Chitral Times

Jun 30, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

محرم الحرام اور جشن بروغل…………محمد آمین

Posted on
شیئر کریں:

محرم الحرم کو اسلامی کیلینڈر میں بڑی اہمیت حاصل ہے کیونکہ اس مہینے کی دس تاریخ کو نواسہ رسول (ص) اور جگر علی و بتولؑ حضرت امام حسین کو کربلہ کے مقام پر یزیدی فوجون نے ان کے آہل بیت اور دوسرے رفقاء کیساتھ نہایت بےدردی اور ظلم کے ساتھ شیہد کیے گئےتھے۔امام اعلی مقام کو اسلام میں ایک منفرد حیثیت حاصل ھے کیونکہ جناب رحمت العالمین کو اپنے نواسے امام حسین سے بہت پیارتھا اور فرمایا کرتا تھا کہ حسین مجھ سے ھے اور میں حسین سے ہوں۔اور میرے دونوں نواسے یعنی امام حسن اور امام حسین جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔
امام حسین کی قربانی اسلام میں نمایانخصوصیت کے حامل ھے یوں تو حضرت آدم علیہ االسلام سے بی اللہ کے راہ میں قربانی کے تاریخ داستان سے بھری ھوئی ہیں ۔لیکن جو قربانی حضرت ابراہیم علیہ االسلام نے اللہ کے حکم سے اپنے پیارے بیٹے جناب اسماعیل کے زریعے کیا تھا کربلہ میں امام حسین کی قربانی اس کا معراج تھا کیونکہ جناب ابراہیمؑ کی قربانی کا ثمرخاتم الانبیاء محمد ﷺ کے خانوادے اور ان کے رفقاء کار نے پایہ تکمیل کو پہنچادئے جنہوںنے حق کے خاطر اپنے جانون کا نذرانہ پیش کیے۔اس بات میں کوئی شبہ نیہں کیا کہ امام اعلی مقام کی عظیم قربانی تمام انبیاء کے کوششوں کا نتیجہ تھا۔
سانحہ کربلا صرف ایک واقعہ ہی نیہں بلکہ یہ ایک مکمل نظریہ حیات ہے جو کہ قیامت تک تمام بنی نوع انسان کے لئے ایک سر چشمہ ہدایت ھے کہ حالات جیسے بھی کیوں نہ ہوں حق اور انصاف کی سربلندی اور بلا دستی کے لئے ہمیشہ چٹان کی طرح کھڑا ھونا چاھئے اور کبھی بھی ظلم کے سامنے جھکنا نیہں چاھئے چاھئے حالات کچھ بھی ھو اور جیسے بھی ھو۔
امام حسینؑ کی اس عظیم قربانی اور درس کے ہس منظر پورے ملک میں محرم الحرم کو بڑی احترام اور عقیدت سے منایا جاتا ھے اور مسلمانون کے علاوہ دوسرے مسالک کے لوگ بھی اس کی احترام میں برابر کے شریک ہوتے ہیں کیونکہ امام اعلی مقام کا مقصد پوری انسانیت کی فلاح اور بقاء کے لئے تھاجو کسی مذہب اورجعرافیائی حدود سے بالاتر ھے ۔اس عظیم مشن سے ہمیں مذاہب بین ھم اھنگی،تحمل اور روادریکا بے مثال درس ملتا ھے۔مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علماء کرام اپنے خطبوں اور تقاریر میں امام اعلی مقام کی عظیم قربانی کو زبردست خراج تحسین پیش کرتے ھوئے مقصد حسینی پر عمل پیرا ھونے کا پیغام دیتے ھیں تاکہ جن حالات سے امت مسلمہ گزر رہی ہے اور جن ظلم و بربریت کا شکار ھیں فلسفہ مقصد شہادت حسین ہی کے زریعے ان سے نجات حاصل کرسکتے ھیں۔تاکہ حق اور سچائی کا راستہ اپنا سکیں اور طاغوتی طاقتوں کا جانفشانی سے مقابلہ کرسکیں۔
اس عالم میں جبکہ ملک کے تمام حصوں میں محرم الحرم کے تقریبات اور مجالس شروع ہو چکے تھے جشن بروغل کو منعقد کرکے ہم چترال سے کیا پیغام دوسروں کو دے رہے تھے۔سب کو معلوم تھا کہ 31 اگست کو روہیت ہلال کمیٹی کے اجلاس میں نیا چاند دیکھنے کے بعد اعلان کردیا گیا کہ یکم ستمبر کو پہلہ محرم ھوگا اور یوم عاشور دس ستمبر 2019 کو ھوگا اور نو اور دس محرم کو پورے ملک میں عام تعطیل ھونگے۔ان کی نشریات تمام ٹی وی چنیلز اور پرنٹ میڈیا وغیرہ پر کی گئی۔اس سلسلے میں کے-پی۔کے کے حکومت نے بالخصوص پشاور کے لئے ایک جامع سکیوریٹی پلان بھی تشکیل دیا تھا۔
