں  نے ہمارے گھر میں  مختصر وقت کے لئے قیام کیا ۔  انہوں نے موٹر سائکل سواری کے  تمام  قوانیں  و ضوابط مکمل طور پر اپنائے ہوئے تھے ۔ سر پر کالے رنگ کی    مظبوط آہنی  ٹوپی    ،  ٹوپی سے ملحق چہرے  کے عین سامنے   دبیز  تہہ والا     قدرے کشادہ  حفاظتی شیشہ  جوکہ ایک چھوٹے سے ہیلی کاپٹر  کے دہن کی مانند معلوم ہو  رہا تھا ،گرد و غبار  اور موسمی تغیرو تبدّل سے    اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کےلئے   برساتی کوٹ  جس سے کہ اُن کا  جسم سر تا پا    ڈھنپا ہوا تھا ،  فوجی  جوتوں کے مماثل  بڑے  بڑے    انگریزی موزے ،  گھٹنوں تک طویل سوتی  جرابیں  جو جینس کی بنی پتلوں    کے پائنچوں کو گردو غبار سے محفوظ رکھی ہوئی تھیں   ۔ موٹر سائکل ہمارے گھر کے صحن کے قریب   رکی ۔ موصوف اُترے  اور موٹر بائیک  کو  ڈبل اسٹینڈ پر استادہ کیا     اور سائیڈ سے کچھ پرزے درست کیے (  بعد میں معلوم ہوا کہ  پٹرول   کو  بند کیا تھا ) ۔    اُس  وقت میں 15  یا 16 سن کا  بے عنان لڑکا تھا    ۔  ایک ایسی جدید سواری کو اپنے گھر کی  طرف آتے ہوئے خوشی  بھی ہوئی  اور  بے حیرت بھی ۔مجھے ایسا لگا کہ  کوئی اور مخلوق ہمارے گھر میں وارد  ہوئی ہے ۔

میری ڈائری کے اوراق سے

   میرے گھر والوں سے ملاقات کے بعد  انہوں نے  ایک کمرے میں جاکر  موٹر بائیک  والا لباس   اتار کے    جب عام روپ میں آئے تو  اُن کا حسن دیدنی تھا۔   میرے دادا  ( مرحوم  2001) نے اُن کی طرف دیکھ کر  ہم سے مخاطب ہو کر کہا  ” صوبیدار    نہانگ موش لہ “  (لفظ  نہانگ  کھوار میں محاورتاً   بڑے قد کاٹھ ، خوبرو  اور جاذب  نظر کے معنوں میں مستعمل ہے ) اُن کیموٹر سائکل کے پیچھے  اُن  کا  بریف کیس بھی ربڑ سے باندھا ہوا تھا۔    اگر چہ یہ صندوق  قد میں مختصر  تھا لیکن اُس کے اندر  روزمرہ زندگی کے استعمال کی تمام  اشیا ء موجود   تھیں :     ناخن کاٹ،  ریڈیو ، ٹارچ ،     فوری طبی  امداد ،    شیونگ مشین ، سفری صابن،  شیمپو ، توٹھ  برش اور  ٹوتھ پیسٹ ، سفری تولیہ ، ٹوتھ پک کی ڈبی ،   ریگمال ،   ویلس سیگریٹ کی ڈبی،  ایلفی  اور ربڑ کے ایک دو ٹکڑے   میں نے  کئی  بار خود اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں ۔       وہ جب گھر میں چائے پینے لگے تو میں نے باہر آکر ایک بار پھر موٹر سائکل کے ارد گرد گھوم گھوم  کرطواف  کیا ۔  اس  جدید مشین کو  دیکھ کر دل میں بار بار ایک آرزو   اُٹھتی اور دوم توڑتی رہی   کہ کاش میرے پاس بھی  ایسی  ہی مشین ہوتی   تو میں بھی  اُسی نہج سے  سفر کرتا جو یہ حضرت کرتے ہیں   ۔ 

