Chitral Times

Jul 2, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

محکمہ شماریات کا اعتراف…………. محمد شریف شکیب

Posted on
شیئر کریں:

محکمہ شماریات نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے سامنے اعتراف کیا ہے کہ حالیہ مردم شماری میں معذور افراد اور خواجہ سراوں کے حوالے سے مکمل معلومات سامنے نہیں آئیں۔ سیکرٹری شماریات رخسانہ یاسمین نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ مشترکہ مفادات کونسل کی منظوری کے بعد مردم شماری کے نتائج کا اپریل کے آخر تک اعلان کیا جائے گا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ اس مرتبہ ڈیجیٹائزڈ مردم شماری کی گئی ہے۔اور 62لاکھ شہریوں کے فیملی ٹری کو نادرا سے چیک کرانے کے بعد ان کا اندراج کیا گیا ہے۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں اراکین اسمبلی نے مردم شماری کے نتائج اور حلقہ بندیوں کے حوالے سے اعتراضات بھی اٹھائے۔محکمے نے اعتراف کیا کہ مردم شماری کے نتائج کی بنیاد پر نئی حلقہ بندیوں میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔مردم شماری شروع ہونے سے قبل 8مارچ 2017کو ایک حادثے میں معذورہونے والی خاتون منیبہ مزاری نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں رٹ دائر کی کہ ملک بھر میں معذور افراد کے درست اعدادوشمار معلوم کرکے حکومت ان کی بحالی، فلاح و بہبود اور انہیں بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لئے ٹھوس اقدامات کرے۔ اسی رٹ درخواست پر عدالت عالیہ نے محکمہ شماریات کو حکم دیا تھا کہ نئی مردم شماری میں معذور افراد کے بارے میں درست معلومات حاصل کی جائیں ۔عدالتی فیصلے کے باوجود معذور افراد اور خواجہ سراوں کے بارے میں معلومات نہ ہونے کا اعتراف مردم شماری کے نتائج پر سوالیہ نشان ہے۔ 1998کی مردم شماری کے مطابق پاکستان میں معذور افراد کی تعداد مجموعی آبادی کے 2.49فیصد کے برابر تھی۔ 1981کی مردم شماری میں یہ تعداد اعشاریہ 44فیصد جبکہ 1973کی مردم شماری میں دو اعشاریہ آٹھ فیصد بتائی گئی۔2011میں عالمی ادارہ صحت نے سرکاری اعدادوشمار کو مسترد کرتے ہوئے خود سروے کرایا تو معذور افراد کی تعداد مجموعی آبادی کے 7فیصد کے برابرنکلی۔ غیر مصدقہ اعدادوشمار کے مطابق ملک میں معذور افراد کی تعداد 38لاکھ کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے۔ جبکہ مجموعی آبادی کے سات فیصد کے حساب سے دیکھا جائے تو معذوروں کی آبادی ایک کروڑ44لاکھ سے زائد بنتی ہے جن میں بصارت، سماعت اور گویائی سے محروم افراد کے علاوہ پیدائشی معذور، حادثات اور بیماریوں کی وجہ سے جسمانی اعضاء سے محروم ہونے والے افراد شامل ہیں۔2013کے انتخابات میں ٹرن آوٹ 55فیصد رہا۔حکمران جماعت مسلم لیگ کو 7کروڑ 61لاکھ 94ہزار802کے مجموعی رجسٹرڈ ووٹوں میں سے ایک کروڑ 47لاکھ 94ہزار ووٹ ملے۔ تحریک انصاف کے حصے میں 75لاکھ 63ہزار جبکہ پیپلز پارٹی کو 68لاکھ 22ہزار ووٹ ملے۔قومی اسمبلی میں 126نشستیں حاصل کرنے والی اکثریتی پارٹی نے ایک کروڑ 47لاکھ ووٹوں کے بل بوتے پرپانچ سال ملک پر حکمرانی کی ۔ جبکہ ایک کروڑ 44لاکھ معذور افرادبھی اسی ملک کے شہری ہیں۔ انہیں آئین کے تحت وہی حقوق حاصل ہیں جو میاں نواز شریف، شہباز شریف، شاہد خانان عباسی، آصف زرداری، بلاول بھٹو، عمران خان، اسفندیار ولی، مولانا فضل الرحمان، سراج الحق، چوہدری شجاعت، الطاف حسین، ڈاکٹر عبدالستار،آفتاب شیرپاواور دیگر سیاسی رہنماوں کو آئین کے تحت ملے ہیں۔لیکن معذورافراد کے اعدادوشمار جمع کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی گئی۔ جب آپ کے پاس معذور افراد کی تعداد ہی نہیں ہوگی تو آپ کو کیسے پتہ چلے گا کہ ملک میں کتنے لوگ بینائی سے محروم ہیں۔ کتنے گونگے اور بہرے ہیں۔ کتنے لوگ پولیو کی وجہ سے چلنے پھیرنے سے قاصر ہیں۔ کتنے لوگ بم دھماکوں ، حادثات اور قدرتی آفات کی وجہ سے معذور ہوئے ہیں۔ان معذور افراد کے لئے ملک بھر میں کتنے اسپتال بنانے ہیں ۔ موجودہ اسپتالوں میں ان کے لئے کس تناسب سے وارڈ مختص کرنے ہیں۔ ان کی تعلیم کے لئے کتنے سکول اور فنی تربیت کے مراکز بنانے ہیں۔اعلیٰ تعلیم کے اداروں میں ان کے لئے کتنا کوٹہ ہونا چاہئے ۔انہیں ملازمت کے کتنے مواقع فراہم کرنے ہوں گے تاکہ وہ اپنے پاوں پر خود کھڑے ہوسکیں اور معاشرے پر بوجھ نہ بنیں۔آج ملک کے ہر شہر میں شاہراہوں، چوراہوں اور گلی کوچوں میں معذور افراد کی بڑی تعداد نظر آتی ہے۔ جو اس حقیقت کا مظہر ہے کہ حکومت ان کی فلاح و بہبود پر کوئی توجہ نہیں دیتی۔قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں اس امر پر بھی تشویش کا اظہار کیاگیا کہ خیبر پختونخوا کے بعض اضلاع میں آبادی کم ظاہر کرکے قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستیں کم کردی گئیں۔ انیس سال بعد ہونے والی مردم شماری سے یہ تو پتہ چل گیا کہ آبادی میں اضافے کی شرح اڑھائی فیصد رہی ہے۔ اس تناسب سے قومی وصوبائی اسمبلیوں کی نشستوں میں بھی اضافہ ہونا چاہئے تھا لیکن صوابی، چترال، ایبٹ آباد، چارسدہ اوربونیر کی آبادی کم ظاہر کرکے ان کی پانچ نشستیں ختم کردی گئیں۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مردم شماری کے نتائج حقیقت پسندانہ نہیں ہیں۔

شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
6202