Chitral Times

Jul 2, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

محمد رسول اللہﷺ کی شخصیت مائیکل ایچ ہارٹ کی نظر میں – تحریر :صوفی محمد اسلم

Posted on
شیئر کریں:

محمد رسول اللہﷺ کی شخصیت مائیکل ایچ ہارٹ کی نظر میں – تحریر :صوفی محمد اسلم

 

محمد ﷺ  اللہ تبارک وتعالیٰ کے آخری رسول اور نبی ہیں۔ اللہ نے آپ کے ذریعے اسلام کو مکمل کیا۔ رسول ﷺ وہ ہستی ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید نازل فرمایا۔ اسلامی تعلیمات کے دو بنیادی ماخذ ہیں، ایک قرآن، جو اللہ کا کلام ہے، جب کہ دوسرا حدیث اور سنت رسولﷺ ہے۔ اللہ کے پسندیدہ دین کو اللہ کے رسول ﷺ  نے پوری دیانتداری اور ایمانداری کے ساتھ پھیلایا۔ اسلام کے نور سے ہر طرف منورکیا۔ آپ نے خود بھی اسلام پر سختی سے عمل کیا اور دوسروں کو بھی اس پر سختی سے عمل کرنے کا حکم دیا۔

رسول اللہ ﷺ کی پوری  زندگی اسلام کی تعلیم اور مسلمانوں کی تربیت میں مکمل ہوئی۔ قرآن میں ارشاد ہے مفہوم محمدؐ کی زندگی آپ کے لئے بہتریں نمونہ ہے۔  رسول اللہ نے اسلام کو لایا ، پھیلایا اور اس پر عمل کرکے لوگوں کو سراط مستقیم پر چلنے کا سلیقہ بتایا۔ ہمارے لئے بیشک آپﷺ کی زندگی ایک مشعل راہ جس پر چل کر اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کی جاسکتی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن میں ارشاد فرمایا مفہوم ہم نے آپ کو رحمت العالمین بنا کر بھیجا ہے۔ یعنی محمد ﷺ  پوری دیناکے مخلوقات کیلئے رحمت ہوکر ایا ہے۔ اس کا عملی ثبوت آپ ؐکی اپنی زندگی  ہے ۔ ہمیشہ سے آپ ؐ اسلام کے اصولوں پر پابندی کے ساتھ اپنایا اور آپ کی زندگی گزارنے کے وہی  اصول  اپکے شخصیت کو  منور کیا یہی نہیں   بلکہ آپ ﷺکے نقش قدم پر جو بھی چلا انکے نام سنہری الفاظ میں تاریخ کے اوراق میں نقش ہیں۔ یہ وہ شخصیت ہے جس کی  ہزاروں غیر مسلم بھی قائل ہیں ۔

جن غیر مسلموں پر آپؐ کی شخصیت کا بہت  اثر ہواا ن میں سے مائیکل ایچ ہارٹ بھی ہے جو ایک یہودی  امریکن مشہور ماہر فلکیات، مصنف، تاریخ دان اور محقق ہے۔ مصنف کوئی اسلامی نظریہ کے قائل شخض نہیں تھا بلکہ  مائیکل ہارٹ ایک پکا  یہودی گھرانے سے تعلق رکھتا تھا ۔ ایک دفعہ امریکہ میں ایک اجلاس کے دوران ایک  مقرر یہودیوں پر تنقید کیا تو مائکل ہارٹ وہاں سے چلا گیا تھا ۔ اس سے یہ بات عیاں ہے کہ وہ  ہارٹ ایک پکا یہودی تھا۔

مائیکل ایچ ہارٹ کی 1978 کی تصنیف کردہ کتابThe 100: A Ranking of the Most Influential Persons in History  جو بعد میں 1992کونظر ثانی کے ساتھ دوبارہ شائع کیا گیا۔ یہ ان 100 لوگوں کی درجہ بندی ہے جنہوں نے ہارٹ کے مطابق، انسانی تاریخ کو سب سے زیادہ متاثر کیا، اس وقت کی دیگر مختلف درجہ بندیوں کے برعکس، ہارٹ معیار کے طور پر عظمت پر درجہ بندی کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ جن کے اعمال نے سب سے زیادہ انسانی تاریخ  کو متاثر کیا کو معیار بنایا ۔ ان میں سے مذہبی و سیاسی رہنا،  سائینس دان، ادبی اشخاض سب شامل تھے۔ ہارٹ نے غیر جانبداری تحقیق کے بعد اس کتاب کو تحریر کیا جو  اس کا سب سے بڑا کارنامہ ثابت ہوا ۔ اس کتاب کو دینا میں بہت پزیرائی ملی ۔ پانچ لاکھ سے زیادہ اس کتاب  کی کاپیان فروخت ہوئیں اور بہت سے زبانوں میں اس کاترجمہ کیا گیا۔

