Chitral Times

Jun 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

مری میں انسانی المیہ ذمہ دار کون ۔ کریم علی

شیئر کریں:

مری میں انسانی المیہ ذمہ دار کون ۔ کریم علی

گزشتہ شب سیاحوں کے  جنت نظیر وادی نے قدرتی حسن و منظر سے لطف اندوز ہونے والے کو اپنے اغوش میں لیا- اس پر جتنی رنج و غم کا اظہار کیا جائے نہایت ہی قلیل ہوگا۔ ہمدردی کے جتنے اوراق کو پلٹا جائے تو اس المناک حادثے کو مذمت کرنے کی الفاظ نہیں ملیں گے۔ موت برحق ہے لوٹنا اسی خالق کائنات کی طرف اسی کی حکم سے ہے۔ لیکن جب اللہ نے انسان کو اشراف المخلوقات کے عظیم لقب سے نوازا ہے تو اس کے پیچھے چند عوامل ہے جن کی اشتراک سے وہ اشراف المخلوقات کے عظیم منصف پر فائز ہے۔ عقل وہ اوزار ہے جو تمام جانداروں میں انسان کو ممتاز بناتا ہے اور عقل ہی کے مثبت استمال سے انسان مخطلف خطرات اور نقصانات سے محفوظ ہوتا چلا آرہا ہیں۔ دی بیگ بینگ سے شروع ہونی والی کاہنات میں 13.6 بیلین سال اور انسانی ذندگی کے 4.6 ارتقاء سے عقل نے ذندگی کے ہر شعبے میں چونکا دینی والی کامیبیاں سمیٹی ہے۔ 

عقل اور علم کے وسیع نظریے کو سامنے رکھ کر ساہنس، ٹیکنولوجی، طب، فلکیات کی شعبے نے ہر طرح فتوحات سمیٹی ہے۔ ایٹم کے اندر پروٹان کے چارجس سے لیکر گلیکسیز اور بلیک ہول تک رسائی عقل اور علم کی روشن دلیلیں ہے۔ لیکن اگر ہم اس ان نایاب قدرتی نعمتوں سے استفادہ حاصل نیہں کرسکتے ہے تو خود کو کس طرح اشراف المخوقات کے ترازو میں تول سکتے ہیں۔ جب بھی پاکستان میں کوئی المناک حادثہ رونما ہوتا ہے سارا الزام حکومت، اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کندھوں پہ ڈال دیتے ہیں۔ پھر تنقید برائے اصلاح کے بجائے تنقید برائے تنقید کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ شروغ ہوتا ہے۔ میڈیا، پرائیوٹ، سٹیک ہولڈرز سب اپنے تیر نشانے پر لگاتے ہیں۔ کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ باحثیت شہری ہم پر بھی کچھ فرائض عائد ہوتے ہے۔ اس اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ائین کا نافاس ہم پر بھی ہوتا ہے اور ہم اس کے مطابق چلنا ہوتا ہے.۔

31 دسمبر کی شب اور پھر 5 جنوری کو محکمہِ موسمات نے مری میں طوفان کی پیشن گوئی کی تھی اور اس اسنا میں این۔ڈی۔ایم۔اے،، پی۔ ڈی ۔ایم ۔اے کو الرٹ جاری کیا تھا۔ کہ موسم میں ہونی والی بدلاو کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ بن سکتا ہیں جس وجہ سے ایک المناک واقعہ جنم لیا 22 چراغ ہمیشہ کے لیے بجھ گئے۔ ایڈونچر کے شوقین تو ہم سب ہے لیکن سب سے اعلئ درجہ انسانی زندگی کو ملنی چاہیں، اگر کچھ دن اس ریکیرییشن سے باز رہتے تو کتنے بڑے ٹریڈیجے سے بچا جاسکتا تھا۔ مری میں اُس وقت 8000 کے قریب ویہیکل کی استعداد تھی مگر 3 دن کے دوران 95 ہزار سے ذائد گاڈیاں مری کے حدود میں داخل ہوچکے تھے۔ باوجود اس کے مری میں ہوٹل، ریسٹورنٹ، موٹیلز بھر چکے ہے سیاح جوق در جوق مری کے راستوں پر رواں دواں تھے۔

کیا ہماری خود کی اتنی ذہنی صلاحیت نہیں ہے کہ سب کچھ عیاں ہونے کے باوجود موت کے کنوئے کی طرف لپکے، خود کو اور اپنوں کو یوں اذیت ناک موت سے ہمکنار کروائے۔ قدرتی حسن و منظر سے تو اس وقت لطف ہوسکتے ہے جب حیات باقی رہے گی، چھوٹی چھوٹی ایڈونچرز کے خاطر خود کو صفحہ ہستی سے مٹانا کہاں ذی شعور انسان کی علامت ہے۔ دوسری بات وہاں کی مقامی باشندوں پر تنقید کے تیر چلائے جاتے ہے اور ان پر فوقیت حاصل کرنے یا اپنے ایریے کو ہائلایڈ کرنے کے مگن میں لگے ہوئے ہے، مقامی افراد نے بڑچھڑ کر سیاحوں کی ہر ممکن مدد کرنے کی کوشش کی یہ بات خود ان سیاحوں اپنے انٹویز میں کہے۔ مگر ان لوگوں نے گاڈی میں رات گزرنے کو ترجیج دی۔ اگر احتاط کے دامن کو مضبوطی سے پکڑا جائے تو آنے والے وقت میں اس طرح کے دردناک حادثات سے بچا جاسکتا ہے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامین
57168