لیکن حیرات کی بات یہ ھے کہ یہ سب کچھ ھونے کے بعد بھی اپر چترال کے انتظامیہ اور جشن بروغل کے ارگنائزرز نے مقامی لوگوں کے ساتھ مل کر اس ایونٹ کو منعقد کررہے تھے اور تین سے لیکر نو محرم الحرم تک اس کا شیدول جاری کردیے اور تین محرم کے دن شائقیں کی بڑی تعداد وہان پہنچے والے تھے کہ خوش قسمتی سے چترال کے علماء کرام اور دوسرے باشعور شہریوں نے اس جشن کو ملتوی کروانے میں اہم کردار ادا کیے۔
چترال جو کہ اپنی رودراری ،ہم اھنگی اور عدم تشدد کے لحاظ سے نہ صرف پاکستان بلکہ دینا میں مشہور ہے اور یہان کے لوگوں کی ایک خوبی یہ بھی ھے کہ وہ کلاش برادری کے تہواروں کی نہ صرف احترام کرتےھیں بلکہ ان میں شامل ہوکر ان کی حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں لیکن خانوادے رسولؐ کے شہادت کے موقع پر ایک بڑے ایوںت کو منعقد کرکے جشن منانا ایک لمحہ فکریہ سے کم نیہں۔کیا ٹورزم ڈیپارٹمنٹ اور فیسٹول کے مںتظمین اس سے اگاہ نیہں تھے کیا وہ اس فسٹیول کو اگے پیچھے نیہیں کرسکتے تھے۔مذکورہ فیسٹول کو ملتوی کرکے انہوں نے یہ ثابت کردیا کہ وہ ایک بڑی غلطی کرنے جارھے تھے۔جسے بر وقت عوامی دباء نے بچادیا۔اور یہ وقت کا تقاضہ ہے کہ ایسے غلط کاموں کا مستقبل میں روک تھام کے لئے ان اسباب کو سامنے لایا جائے-
آفسوس کے ساتھ بعض لوگ یہ تاثر دینے کی کوشش کر رھے ھیں کہ چودہ سو سال پہلے واقعہ کربلہ ھوا تھا اس کی اج کل ضرورت نیہں ھے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن وہ اس حقیقت کو بھول جاتے ھیں کہ دینا میں کچھ انقلاب ایسے ھوتے ھیں جو آمر ھوتے ھیں اور تا قیامت ذندہ رھتے ھیں اور ذہنون کو تازہ رکھتے ھیں اور دلون کو روشنی بخشتے ھیں۔ اور شہادت امام حسین بھی اس نوعیت کی ایک نہختم ہونے والی انقلاب کامل ھے۔یہ عظیم واقعہ انسانی زندگی پر دور رس نتائیج مرتب کرسکتی ھے کہ امام نے حق کے لئے جان دی لیکن یزید کے ہاتھ پر بیعت نیہں کی معراج ایمان ایسا تھا کہ لاشین گر رہی تھی تیربرس رھے تھے لیکن اپ نے نماز ترک نیہں کی اور پیغام دیا کہ کسی بھی حالت میں انساناللہ کے واجبات ا کو ترک نیہں کرنا چاھئے۔
واقعہ کربلہ سے سچائی کا درس ملتا ھے امام اعلی مقام کے پاس یہ بھی چوائس تھا کہ اپنے وقت کے فرعون یزید کا بیعت کرکے حکومت میں کوئی نمایاں عہدے پر فائیز ھوجاتے ۔لیکن اپ نی ھر گز ایسا نیہں کیا اور سچائی کے دامن کو تھامے رھا۔تیسرا بڑا درس مکتب کربلہ کا یہ ھے کہ انصاف جو اللہ سبحانہ تعالی کی صفت اور انبیاء کی میراث ھے آپ نے اس کا بول بھالا کردیا۔اور رہتی تک دینا کو یہ پیغام چھوڑا کہ انصاف کی حصول اور تکمیل کی لئے اخری دم تک لڑنا چاھئے۔لہذا غم حسین منعقد کرکے اس عالمگیر فلسفے کو دوبارہ تازہ کی جاتی ھے کہ حق اور انصاف کی پیھلاؤ کے لئے تن من قربان کرنا چاھئے اور ظلم کو کبھی بھی برداشت نیہں کرناچاھئے۔اور وحدت الہی کا دینا میں پرچار ھو جائے۔واقعہ کربلہ سے اسلام کے علاہ ب غیر مسلم انقلاب بھی بہت متاثر ھوچکے ھیں۔
اس کے مقابل اگر یزید کے کردار کا مطالعہ کیا جائے تو بقول علامہ سیوطیؒ ،،یزید ظالم،بے نمازی،حد درجے کے شرابی، اپنے مرضی سے شادیان کرنے والے زانی اور موسیقی کا بڑا دلدادا تھ،،ا۔تو کیا ایسے ظالم اور فاسق کے ھاتھ نواسہ رسول بیعت کرسکتاتھا ھر گز نیہں۔اس لئے شاعر نے کیا خوب کہا ھے کہ
قتل حسین اصل میں مرگ یزید ھے
اسلام زندہ ھوتا ھے ھر کربلہ کے بعد.


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
26012