یہ کام انتہائی مشکل تھا مگر ہارٹ بڑی دیانتداری کا مظاہرہ کیا سب سے زیادہ مشکل اور بعد میں ہارٹ کو تنقید کا سامنا کرنا پڑا وہ تھا رسول اللہ ﷺ کو عیسیٰؑ سے بلند مقام دینا ۔ عیسائیوں کی اس بڑی تنقید  اور دبائو کے بائوجود وہ اپنے فیصلے پر قائم رہا  اور بڑی جرات مندی کے ساتھ دفاع بھی کیا۔ دوسری اشاعت میں بھی ہمارے پیارے نبی ﷺ کو سرفہرست رکھا ہے بلکہ ہارٹ نے رسول ﷺ کی زندگی کو مذہبی اور سیکولر دونوں اطراف سے بغور مطالعہ کے بعد اپنا رائے دیا اور اس رائے پر ہمیشہ قائم رہا ۔

دینا میں بہت سے بااثر شخصیات گزرے ہیں  ان میں موسٰی علیہ سلام ، عیسٰی علیہ سلام  جوبڑی انسانی تہذیب و مذہب کی بنیاد رکھی  جن کے پیروکار کروروں اور اربوں میں موجود ہیں ،سر آئزک نیوٹن ، آئن اسٹائین  جو سائنسی انقلاب اور اس کے بعد آنے والی روشن خیالی میں اہم شخصیت تھے۔بڑے بڑے بادشاہ   اور سلطان گزرے  ہیں جسے کہ سکندر اعظم، چنگیز خان، رومن امپائر وغیرہ جو دنیا کے بہت  سےحصوں پر حکومت کیے ہیں۔اس کے باوجود وہ انسانی تاریخ کو  اتنا متاثر نہیں کیا  بقول مصنف رسول اللہ ﷺنے جو ایک یتیم اور عرب کے جزیرہ میں پیدا ہونے والا نے کیا۔

 

محمد ﷺکو اس درجہ بندی میں سرفہرست رکھنے پر بہت سے  لوگوں نے اعتراض کیا تو  ہارٹ نے زور دے کر کہا کہ محمدﷺمذہبی اور سیکولر دونوں شعبوں میں “انتہائی کامیاب” شخض تھے، جو اسلام کی بنیاد رکھنے اور اسکے پھیلنے میں اسی شخصیت کا اکلوتا ہاتھ ہے۔اس   کے ساتھ ساتھ جزیرہ نما عرب کو متحد کرنے ، ابتدائی مسلمانوں کی فتوحات اور آخرکار ان کی وفات کے بعد مسلمانوں کے ایک وسیع خلافت کی وجہ محمد ؐ کی  پر اثر شخصیت  ہی تھا۔ یہاں تک کہ آج بھی اس کے پیروکار اسی شخصیت کے نقشے قدم پر متحرک ہیں۔ہارٹ کا یہ ماننا ہےکہ محمدﷺ نے اسلام کی ترقی میں غیر معمولی طور پر واحد کردار ادا کیا ۔آج بھی مسلمانوں کو یکجا رکھنے اوراسلام کو دنیا کا ایک بہت بڑا مذہب و تہذیب بنے میں محمد ﷺ کی شخصیت کا ہی سہارا ہے ۔ آپ کے تعلیمات نے دینا کی تاریخ میں انقلاب لایا اور انسانی  تہذیب کو سیرے سے بدل کر رکھ دیا۔