اُسی سال میرے والد کے چھوٹے بھائی     ریٹائرڈ   بنک منیجر آمیر افضل خان نے کاواساکی  جی- ٹی – آر   100  سی سی  خریدی  تو   میرا  خواب بھی شرمندہ تعبیر ہوا  گویا زندگی کی ایک اہم آرزو کی تکمیل ہوئی ۔  میں نے  موٹر  سائکل چلانا سیکھا اور اُس موٹر سائیکل پر پہلا سفر  چپاڑی کا کیا ۔  جب میں  حاکم  ( مرحوم ) صوبیدار  (ر)  اکبر علی کے گھر واقع   علی باغ پہنچا   تو مجھے دیکھ کر اُن کا دل باغ باغ ہوا    جیسے کسی جگری دوست کو برسوں کے بعد دیکھا ہو۔  آہستہ آہستہ بہت ساری  قدریں مشترک پائیں جیسے  وہ بھی ریڈیو کا  بےحد شوقین تھے میں بھی ریڈیو کا ریسا تھا ،  ٹارچ ، کیمرہ  وغیرہ کے ساتھ کھیلنا  مجھے  بھی اچھا لگتا تھا وہ تو  اس کام میں استادوں کے استاد تھے  ۔  شام کے  کھانے میں   ہر طرح کا طعام دستر خواں پر  سجا تھا  لیکن مجھے سب سے بڑی حیرت اس بات پر  تھی کہ  میرے  ساتھ اتنے احترام   سے  پیش آتے تھے   کہ جیسے میں عمر  میں اُن سے بڑا تھا  ۔    اس سے بھی بڑھ کر ایک اور خوبی اُن میں جو  دیکھی وہ یہ تھی کہ  کھانہ کھانے کے وقت  گھر کے تمام افراد دستر خوان  پر ادب سے  بیٹھے     ہوتے تھے جو اُس زمانے میں  بہت کم خاندانوں کا  خاصا  ہو ا کرتا تھا ۔  شاید یہی وجہ ہے کہ  آج  اُن کی اولاد   کے اندر  بھی  دوسروں  کے احترام  اور  محبت کا جذبہ  کوٹ کوٹ کے بھرا  ہوا ہے ۔ ایک طرف   اتنا ملائم  کہ ہاہرسے آنے والے ہر مہمان اور ہر رشتہ دار کے   پاؤں تلے خاک ہوتے تھے لیکن تصویر کے دوسرے رخ  پر   اپنے گھر میں  سب سے بڑے   ڈیکٹیٹر دِکھتے     تھے ۔ گھر میں کسی کی مجال کہ کوئی کام اُن کی مرضی کے خلاف  کرکے    اُن کے مشفقانہ  عتاب  سے  بچ نکلے ۔      ڈیکٹیٹر بھی  اُصول کے تھے    اُن اصولوں میں سب سے  اہم  ننگ و ناموس ِ برادری ، امور خانہ داری  ،   اور احترام    رشتہ داری    میں  عزت و احترام  کی پاسداری    اُن کے اپنے  اور اپنے خاندان کے لئے وضع کردہ  ضوابط میں وہ مقام رکھتے ہیں      کہ جن سے   مرنے  تلک سمجھوتہ  سہواً بھی نہیں کیا  ۔    باا صول  زندگی  ،   شاہانہ مزاج  اور    خفیف سی عامریت پسندی   مہتر چترال   سرمظفر الملک  کی صحبت سے ملی تھی ۔       اکبر علی خان  (     مرحوم) اور اُن کے بڑے بھائی    رحمت اکبر خان  ( مرحوم )    نے  ایک مرتبہ  6 مہینے اور ایک متربہ  چار مہینے  مہتر چترال  سر مظفر الملک     کی    صحبت میں درباری  زندگی  کو   نہ صرف قریب سے دیکھا بلکہ  شاہانہ  زندگی  اپنائی  اور زندگی بھر   درباری تربیت کا اثر ان  کی زندگیوں پر حاوی رہا۔

