Chitral Times

Jul 2, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

“مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ تجھے” …….نثار احمد

شیئر کریں:

دنیا میں کون ہے جو من چاہی مدت تک موت جیسی آفاقی حقیقت کے بےرحم پنجوں تلے پھنسنے سے محفوظ و مامون رہے. موت جیسی چیختی چلاتی حقیقت کا انکار دنیا کی معلوم تاریخ سے اب تک کسی نے کیا ہے اور نہ تاقیامت کوئی کر سکے گا. یہ بھی متفقہ طور پر ایک مقبول و مسلّم حقیقت ہے کہ موت حضرت ِانسان کی جذبات و احساسات سے لبالب قابلِ رشک مست جوانی کو دیکھتی ہے اور نہ ہی ماں کے پُرسکون آغوش میں لیٹے دنیا جہاں کی سردردیوں سے بےخبر دودھ پینے والے معصوم شِیرخوار کی قابلِ رحم شِیرخوارگی کو. موت کو اس بات کا زرہ برابر احساس نہیں ہوتا کہ اس کے شکنجے میں آکر دنیا کو ہمیشہ کے لئے الوداع کہنے والا انسان اپنے بے سہارا والدین کا اکلوتا سہارا ہے یا پھر اپنی خوش خصالی کی وجہ سے بہت سارے احباب کی امیدوں و محبتوں کا مرکز. اُسے اس بات کی بھی چنداں فکر نہیں ہوتی کہ اِس سے دوچار ہوکر اگلے جہان کے لئے رختِ سفر باندھنے والا شخص شریکِ حیات نامی کسی سوختہ نصیب انسان کی حیات سے جُڑی جملہ رعنائیوں اور رنگینیوں کا باعث و سبب ہے.
بہرکیف دنیا میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو موت سے ہمکنار ہونے کے باوجود بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ رہتے ہیں. موت اُنہیں درگور کر کے وقتی طور پر خلقِ خدا کی ظاہری نظروں سے اوجھل تو کرتی ہے لیکن لوگوں کے زہنوں سے اُن کا نقش مٹا نہیں پاتی. وہ لوگوں کے دلوں میں بھی زندہ رہتے ہیں اور زبانوں میں بھی. اُن کے چاہنے والوں کا کوئی فرقہ ہوتا ہے نہ مسلک . سبھی یک زبان ہو کر پرنم و بھیگی آنکھوں کے ساتھ اُن کے بے وقت جانے پر ماتم کناں ہوتے ہیں.
بیس اکتوبر کو پشاور سے پنڈی کی طرف جاتے ہوئے دورانِ سفر شہادت کے فائق رُتبے پر فائز ہونے والے خالد بن ولی بھی اسی قسم کے نیک صفت لوگوں کے سرخیل تھے. آپ کے خلافِ توقع پراسرار طریقے سے اچانک بچھڑنے کا غم و رنج سبھی اہلیانِ ضلع کو ہوا .
اپنی بے نظیر خوش گفتاری و قابلِ رشک نیک خصالی کی بدولت خالد بن ولی نوجوانی میں ہی حلقہء تعلق کے ایک ایک فرد کو اپنا عاشق و گرویدہ بنا چکے تھے. صرف یاروں کے یار ہی نہیں تھے بلکہ یاری کے تقاضے نبھانے سے بخوبی واقف بھی تھے. حلقہء احباب کی محفل لگتی تو اس محفل کو جمانے اور گرمانے والے بھی آپ ہی ہوتے اور روح ِ محفل بھی آپ ہی ٹھہرتے.
قوم و ملت اور انسانیت کے لئے کچھ نہیں، بہت کچھ کرنے کے قیمتی جذبے سے سرشار تھے. انسانیت کا اصل درد و غم تک رسائی اور حیاتِ انسانی سے جڑے مسائل کے درست فہم و ادراک کے لئے آپ کے تعلقات مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں کے ساتھ تھے . قضا جیسے پروقار و پُرسکون منصب کے مقابلے میں ایکسائز و ٹیکسیشن کے خشک و چیلنجنگ محکمے کو ترجیح دینے کے پیچھے بھی شاید یہی محرک کارفرما تھا کہ منصبِ قضا پر براجمان رہتے ہوئے سوشل تعلقات بنانا اور پروان چڑھانا ممکن نہیں ہوتا. انصاف ارزانی اور تعلقات پروری کے تقاضے باہم جدا جدا ، بلکہ کسی حد تک باہم متصادم ہوتے ہیں.
خالد مرحوم (اب جن کے لئے مرحوم لکھتے ہوئے بھی قلم دماغ کا ساتھ نہیں دے رہا ہے) کی شخصیت کا ایک قابلِ فخر اور سبق آموز پہلو یہ بھی ہے کہ خالد بن ولی نے پدرم سلطان بود کے پردے میں اپنا قد اُٹھانے کی سعی لا حاصل نہیں کی. آپ نے اپنا مقام و مرتبہ آپ ہی آپ بنایا. پرواز اتنی بلند رکھی کہ دیکھ کر دل میں گمان گذرتا تھا کہ اپنے والد سے بھی کافی اونچے اُڑنے لگے ہیں.
گھر میں اسبابِ عیش و عشرت کی ارزانی و فراوانی ضرور تھی مگر آپ نے اُن کی طرف رتی برابر التفات رکھے بغیر اپنی پڑھائی پر بھرپور توجہ دی .. پے در پے اعلی مقابلے کے دو امتحانوں میں کامیابی کے جھنڈے گاڑنا ہی یہ سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ مزید کتنی ترقیاں و کامرانیاں باہیں پھیلائے آپ کی منتظر تھیں. کاش کہ اجل اُنہیں مزید موقع دیتا..
پولو گراؤنڈ چترال میں آپ کی نماز ِجنازہ پڑھائی گئی. نماز جنازہ میں شریک ہونے کے لئے عوام کا جم غفیر اُمڈ آیا تھا. جنازے میں عوام کا ٹھاٹھیں مارتا اور موجیں اُڑاتا سمندر جہاں اس بات کو آشکارہ کر رہا تھا کہ لوگوں میں خالد کی محبوبیت و محبت کتنی بےانتہا تھی وہاں یہ اس تاثر کو بھی تقویت دے رہا تھا کہ خوش اخلاقی و خوش خصالی کے قدردان و احسان شناس دنیا میں ابھی کم نہیں ہوئے ہیں. پھر چترال تو سرزمین ہی قدردانوں اور احسان شناسوں کی ہے.
اللہ تعالی خالد مرحوم کو قبر میں کروٹ کروٹ چین نصیب فرمائے اور پسماندہ گان کو صبر جمیل عطا فرمائے..


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
15073