عیسائیوں کے اعتراض پر ہارٹ نے تفصیلاً بتایا کہ چونکہ عیسیٰ ؑ نے سب سے بڑی مذہب عیسائیت کی مرکزی شخصیت ہیں مگر آپؑ  کو پہلے نمبر پرنہ  رکھنےکی وجہ  یہ ہے کہ اگرچہ عیسیٰ ؑ عیسائت کی بنیادی کردار ہے مگر سینٹ پول بائبل کا ایک بڑا حصہ تصنیف کیا اور عیسائیت کے ترویج میں اس کا   بڑا ہاتھ ہے اس لئے عیسیٰ ؑ کو عیسائت کی ترقی میں مکمل کردار سمجھنا غلط ہوگا ۔اس کے مقابلے میں رسول اللہ ﷺ اسلام کی بنیاد رکھنے ، اسلام کے پیروکاروں کی تعلیم و تربیت میں   وقرآن کے تصنیف(بقول مصنف) اور اشاعت میں بہت بڑا ہاتھ ہے۔ اس کے علاوہ رسول اللہ نے اسلام کی سربلندی کیلئے  مسلمانوں کی خود سربراہی کی جنگ میں خود سپہ سالار بنکر شرکت کیا ۔

اس کے علاوہ ہارٹ نے رسول اللہ کو انسانی تاریخ کے 100بااثر شخصیت کے فہرست میں رسول اللہ ﷺ کو پہلے نمبر پر رکھنے کی پانچ وجوہات بیاں کی ہے۔

  1. رسول اللہ ﷺ مذہبی اور سیکولر زندگی میں کامیاب رہا ہے۔
  2. مناسب ماحول میسر نہیں تھا ۔
  3. رسول اللہ ﷺ پڑھا لکھا نہیں تھا ۔
  4. کوئی فوجی قوت میسرنہیں تھی۔
  5. رسول اللہ کا کوئی مضبوط قبیلہ نہیں تھا  جو کہ اس کے دست بازو بن سکے

ابتدائی درج بالا  جوہات کے بائوجود بہت ہی قلیل مدت میں رسول ﷺ نے عرب اور ملحقہ ریاستوں میں اسلام کو پھیلایا اور لوگوں کو اپنی نظریے کی طرف مائل کرنے میں کامیاب رہا۔  بعد از ہجرت مدینے میں ایک بہتریں ریاست قائم کیا لوگوں کی بہتریں انداز میں تربیت کیا جو بعد میں ایک وسیع عریض خلافت کے مالک  ووارث بنے۔ آج اسلام دوسرا بڑا مذہب اور اربوں کی تعداد میں اس کے پیروکار ہیں۔ صدیاں گزرنے کے بائوجود بھی مسلمانوں کو اسلام کی صحیح تعلمات اور ارشادات نبی پر رسائی حاصل ہے اور آپﷺ کے ارشادات اور آپ کے احکامات کو اسلام کےبنیادی حیثیت حاصل ہے۔

درج بالا جوہات جس کے بنیاد پر ہارٹ نے رسول اللہ ﷺ کو سرفہرست رکھا اس پر   مختصراً تبصرہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

  1. رسول اللہ ﷺ بطور مذہبی کیسا تھا اور کیامشکلات کے بائوجود آپؐ بطور ایک مذہبی شخصیت اور پیشوا کامیاب رہا۔