میری ڈائری کے اوراق سے

          سر مظفر الملک ( مرحوم ) جب  شیر خوار  نونہال تھے تو   اُس کی بہتر تربیت  اور پرداخت و رضاعت کے لئے     تورکہو   رائین میں  اُس زمانے کے  مہتروں کے پائے کی مشہور  شخصیت   شاہ زرین      چرویلو ( مرحوم )   جو کہ  سر اعلیٰ حضر ت کے مشیر بھی  رہے تھے  اور  مختصر وقت کے لئے  تورکہو کے گورنر  بھی رہے۔ اُن کے بارے میں مشہور ہے   کہ  مہتر چترال کے دربار میں  شاہ زرین کے حکم کے بغیر پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا  تھا ،کے  خاندان کے سپرد کیا گیا     یوں   یہاں بڑے ناز و نعم سے   اُن کی تربیت و   رضاعت  ہوئی ۔  یہاں  یہ ذکر بھی  ضرورری سمجھتا ہوں کہ  ملاکنڈ ڈویژن سے پہلی خاتون  سنیٹر  محترمہ فلک ناز بھی  شاہ زرین چرویلو کی    اولاد میں سے ایک ہے۔  یوں سر مظفر الملک ( مرحوم )  جب  ریاست  چترال کے تخت و تاج کے  مالک بننے تو   انہوں نے   خواہش ظاہر کی  کہ  اپنے رضاعی خاندان کے  بہن بھائیوں کو   دربار بلا کر  اُن کی خوب خاطر مدارت کی جائے   ۔  شاہ  زرین چرویلو  کی  اولاد میں سے ایک بیٹی زوجہ  حاکمِ مستوج  فرمان اکبر خان  ( مرحوم ) چپاڑی ڈام یعنی صوبیدار  ( مرحوم) کی والدہ ماجدہ          بقید حیات تھیں  ۔   لہذا  مہتر چترال نے   حاکم مستو ج ،المعروف  چپاڑیو حاکم  کو  یہ کہلا بھیجا کہ   اُن کی رضاعی  بہن  اور اُن  کے بچوں کو   چترال محل (  نوغور   )بھیجا جائے  کیوں کہ یہ اُن کا گھر ہے  وہ یہاں  رہیں گے ۔ 

  حاکم  فرمان اکبر خان نے  اپنی اہلیہ کو  اور دو بچوں،   رحمت  اکبر خان اور  اکبر علی  خان ( مرحومین )     کو مہتر چترال کے ایما پر  چترال نوغور روانہ کیا  لیکن ساتھ یہ  پیغام بھی بھیجا کہ میرےخاندا  کا  مہتر کے خاندان کے ساتھ   گہرا رشتہ  ضرور ہے  لیکن  مہتر چترال سے گززرش ہے کہ  میرے  خاندان کی  چترال  نوغور سے واپسی پر  کوئی سوغات، کوئی مہربانی  ،کوئی مال و متاع و نذرانہ   ساتھ نہ بھیجی جائے    کیوں کہ  درباری  سوغات  میری  شخصیت کی شایان شان نہیں  ۔     بہر حال   حاکم مستوج   کے خاندان کے افراد  بے  حد ناز و نعم کے ساتھ  چترال نوغور میں  3   مہینے  گزار کے واپس آئے  اس کے بعد   چترال نوغور کے  دو مزید دورے کئے  اور  کُل  ملا کے کم و بیش  ایک سال  کا عرصہ  مہتر  چترال کی صحبت میں دونوں بھائیوں نے گزاری ۔    محترم  صوبیدار  ( مرحوم ) بتاتے تھے کہ   جو  شاہانہ  تعظیم و تکریم   مظفر الملک ، اُن کی اہلیہ اور   شاہزادوں کی  تھی  وہی  شاہانہ وقار     حاکم  مستوج  کی  اہلیہ  اور  مہتر چترال کی رضاعی ہمشیرہ      اور اُن کے دونوں بچوں کو بھی حاصل رہا ۔      حاکم  مستوج   فرمان اکبر  خان  ( مرحوم )  کے چار  بیٹے     اور چار بیٹیاں  تھیں  بیٹوں میں سردار علی خان ، نادر اکبر خان  ، رحمت اکبر خان  اور   اکبر علی خان      جبکہ  بیٹیوں میں ایک  تور کہو  خال بومی   لال کے عقد میں تھی  ، ایک  بیٹی  حاکم کوغوزی  میر اعظم خان  ( مرحوم ) کی اہلیہ تھی،ایک بیٹی چترال دینین میں کمانڈر مہتر  کی بہو تھی جبکہ   ایک بیٹی یارخون    بیر زوزو پیر  سید غلام  علی شاہ کی زوجہ تھی ۔  بیٹوں میں  آخر الذکر  دو بیٹوں کی طبیعتوں پر   درباری نزا و نعم  اور   نظم و ضبط کی گہر چھاپ  اخری دم تک حاوی رہی     ۔

