Chitral Times

Jul 2, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

مکاتب قرآنیہ بھی ایک تعلیمی ادارہ ہے – تحریر :محمد نفیس دانش 

Posted on
شیئر کریں:

مکاتب قرآنیہ بھی ایک تعلیمی ادارہ ہے – تحریر :محمد نفیس دانش

فیصل آباد کی مشہور دینی درسگاہ اور شیخ الحدیث مولانا نذیر صاحب مرحوم کا چشم و چراغ جامعہ اسلامیہ امدادیہ فیصل آباد میں مکتب تعلیم القرآن کے تحت معاونین کا شوال جوڑ تھا جس میں تقریباً چار شہروں شیخوپورہ، چناب نگر، چنیوٹ اور فیصل آباد کے معاونین کو جمع کر کے ان کے لیے ایک تربیتی نشت کا انعقاد کیا گیا جس میں مختلف علماء کرام اور اکابرین نے اصلاحی پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے بچوں کی تعلیم و تربیت کے حوالہ سے گفتگو فرمائی۔ اس نشت میں ایک تاریخی جملہ کو بار بار دہرایا جا رہا تھا ،جو کہ وقت کی ضرورت بھی ہے کہ
 “ناظرہ کا مکتب ایک تعلیمی ادارہ ہے “
اس جملہ کی وضاحت کرتے ہوئے استاد الحدیث مولانا اعجاز صاحب فرمانے لگے کہ
 ” مکاتب قرآنیہ المعروف ناظرہ قرآن کریم کی کلاسیں یہ دین کی بنیادی نرسیاں ہیں،جس میں بچوں کے بیج کو تیار کر کے آگے گلشن بنانے کے لیے تیار کیا جاتا ہے اگر یہ نرسریاں مضبوط ہوگیں تو گلشن بھی مضبوط اور پائیدار ہو گے، جن کی خوشبو نہ صرف بستی اور ملک میں مہکے گی بلکہ پوری دنیا اس نرسری سے سیراب ہو گی لیکن شرط یہ ہے کہ ان مکاتب کو تعلیمی ادارہ سمجھا جائے اور ادارے کی تمام ضروریات کو اس میں بھی لاگو کیا جائے”
یہ ایک واضح اور کھلی حقیقت ہے کہ بچہ اور قرآن ان دونوں کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے، یہ بات بہت اہمیت کی حامل ہے کہ دنیا میں قرآن کے ماہرین بچپن ہی سے قرآن سے جڑے ہوتے ہیں۔جن بچوں کو ان کے والدین نے چھوٹی عمر میں قرآن سے جوڑا، ان بچوں کا قرآن سے تعلق ساری زندگی مضبوط رہا۔بچپن سے قرآن کے ساتھ جوڑنے سے مراد یہ نہیں جو ہمارے معاشرے میں ہوتا ہے، یعنی بچے کو سکول سے واپس لاکر آدھے گھنٹے کے لیے مسجد کے قاری صاحب کے حوالے کردینا، جب کہ وہ بچہ انتہائی تھکاوٹ کا شکارہوتا ہے، اور پھر والدین نے بھی ساری ذمہ داری قاری صاحب پرڈال رکھی ہوتی ہے، سالوں گزر جاتے ہیں اور والدین کبھی قاری صاحب سے ملاقات تک نہیں کرتے۔بلکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ فجر کے بعد یا کسی اور وقت میں بچے کو ڈیڑھ گھنٹے کے لئے کسی مکتب میں بھیجا جائے جس میں بچہ ناظرہ قرآن کریم کے ساتھ ساتھ دین کی بنیادی معلومات بھی سیکھیں جس میں ایمانیات، عبادات، احادیث نبویہ اور زندگی گزارنے کے آداب ۔ ان چیزوں سے بچہ عالم اور مفتی تو نہیں بنتا البتہ اچھا مسلمان اور اچھا انسان بن جاتا ہے اور ایسے مکاتب میں بچوں کا ایمان بھی مضبوط ہو جاتا ہے۔ اور اس فکر کو ” ادارہ مکتب تعلیم القرآن الکریم” بہت اچھے انداز میں لے کر چل رہے ہیں اس نظام کی خصوصیات کے متعلق مولانا طیب صاحب مہتمم جامعہ اسلامیہ امدادیہ فیصل آباد والے آج نشت میں فرمانے لگے کہ
 ” اس نظام میں جمود نہیں ہے بلکہ مسلسل محنت جاری ہے تاکہ جسم اور روح کا تعلق مضبوط رہے اور معاونین وغیرہ کے جوڑ بھی اس کڑی کا ایک سلسلہ ہے اور الحمد للہ ان مکاتب کے نظام کو دیکھ کر مجھے بہت زیادہ دلی خوشی ہوتی ہے۔”
