Chitral Times

Jul 3, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

مہجور زیست۔۔۔۔۔ایک چترالی کی فریاد۔۔۔۔۔تحریر:دلشاد پری بونی

شیئر کریں:

میں ایک چترالی ہوں اور پاکستان کا شہری بھی۔اللہ تعالی نے میرے چترال کو ہر ایک قدرتی وسائل سے مالامال کیا ہے اس کے باوجود مصنوعی ہر ایک سہولت سے محروم رکھنا سراسر زیادتی ہے۔جدید ٹیکنالوجی کے دور میں جبکہ انٹرنیٹ ایک اہم ضرورت وقت ہے پھر بھی چترال کے 98 % آبادی اس حق سے محروم ہے پھر بھی مجھے ہر امتحان شہرکے اسٹوڈنٹس کے ساتھ دینا پڑتا ہے۔اپنے روشن مستقبل کی خاطر بچوں کو کبھی کتاب لیکر سگنل کی تلاش میں درخت پر چڑھتے دیکھتی ہوں تو کبھی پہاڑ پر تو کبھی پھسل کر گرتے پھر بھی ارادے مضبوط۔کیا کوئی ایسا مسیحا بھی ہے جو چترال کے نوجوانوں کے مستقبل کو سنوار دے جو چترالیوں کو سبز باغ دیکھا کے دھوکہ نہ دے۔یہاں راہ چلتے روزانہ کی بنیاد پہ لاشین ملیں گے ہم ان کو کب تک دفناتے رہیں گے۔آئے روز ایکسڈینٹ کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ٹوٹے پھوٹے سڑکوں کو ٹھیک کرنے کی بجائے کب تک ہم لوگ ڈرائیور اور گاڑی کی تکنیکی خرابی کے کھاتے میں ڈال کر جان چھڑاتے رہیں گے۔

ٓآئین پاکستان کے مطابق جب ہر ایک شہری کو اس کا بنیادی حق دیا جائے گا تو ابھی تک چترال کو اس کے بنیادی حقوق سے محروم کیوں رکھا گیا ہے؟روزانہ کی بنیاد پر چترالی قوم کو بیوقوف بنانے تو سبھی آجاتے ہیں۔اپنے واہ ا واہ اور داد وصول کرنے کے ساتھ ساتھ چترالی ٹوپی اور چترالی چغہ بٹور کر لے جاتے ہیں مگر افسوس اس ثقافت کو پروموٹ کرنے کے لئے راستے اور وسائل دینے کے لئے کوئی بھی تیار نہی۔
اگر سیاحت کے لحاظ سے بھی دیکھا جائے تو دنیا کا مشہور کھیل پولو بھی چترال میں کھیلا جاتا ہے اور مشہور سیاحتی مقامات جیسے کہ شندور،کالاش ویلی وغیرہ بھی چترال میں۔اور غیر ملکی سیاح بھی سب سے ذیادہ چترال کا ڑخ کرتے ہیں اس کے باوجود چترال کی ٰ سڑکیں اب بھی خستہ حال اور بد حالی کا شکار کیوں؟جب اپنے حق کے لئے چترالی عوام آواز اٹھاتے ہیں تو چند مفاد پرست لوگ سامنے آکر کچھ جھوٹے وعدے کرکے لوگوں کو سبز باغ دیکھاتے ہیں مگر نتئجہ زیرو۔
حالیہ یارخون والے دلخراش سانحے میں قصور جس کا بھی ہو مگر اس پل کی حالت سے اندازہ ہو چکا ہے کہ وہ پل پیدل چلنے کے قابل ببھی نہی۔کب تک ہمیں بیوقوف بنایا جائیگا؟کم از کم چترال کو یہ دو سہولیات تو دی جاےء ایک انٹرنیٹ اور دوسرا پکی سڑکیں۔جب مجھے پیپر بھی شہری اسٹوڈنٹ جیسا دینا ہے ،اور میری علاقے کے پسماندگی کا لحاظ کہیں بھی نہی تو یہ ہمارا بھی حق ہے کہ ہمیں بھی وسائل مہیا کی جائے۔اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنے حقوق کو سمجھیں اور اپنے علاقے کے مغزیزیں سے بھی درخواست کرتی ہوں کہ سنجیدگی سے اپنے حق کے لئے آواز اٹھائیں ٓ۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
48730