chitraltimes hakim akbar ali chapali 3

میرے اور   صوبیدار (مرحوم ) چپاڑی کا پہلا رشتہ      تکلّفات سے برطرف  ہم مشرب ہم نوالہ  دوستوں کا ساتھا  لیکن      میرا ان کے ساتھ دوسرا  تعلق     غیر ضروری تکلّفات کا  رہا      ۔پُر تکلّف  تعلقات کا آغاز   1992 سے شروع ہوا  جب  اُن کی  بیٹی   اور میری  خالہ زاد  بہن ( حبیبہ )  کے ساتھ    مجھے رشتہ ازدواج  کی بندھن میں بندھا گیا ۔ یہ ایسا ہی تھا جیسے کسی کیڈٹ  کے ساتھ  ایک انسٹریکٹر ( حوالدار)   دوران  تربیت بے تکلّف ہوتا ہے لیکن  جوں ہی پاسنگ آؤٹ ہوتی  ہے اُسی لمحے حوالدار  قانونی طور پر سلوٹ  مارنے کا پابند ہوتا ہے  ۔   میں نے  بھی پاسنگ آؤٹ کے بعد سلوٹ مارنے کی کوشش کی   لیکن انہوں نے پرانے زمانے کی  یار باشی کی ہی لاج رکھی  ۔     دستور یہ ہے کہ   رشتہ داری میں کوئی بڑا ہو تو  چھوٹا   اُن کی دست بوسی کرتا / تی ہے۔  آپ رشتے میں صرف مجھ سے بڑے ہی نہیں تھے  بلکہ   میرے والد تھے اور   میرا فرض تھا کہ ہر ملاقات میں دست بوسی کروں لیکن  وہ مانع رہے  ۔ 

1999 کو مجھے ملازمت کے سلسلے میں گلگت منتقل ہونا پڑا  یوں  سال میں دو مرتبہ اُن سے ملاقاتیں ہوتی رہیں۔  اس سال    میری اُن سے ملاقات  11 مئی ، 2021 کو ہوئی  تھی جو کہ ہماری اخری ملاقات تھی ۔   اس سال وہ گزشتہ سالوں کی نسبت       شاندار  صحت سے تھے ۔  میں نے از راہ تفنن استفسار کیا کہ دادا   جی کی عمر کتنی ہوگی ؟    بولے ، اَسّی  سال سے اوپر  ہوگئی ہے۔ میں نے کہا ” دادا جی آپ کی صحت اس سال تو  بہت اچھی ہے ”  ایک ہلکی سی تبسم کے ساتھ  جواب میں بولے ”  اس سے زیادہ عمر  اچھی نہیں ہے  بہت ہوا   کسی کے لئے باعث تکلیف  بن کر رہنے سے  اٹھتے بیٹھے میں جانا  ہی  بہتر ہے ”   ایسی  قنوطی باتیں کبھی بھی ہماری  گفتگو کا حصہ نہیں رہی تھیں   ۔ در اصل  بلا کے نازک مزاج شخصیت کے مالک تھے  اُنہیں سوزاک کی  تھوڑی سی تکلیف تھی اور یہ اُن کی نازک مزاجی پر بوجھ تھی ۔    وہ مجھ سے محو گفتگو   تھے ،  ہاتھ میں چپاتی کا ٹکڑا تھا  یوں  چڑیو  کا ایک جھنڈ  ہمارے اوپر  درختوں پر سے  چہچہا  چہچہا کر  نیچے  اُترے    ۔ انہوں نے     چپاتی کے ٹکڑے کو گول گول    مگر بہت چھوٹے نوالے بنا  کر  اُن کی طرف  پھینکتے ہوئے اُن کا مجھ سے تعارف بھی کرتے رہےجن میں سے دو چڑیے  نو وارد تھے       انہوں نے  دلی  مسکرا ہٹوں سے نیئے مہمانوں کو   کچھ زیادہ  نولاے پھینک کر استقبال کیا ۔ 