 اگرچہ موجودہ دور میں الحمدللہ! حفظِ قرآن کا رجحان زیادہ ہوا ہے، لیکن پھر بھی عموماً یہی ہوتا ہے کہ لوگ اپنے کسی ایک بچے کو حفظ کروا کر دس افراد کی بخشش کے پروانے پر خود ہی دستخط کرکے بیٹھ جاتے ہیں، یعنی اب جو بھی ہو، ہم بخشے بخشائے ہیں۔ چنانچہ اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ بچوں کو پاکیزہ ماحول فراہم نہیں کیا جاتا، بچہ مدرسہ سے آکر گھر میں موجود شیطانی آلات سے بھی مستفید ہورہا ہوتا ہے، فلمیں، ڈرامے اور کارٹون کی شکل میں دجالی ہدایات کے انجکشن اس کے قلب ودماغ پر لگتے رہتے ہیں۔ حفظ کے رجحان میں اضافے کے باوجود اب بھی نوے فیصد سے زیادہ لوگ ایسے ہی ہیں جو بچے کو بچپن کی عمر میں قرآن سے نہیں جوڑتے، بلکہ جدید زبانیں اور علوم ہی بچپن میں پڑھاتے اور سکھاتے ہیں۔ یہ بات بھی ہمارے مشاہدے میں آئی ہے کہ جو بچے بچپن میں حفظ کرلیتے ہیں، ان کا حافظہ دوسرے بچوں سے زیادہ قوی ہوتا ہے، چنانچہ اگر بچوں کو سب سے پہلے یعنی پانچ چھ سال کی عمر میں حفظ کروانا شروع کردیا جائے تو باقی چیزیں بعد میں بچہ بہت اچھی طرح سیکھ لیتا ہے۔ دوسری بات یہ بھی اہمیت کی حامل ہے کہ بچے کو چھوٹی عمر میں جو چیز سکھائی جائے گی، ساری عمر اسی چیز کی چھاپ اس کی عملی زندگی میں بھی نظر آئے گی۔یہی وجہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سات سال کی عمر میں نماز کا حکم دیا، حالانکہ سات سال کے بچے پر ابھی نماز فرض ہی نہیں ہوئی، ابھی تو مزید سات سال ہیں نماز فرض ہونے میں، یہ سارا اہتمام اسی وجہ سے ہے
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے احیاء العلوم میں یہ وصیت کی ہے کہ: ’’ بچے کو قرآن کریم اور احادیث نبویہ اور نیک لوگوں کے واقعات اور دینی احکام کی تعلیم دی جائے۔‘‘
علامہ ابن خلدون رحمۃ اللہ علیہ نے بچوں کو قرآن کریم کی تعلیم دینے اور یاد کرانے کی اہمیت یوں بتائی ہے: ’’ مختلف اسلامی ملکوں میں تمام تدریسی طریقوں اور نظاموں میں قرآن کریم کی تعلیم ہی اساس اور بنیاد ہے، اس لیے کہ قرآن کریم دین کے شعائر میں سے ہے جس سے عقیدہ مضبوط اور ایمان راسخ ہوتا ہے۔‘‘ ابن سینا ؒ نے ’’کتاب السیاسۃ‘‘ میں یہ نصیحت لکھی ہے کہ: ’’ جیسے ہی بچہ جسمانی اور عقلی طور سے تعلیم وتعلم کے لائق ہو جائے تو اس کی تعلیم کی ابتداء قرآن کریم سے کرنا چاہیے، تاکہ اصل لغت اس کی گھٹی میں پڑے اور ایمان اور اس کی صفات اس کے نفس میں راسخ ہوجائیں۔‘‘
پہلے زمانے کے لوگ اپنے بچوں کی تربیت کا نہایت اہتمام کیا کرتے تھے اور پہلی تربیت کی درس گاہ ہی گھر ہوا کرتی تھی لیکن آج گھر بچوں کو بگاڑنے کا ذریعہ بن گیا ہے اور اسی طرح اپنے بچوں کو جب اساتذہ کے حوالے کرتے تو ان سے درخواست کرتے کہ ان بچوں کو سب سے پہلے قرآن کریم کی تعلیم دیں اور یاد کرائیں، تاکہ ان کی زبان درست ہو اور ان کی ارواح میں پاکیزگی وبلندی اور دلوں میں خشوع وخضوع پیدا ہو اور ان کے نفوس میں ایمان اور یقین راسخ ہو جائے۔
ہمارے پنجاب کے صوبائی ذمہ دار مولانا عرفان صاحب فرمانے لگے کہ بچوں کی اس پرفتن اور مادیت کے دور میں آج بھی چار طریقوں سے بچوں کی تربیت کرنا ممکن ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ روزانہ 10 منٹ ہر بچے سے بات کی جائے اور ہر بچے کو بات کرنے کا موقع دیا جائے اور وہ شاندار چار طریقے درج ذیل ہیں :
1:ایمان کا مذاکرہ کیا جائے ۔
2: فضائل کی تعلیم و ترغیب دی جائے ۔
3: ہر نیک عمل کی نیت کروانا
4: دل کی توجہ کے ساتھ ذکر الٰہی کروانا ۔
مثلاً پانی میں اللہ تعالیٰ کی کیا قدرتیں ہیں اور اس کے کیا فوائد وغیرہ ہے یہ سوالےبچوں سے پوچھ کر اس پر ایمانی مذاکرہ کیا جائے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان دین کی نرسیوں  اور دینی علوم کی درسگاہوں کو آباد رکھنے اور جگہ جگہ مکاتب قرآنیہ کو قائم رکھنے اور ان کے ساتھ ہر طرح کا تعاون کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
88172