Chitral Times

Jul 4, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

مختصر سی جھلک ۔ موت کی تعظیم . فریدہ سلطانہ فٰری

شیئر کریں:

مختصر سی جھلک ۔ موت کی تعظیم – فریدہ سلطانہ فٰری

ہمارے ایک جاننے والے بتاتے ہیں کہ ایک دفعہ ہمارے گاوں میں کسی رشتہ دار کی موت ہوئی تو ہم سب پریشانی کے عالم میں قبر کھود کر گھروں کی طرف چلے گئے۔راستے میں اچانک مجھے یاد ا یا کہ میں نے کھودائی کے وقت جیب سے اپنا بٹوا نکال کروہاں کہی رکھ دیا تھا ا سے واپس لینا بھول گیا۔۔۔ اب اٰس کے پیچھے مجھے واپس قبرستان جانا پڑا۔۔۔۔ وہاں پہنچ کر میں توحیران ہی رہ گیا۔۔۔۔کیا دیکھتا ہوں کہ تقریبا ایک چھ سال کا بچہ اس کھودی ہوئی قبر کے اندر لیٹا ہو اہے اور تقریبا اتنے ہی عمر کا بچہ قبر سے باہر کھڑاہے اور اپس میں باتیں کر رہے ہیں۔یہ دیکھ کر اول تو مجھے غصہ اگیا۔پھر اچانک مجھے خیال ایا کہ سن تو لوں ان کی باتیں اخر یہ لوگ قبر میں لیٹے کیا کر رہے ہیں۔۔۔پھر ان کی ساری باتیں سن لی۔۔۔۔ قبر سے باہر بچہ بول رہاتھا۔۔۔۔۔بولو۔۔۔ تم نے نماز کیوں نہیں پڑھی۔۔۔۔اور تم نے اس وقت فلاں بچے کو کیوں گالی دی۔۔۔۔۔اور ایک دفعہ تم نے سکول سے جھوٹ بول کی کیوں چھٹی لی تھی۔۔۔۔۔اب تم مر چکے ہو۔۔۔۔اور تمھیں ان تمام باتوں کا حساب دینا ہوگا۔۔۔۔۔اب قبر کے اندر لیٹے بچے کی اواز میں نہیں سن سکا کیوں کہ وہ اندر تھا اور میں بہت دور۔۔ یہ سارا منظر دیکھ کر میرے تو رونگٹے کھڑے ہوگئے اور پھراچانک سے میری اواز سنکروہ بچے بھاگ گئے۔یہ ہے اج کل کے بچوں کا حوصلہ جن کو موت بھی ایسی ہی اسان لگتی ہے جیسے قبر کے اندر لیٹنا۔۔ اسی لئے تو خود کشیوں کی طرف رجحان اتنازیادہ ہوچکا ہے،بچے چھوٹی چھوٹی باتوں پر اپنی زندگیا ں ختم کر نے لگتے ہیں اور ہر مسٗلے کا حل ان کو خود کشی ہی نظر اتی ہے۔زرا سوچیے کیا یہ معاشی،معاشرتی ،سماجی مسائل آج سے کئی سال پہلے نہیں تھے؟کیا اس وقت سارے بچے ٹاپ ہی کیاکرتے تھے؟کیا گھروں کے اندر کوئی جھگڑا وتنازغہ نہیں ہوا کرتاتھا؟ بلکل یہ سب ہی اپنی جگہ پر ایسے ہی ہوتے تھے اور پہلے کا زمانہ اج کل کے مقابلے میں مسائل سے بھرپور بھی تھا۔۔ بے روزگاری،غربت،تنگی،لاعلمی،غرص ہر طر ح کے مسائل اج کی نسبت عروج پر تھے۔ مگر پھر بھی خود کشی،یا کسی کی جان لنیے کا کوئی تصور بھی کسی کے زہن میں نہیں تھا اج کل تو بس مرنا،مارنا پب جی،فری فائر کے گیم کی طرح ایک سستا سا کھیل بن کے رہ گیا ہے۔

مجھے اج بھی یاد ہے بچپن میں جب ہمارے گاوں میں کوئی فوتگی ہوتی تھی تو موت کی تعظیم میں کئی دن تک گھروں کے اندر شور شرابہ،ٹی وی کے استعمال پر مکمل پابندی ہوا کرتی تھی اور بچوں کو کئی دنوں تک فوتگی والے گھر سے بھی دور رکھا جاتا تھا۔۔۔۔اور سب سے بڑھ کر جب میت کو دفنانے کے لئے لے جاتے تو ہم لوگ ڈر کے مارے گھروں کے اندر چھب جایا کرتے تھے۔۔۔۔۔اس طرح سے ہمارے زہنوں میں موت کا کوئی تصور ہی نہیں تھا اور ہم بچپن میں رہ کر بچپن کے مزے لینے والے بچے تھے۔۔۔۔۔مگراج کل میڈیا کے اس قدرعام ہونے کی وجہ سے موت کی تعظیم بھی ختم ہوچکی ہے کیونکہ ہر ا ئے دن فیس بک پر خود کشیوں کی ایسی خبریں لگتی ہیں کہ۔۔۔۔۔فلاں جوان نے دریا میں جھلا نک لگا دی۔۔۔۔۔ فلاں لڑکی نے گھریلو حالات سے تنگ اکر خود کشی کرلی۔۔۔۔۔فلان نے فلاں کو چھری سے مار ڈالا۔۔۔ فلاں نے کم نمبر لینے وجہ سے خود کو گولی ماردی۔۔۔ایسا لگ رہا ہے کہ لوگوں میں صبر تحمل نام کی کوئی چیزہی باقی نہیں رہی۔۔۔۔۔اور میڈیا کے اس طرح بے جا استعمال نے زندگی کے ہر سنجیدہ پہلوبھی کو مذاق بنا کے رکھ دیا ہے یہاں تک کہ کسی کے مرنے کی خبر ان کے خاندان تک پہنچنے سے پہلے فیس بک پر اپلوڈ کر دی جاتی ہے یہ سوچے بغیر کہ ان کے خاندان والوں کو اس کی اطلاع ملی ہے یا نہیں۔۔۔۔۔ہمارے بچپن میں جب کسی کے موت کی خبر اتی تو گاوں کے بزرگ ملکر اس خاندان میں جاکر سب کو سنبھال کر تحمل سے یہ خبر سناتے اور ان کو حوصلہ دیتے یہی نہیں کئی دن تک گاوں کے سارے لوگ گھر جا کران کے غم میں برابر شریک ہوتے مگر اب۔۔ فیس بک پر ایک تعزیت نامہ اپلوڈ کی جاتی ہے اور معاملہ ختم۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
64923