    اُن پرندوں میں سے ایک شریر چڑیا  اُن سے اپنا قریبی  رفاقت جتاتے ہوے جب  سیدھا  اُن کے ذانو پر بیٹھ کے  اُن کے ہاتھ   چونج سے  مارنے   لگا تو   اُن کے چہرے سے  ابھرنے ولا  مسرت کا احساس دیدنی تھا ۔  بونی  کے کوڈ -19 ہسپتال سے  اُن کی جسد خاکی  اُن کے آبائی گاؤں لے جاتے ہوئے   ہم  اُن کے ساتھ تھے تو میری  بیگم نے   اُن  کی بے جان  جسم کی طرف دیکھا پھر میری طرف پرنم  انکھوں سے  دیکھتے ہوئے  بھرائی ہوئی آواز میں کہا ” میں یتیم ہو گئی ”  میں نے  بولا   ، ” آپ نہیں بلکہ   بے شمار چڑیئے  یتیم ہو گئے ”   وہ تو ہم سے زیادہ  اللہ کے اُن ننھی منھی مخلوق سے  محبت کرے تھے اور اُن کا سہارا  تھے۔   آپ کی زندگی میں آپ  کے بڑے  صاحبزدے  ذولفاور کے سب سے چھوٹے بیٹے سے کسی نے سوال کیا تھا کہ  اس گھر میں بابا   کا سب سے زیارہ پیار کس ہے تو انہوں نے کہا تھا کہ   دادا سب سے زیادہ پیار  ” چکست ” سے کرتے ہیں  اور پھر مجھ سے ۔  چکست اُن کے کُتے کا نام ہے ۔  آج سے پانچ سال پہلے  مستوج بازار ا میں کُتے کا ایک ننھا  منھا  اور   لاغر سا بچہ   اُنہیں ملا  اُس کی ماں مر گئی تھی یا   اُسے چھوڑ کر گئی تھی ۔ مرحوم نے اُسے اٹھایا اور  گھر لا کے خوب پرورش کی  ۔ میں نہیں مانتا تھا کہ  کُتا واقعی  وفا شعار جانور ہے لیکن   صوبیدار  ( مرحوم ) کو  جب ہم نے حوالہ خاک  کیا تو  چکست  بھی موجود تھا ۔  ہم اُنہیں لحد میں اتار نے کے بعد گویا  اپنے فرض  سے سبکدوش ہوئے اور   اُسے  منوں مٹی کے نیچے چھوڑ کر  گھر وں کو سدھارے  لیکن   چکست نے     اپنے مالک کی زیارت کی نگہبانی سنبھالی (  فوٹو میں چکست   اپنے مالک  کی آرام گاہ  میں اُن کے سرہانے  پہرہ داری میں نظر  آرہا ہے )

chitraltimes hakim akbar ali chapali 2

اُنہوں نے  15 دسمبر  سن 1939 کو  حاکم  مستوج   فرمان اکبر خان کے متمول  گھرانے میں  آنکھ کھولی ۔    چوئنج کے کٹورے استاد سے   ابتدائی تعلیم حاصل کی   اُن کی ہم جماعتوں میں چوئنج کی مشہور دینی شخصیت  مولانا سکندر شاہ     قابل ذکر ہیں ۔ سن  1959 کو 19 سال کی عمر میں   چترال سکاؤٹ میں بھرتی ہوئے اسی عشرے میں شادی ہوئی  اللہ نے 11  بچوں  سے  نوازا  جن میں  6 بیٹیاں اور 5 بیٹے    ہیں   ۔ دوران ملازمت بھی  اپنے اصولوں  سے متصادم کسی بھی  کام یا  بات پر سمجھوتہ نہ کیا ۔    کہتے ہیں کہ 1982  میں چترال میں   سنی اور اسماعیلی بھائیوں کے درمیاں کسی  بدکیش نے پھوٹ ڈالا  اور نتیجے کے  طور پر حالات بہت سنگین ہوئے ۔ اُس زمانے میں  صوبیدار ( مرحوم )  مستوج  کی سکاؤٹ چھاونی میں کمپنی  کمانڈر کے فرائض سر  انجام دے  رہے تھے ۔ انہوں نے  اپنی تمام تر پیشہ وارانہ    صلاحیتوں کو بروئے کار  لاتے ہوئے  مستوج سے بونی کی جانب  پیش قدمی  کرنے والے  مُشتغل   بلوے کو  بغیر کسی  عسکری طاقت کے استعمال کے  صرف اپنی  ملائم زبان  اور  ذاتی  اثرو  رسوخ  کے  بل بوتے  پر  منتشرہونے   پر مجبور کیا  لہذا  علاقے میں امن امان کو  برقرار   رکھنے  میں    کار ہائے  نمایا ں کی انجام دہی پر  21  دسمبر 1982 کو    Frontier Corps Peshawar  کے اعلی ٰ حکام کی طرف سے  تعریفی  سند  Award No. 1951 سے نوازا گیا ۔