اللہ تبارک و تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کو چالیس سال کے عمر میں نبوت بخشا۔یہ نبوت اس وقت بخشا گیا  جب سارے عرب میں مشرکیں کا غلبہ اور جہالت کا دوردورہ تھا۔ ہر شعبہ ہائی زندگی اندیوں کی نظر ہو چکی تھی۔  ہر طرف جہالت کا اندھرا تھا ۔ قتل غارت عام تھی ۔ اس وقت ایک ایسا تہذیب و مذہب کے آمد جو  سب کے نظریات کو رد کرتا تھا تب سب ایک ہو کر آپ ؐ کے مخالفت میں  اکھٹے ہو گئے ، سارے برائیاں مکمل طاقت کے ساتھ آپ کو روکنے کی کوشش کی ۔ اسی وقت جو آپؐ کے سہارا بن سکتے تھے وہ بھی ساتھ چھوڑ گئے ۔ مشرکیں مکہ کو اسلام کی طرف بُلانا جان،عزت و مال کے خطرے سے خالی نہیں تھا  مگر رسول اللہ بحکم اللہ تبارک وتعالیٰ مشرکین کو راہ حق کی طرف بلانے کی ہمت کی۔ جس پر چند لوگوں کے سوا باقی سب آپ کے جانی دشمن ہوگئے یہاں تک کہ آپ کے خاندان کے افراد بھی اپ کو نقصان پہنچانے کے   مشاورت میں مشرکیں کے روبرو تھے۔باز رہنے کی دھمکی دی گئی، آپ خاندان کے ساتھ بائیکاٹ کیا گیا۔ آ پ  پرقاتلانہ حملے کیے گئے۔ بلااخر اپنے ابائی شہرسے بھی ہجرت کرنا پڑا۔مگر آپ ؐ نے کسی بھی مشکلات کو اسلام کی اشاعت کے راستے میں انے نہیں دیا۔ اسلامی تعلیمات کو انتہائی شایستگی کے ساتھ لوگوں تک پہچاتے رہے۔ اسلام کی طرف  لوگوں کو مدعو کرتے رہے۔ اسلامی احکامات پر پہلے خود عمل کیا پھر مسلمانوں  سےعمل کروایا۔ اسلام کے اشاعت کے راستے پر انے والے ہر رکاوٹ کو غبور کیا جس کے لئے جنگیں لڑی ،زخمی ہوا مگر ثابت قدمی کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔صرف 23 سالوں میں پوری عرب میں اسلام کو روشن کیا ۔رسول اللہ ﷺ اسلام کے ہر تعلیم و احکام کو بہت خوبصورت اندازمیں پھیلایا اور انے والے تمام بنونوع انسان کیلئے مخفوظ کیا ۔

رسول اللہ  کی زندگی ایک مشعل راہ ہے ، آپ کے روزمرہ زندگی ہی بے مثال تھا ۔ اخلاقیات کا درس دیا  ہر شخض سے حسن سلوک کیا۔ سب کیلئے مقام مختص کیا ۔ غریبوں کیلئے زکوۃ کو فرض کیا، صدقات ،خیرات اور ہدیہ دینے کو عام کیا۔ لوگوں کیلئے حقوق رائج کیا ۔ معاشی و معاشرتی قوانیں رائج کیا،والدیں کے  ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا،  عورتوں کو حق ، نام اور مقام دیا۔ غلاموں پر رحم کیا اور انکے ساتھ نرمی سے پیش انے کا حکم دیا ، غلام  ازاد کرنے کو سب سے بڑا صدقہ قرار دیا۔انصاف کو عام کیا ۔ ظلم و جبر کو معاشرے سے ختم کیا۔معاشرے سے رنگ نسل کے تفرق کو ختم کیا ،سب کو ایک صف پر کھڑا کیا۔  معاشرتی زندگی کے بحالی اور فلاح کیلئے بہت مثبت اقدام اٹھایا ۔ گھریلوں کاموں میں بھی ہاتھ بٹایا فرمایا  تم میں سے سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کیلئے سب سے بہتر ہے ۔ مذید فرمایا کہ تم سے سب سے بہتر میں ہو کیونکہ میں  اپنے گھر والوں کیلئے سب سے بہتر میں ہوں۔

ان اصولوں پر آپﷺنے ایک مضبوط ریاست اور خلافت کی بنیاد رکھی۔ ایک ایسی ریاست کی بنیاد رکھی جو بعد میں ایرانی سلطنت اور رومن امپائیر کو پاش پاش کیا۔ یہ آپ کا سیاسی تدبر اور سیاسی شغور کا ہی نتیجہ تھا۔ اج بھی سینگڑوں ممالک اسی پالیسی کے بنیاد پر قام دائم ہیں ۔ ہزار سال گزر نے کے بائوجود بھی اپ کے سیاسی تدابیریں کام ارہی ہیں ۔ جس کے سائے میں لوگ اپنے حقوق کو محفوظ سمجھتے ہیں ۔