ملازمت سے  1983   کو سبکدوش ہونے کے بعد   آغا خان رورل سپورٹ پروگرام  (AKRSP)میں  ایڈ وائزر  کی حیثیت سے کام کیا اور علاقے کے عوام کو   (AKRSP  کے مشن سے آگاہ کرنے میں  آپ کی خدمات کا  (AKRSP)   نہ صرف معترف ہے  بلکہ  اُن کی خدمات کو بطور  مثال   سراہتے ہوئے پیش کرتی ہے ۔  زندگی کو زندگی کے حقیقی  پیرایئے میں  اگر کسی نے  گزارا ہے تو وہ  صوبیدار ( مرحوم ) اکبر  علی ہیں ۔  لوگوں سے دوستی کی تو   بھر پور کی ، مہمان نوازی کی تو دل سے کی ۔  ہر چھوٹے بڑے کو  اُس کی ظرف کے  مطابق  عزت  دی احترام کیا ۔  آزاد  منش دوستوں کے ساتھ  خوب گا یا  اور خوب  رقصاں رہے    اور  نزاکت  و نفاست پسندوں       کے ساتھ   بے حد متانت اور احتیاط  سے   گزارا ۔     27 جون، 2021 کی صبح   9:30   منٹ پر انجینئر  محسن لال پاسوم نے  مجھے  فوں پر اُ ن کی علالت کی خبر دی  وہ گزشتہ  13 دنوں سے   کووڈ – 19 سنٹر بونی میں   کورونا کے سے محاز آرا تھے ۔ شوگر   کی سطح اونچی ہوئی تھی  اور گردوں پر  دباؤ  بڑھا تھا ۔  میں اپنی شریک حیات  کو لیکر  اُسی شام  بونی پہچا ۔   اُنہیں  اکسیجن لگا ہو ا تھا    ، گنی چنی  سانسیں  تھیں جو کسی بھی وقت  روٹھ سکتی تھیں ۔ صبح ہوئی تو   اُن کے جسم کے ساتھ لگی مشینوں اور  اُن کے آس پاس کھڑے  ہسپتال  کے عملے کے  چہروں کے احساسات سے ہمیں صاف وضاحت ہوئی کہ  ہمیں  وقوع پذیر ہونے والے کسی بھی ناخوشگوار  واقعے کےلئے ذہنی طور پر تیار رہنا   ہوگا ۔   میں نے  اس سے پہلے کسی کو  حالت نزع میں نہیں دیکھا تھا ۔ سوچتا تھا شاید بڑی تکلیف ہوگی ۔ لیکن  مجھے اُن کی موت پر رشک آیا   کیا شاندار سپردگی تھی  جان کی ۔ ایک شان و شوکت  اور  دبدبے سے    گیا ،    تمام  بیٹے  بیٹیاں  ، پوتے پوتیاں اور  اہل و عیال   کی موجودگی میں  اپنی جان ، جان آفرین کی سپرد کی ۔ مشین پر سارے نمبر صفر  تک آکے رکے    تو ڈاکٹر نے  کلمہ پڑھنے کا اشارہ کیا  ۔  اُن کے منجھلے  بیٹے شجاعت علی بہادر نے  کلام  پاک کی  تلاوت کی  اور  دوسرے بیٹے  امجد علی نے  آنکھوں پر ہاتھ پھیرا  ۔  میں نے  اُن کے سر  سے پاؤں تک  دیکھا   اور خیال آیا کہ  15 دسمبر  1939  کو پیدا ہوکر  28 جوں  ، 2021  کے  دن 11 بجکر  20 منٹ پر  گل ہونے والے چراغ نے زندگی کے کتنے دن دیکھے تھے    تو معلوم ہوا کہ  انہوں  زندگی کی 29781  بہاروں   کا لطف اُٹھا یا  تھا ۔  غالبؔ  نے زندگی  کی اس بے  ثباتی کو کتنی خوبصور پیرایئے میں  بیان کیا ہے  وہ کہتے ہیں                 

؎       تیری فرصت کے مقابل اے عمر                    برق  کو پا بہ حنا  باندھتے ہیں

chitraltimes hakim akbar ali chapali 1

شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
50174