  1. آپﷺ وہ واحد شخصیت ہے جو ایک ایسے ماحول میسر تھی جس میں نہ اخلاقیات تھی نہ کوئی معاشرتی اصول اور نہ کوئی تہذیب ۔قبل از اسلام عرب کے دور کو جہالت کا دور قرار دیا جاتا تھا ۔ جہاں بچیوں کو زندہ درگور کرتے تھے ، غلاموں پر ظلم کو اپنا حق سمجھتے تھے۔ عورتوں کو معیوب سمجھا جاتا تھا۔ ہر طرف جہالت اور اندھیرا تھا ۔ محمدؐ کو کوئی مناسب ماحول میسر نہیں تھا جو آپ کے شخصیت میں مثبت تبدیلی لانے مددگار ثابت ہو سکے، جو دوسرے لوگوں کو میسر ائے۔ایسے ماحول میں ایک اکلوتا شخض اپنے نظریہ کی بنیاد پر انقلاب لانا کوئی غیر معمولی بات نہیں وہ بھی ایک ایسا شخض جس کے والدیں 6سال کے عمر میں مالک حقیقی سے جاملے تھے۔ اور اس کی تعلیم و تربیت کا کوئی معقول انتظام موجود ہی نہ تھی۔
  • رسول اللہﷺ پڑھا لکھا نہیں تھا بلکہ ایک عامی شخصیت کے مالک تھے۔آپ نہ پڑھنا چانتے تھے اور نہ لکھنا جانتے تھے۔ اس کے مقابلے میں دوسرے لوگ(فہرست میں شامل) پڑھے لکھے تھے بلکہ بعض تو بڑے تعلیمی درگاہوں سے فارع التحصیل تھے۔ آپؐ  کویہ سہولیت بھی میسر نہیں تھا ۔ اس کے باوجود بھی اپ علم کو روشن کیا ، تعلیم و تربیت کا عالیٰ انتظام کیا ، درس گاہیں بنایا،علم کے حصول کو مسلمانوں پر فرض کیا ۔
  1. لوگ قبیلوں میں منقسم تھے ، جھگڑا فساد عام تھا۔ معمولی بات پر قبائل آپ میں الجھتے تھے اور دشمنی نسلوں تک منتقل ہو جاتی تھی۔ مثال کے طور پر ایک واقعہ یہاں درج کیا جاتا ہے کہ حجر اسود کے نصب کرنے پر کہ کون نصب کرےگا جگڑا شروغ ہوا اور کئی دن تک یہی عداوت جاری رہا ۔ آخر رسول اللہﷺ نے اس کا حل نکالا اور عداوت ختم ہوا۔
  2. قبل از اسلام رسول اللہ ﷺ کو کوئی ایسا فورس نہیں ملا تھا ، نہ کوئی ایسا قوت اور نہ کوئی اقتدار سلطانت بلکہ آپؐ  ایک عام جوان تھا ۔ کوئی مضبوظ قبیلہ اپ کے دفاع میں موجود نہیں تھا بلکہ آپؐ کا اپنا قبیلہ اور خاندان کے لوگ سب سے زیادہ اپ کے دشمن رہے ۔ آپ کو آبائی شہر سے بھی بدر کیا گیا ۔ وہ تن تنہا تھا ۔انقلاب اس وقت ایا جب اپ کو نبوت عطاء کیا گیا۔ 313مسلمانوں کی قیادت کرتے ہوئے عزوہ بدر میں مشرکین مکہ کو شکست دیا  اور دس ہزار مجاہدیں کے ساتھ مکہ فتح کیا ۔ اسی طرح وہ اپنے ایک مضبوط سلطانت کی بنیاد رکھی۔ اہستہ اہستہ پوری دینا میں اپنا ایک علیٰ مقام بنایا اور  اللہ رب العزت مدد اوراپنے صلاحیتوں کی بنیاد پر لوگوں کے دلوں پر راج کیا۔

ہارٹ کی اس دعوے پر اعتراض کرنا جائذ نہیں  اگر  دیکھا جائے تو رسول اللہ کی شخصیت انسانی تاریخ کو یک سر بدل کر رکھ دیا ہے۔  جس نے دینا میں ایک نئی تہذیب کی بنیا د رکھی جو دینا کے ہر تہذیب کا متضاد  اور مذہب جو  ہر مذہب کو سرے سے رد کیا ۔ جب دنیا میں بد پرستی ، شخضیت پرستی عام تھی اس کے خلاف اواز بلند کیا اور یکتا خدا وندی کے پرستش کی درس دی عبادت، سیاست ، معاشیت،معاشرت  بلکہ ہر شغبہ ہائی زندگی کا رح  یک سر  تبدیل کیا ۔اس لئے رسول اللہ تمام انسانی تاریخ میں بلند اور بااثر شخصیت کی حامل ہے۔

 

 


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
83221