Chitral Times

Jun 30, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

لہو کا قرض (بطخ کی آب بیتی)…….. تحریر: بسمہ عزیز

شیئر کریں:

آج پھر ہم خالی ہاتھ لوٹ آئے تھے، غالباً یہ رزق کی تلاش میں ہمارا چوتھا دن تھا کیوں کہ ہم  یہاں  چار بہنیں گزشتہ  ستمبر  میں پیدا ہوئی تھیں اور ہمارے ماں باپ بچپن میں اگر کہیں ہوں گے تو ہوں گے ہوش سنھبالنے کے بعد ہم چار بہنوں سمیت دوستوں کا اچھا خاصا  گروپ تھا جو دن بھر تلاش رزق میں سائیبریا  کے یخ بستہ جنگلات میں سرگرداں  ہوتے اور شام تک اپنے اپنے گھونسلوں میں آجاتے شروع شروع میں رزق نام کی کمی  نہیں تھی لیکن آہستہ آہستہ خوراک کی قلت کے ساتھ ساتھ موسم بھی   منہ  موڑنے والا تھا کہ ہم نے ہجرت کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ہم تمام دوست اپنی نسل بڑھانے اور پیٹ کی بھوک مٹانے کی خاطراپنی آبائی جگہ چھوڑنے پر رضامند ہوئے ویسے بھی نئی دنیا کی کھوج میں آگے بڑھنا ہماری فطرت کا تقاضا ہے۔

        ہوا کا وہ جھونکا جو سردی کا پیغام لاتاہےمیری ننھی منھی آنکھوں سے ٹکرا گیا اور میں نیند سے بیدار ہوگئی ہم دو مختلف گروہوں میں تقسیم ہوکرسفر کی تیاریوں میں مشغول ہوگئےجب آخری بار میں نے آس پاس نظر دوڑائی  تو سائیبریا  کے ان جنگلوں میں بتائی ہوئی  وہ راتیں  مجھے یاد آئیں جب میں نے بارش میں بھیگ کر اور بھوک سے نڈھال ہوکر گزاری تھی۔ اسی کے ساتھ میں نے اپنے ساتھیوں سمیت فضا میں بلند پروزیں شروع کی۔سائیبریا  کے جنگلوں سے جب ہم شہروں کے اوپر  سے گزر رہے تھے تو منظر کچھ یوں تھا کہ کچھ لوگوں کے مکانات بادلوں کو چھو رہے تھے شائد انھیں  زندگی کی تمام آسائشیں بھی میسر تھیں، اور کچھ لوگوں کے پاس رہنے کو گھر بھی نہیں تھا مجھے حیرانی اس بات پر ہورہی تھی کہ آج تک انسان کا وہی رویہ تھا جو ہم اپنے بڑوں سے سُنتے آرہے تھے، عیش پسند، سہل پسند، شوقین اور بے رحم۔ اسی طرح ہم کئی راتوں اور دنوں کے سفر کے بعد مختلف جگہوں کا نظارہ کرتے ہوئے بیابان، صحرا، شہر، گاؤں اور پہاڑوں کا سفر طے کرتے ہوئے ان سفری ستاروں کا سہارا لیتے ہوئے جن کے بارے میں بڑوں نے بتایا تھا ایک ایسے علاقے کا  رُخ کیا جس میں بہار کی آمد آمد تھی اور اس کا نام  ہمارے تجربہ کار دوستوں نے ” چترال” بتایا۔

چترال ہمارا پہلا پڑاؤ تھا اور جس علاقے کو اترنے کے لیے منتخب کیا اس کا نام “ارندو” بتایا گیا۔ ارندو پہنچتے وقت آس پاس صبح کی آذان ہورہی تھی۔ سفر کا تھکن اورنئے علاقے کے دل موہ لینے والے تلابوں  نے اپنی طرف کھینچ ہی لیا اور ہم دریا کے کنارے بنائے گئے ایک خوب صورت تالاب میں اترنے کا فیصلہ کیا۔ سامنے کا منظر غضب ناک تھا  صاف و شفاف آسمان تلے سرسبزو شاداب زمین، محافظوں کی طرح سیدھے کھڑے پہاڑ جن کی خاموشی سے پتہ چلتا تھاکہ وہ کتنے خطرناک ہوسکتے ہیں جو اس علاقے کی زینت میں مزید اضافہ کررہے تھے۔

        جوں ہی ہم تالاب میں اترے تو بہت ہی پاس والے تالاب سے ایک دھماکے کی آواز آئی ہم اس آواز پر غور کرہی رہے تھے کہ ہمارے ایک بزرگ ساتھی نے خطرے کی وہ آواز نکالی جسے سننے کے بعد سب کواڑنا تھا اڑنے کے بعد معلوم ہوا کہ یہ شکاری انسان کے بندوق کی آواز تھی جو  ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا اس لمحہ اپنی ہجرت پر افسوس ہورہا تھا اگر یہ باتیں پہلی معلوم ہوتی تو ہم کبھی ہجرت نہ کرتے مگر اب کیا کیا جاسکتا تھا، ان خیالوں میں ہم ایک بہت کشادہ جگہ پہنچ گئے جن کے تالاب پہلے سے بھی خوب صورت تھے اب بارش میں بھی اضافہ ہوچکا تھا اور بھوک بھی لگی تھی لہذا ہم خبردار رہنے   کی تجویز کے ساتھ ان تالابوں میں اترنے کا فیصلہ کرچکے تھے یوں ہماری اگلی منزل “اوچھیاک شوتار” بن گئی۔ تالابوں میں اترے تو ڈھیر ساری چیزیں کھانے کو مل گئی۔ ہم بہت کچھ کھانے کے بعد ادھر ادھر گھوم ہی رہے تھے تو دور کہیں سے وہی آواز آئی اور ہم پھر اڑنے پر راضی ہوگئے۔ راستے میں دوسرے گروپ کی ایک ساتھی ملی جس نے ہمارے بہت سے دوستوں کے غائب ہونے کی خبر دی تو مجھے انتہائی افسوس ہوا  شائد وہ ڈر کے مارے بھٹک گئے تھے ہم افسردہ دلوں کے ساتھ  اپنے پر فضا میں پھیلائے  اور ایک نئی دنیا کی جستجو میں آگے بڑھنے لگے۔

        یوں وقت نے رفتار پکڑی اور ہم بھی اسی کے ساتھ اڑتے اڑتے ایک خوشنما زمیں پر پہنچ گئے جس کا نام ” بلچ ” تھا۔ یہاں کی خوب صورتی کا ایک الگ انداز تھا دل و دماغ پر اس علاقے کی خوب صورتی سوار تھی مگر فطرت کے مطابق ہماری نگاہیں تالابوں پر تھیں۔ آخر ہمیں وسیع تالابیں نظر آگئیں اب مطلع صاف تھا اور وقت بھی سہ پہر کا ہوگیا تھا بادلوں  کا عکس تالابوں میں ایسا نظر آرہا تھا گویا قدرتی آئینے ہوں اس منظر کے ساتھ شام کا نظارہ شام اودھ تھی۔ اتنے حسین منظر دیکھ کر لگا کہ شائد خدا نے  ہمیں اس حسین منظر سے  آشنا کرنے کے لیے یہاں کھینچ لایا ہے۔ ہم تالاب میں اترے اس شام اودھ کا نظارہ کر ہی رہے تھے کہ ایک دم سے پھر عجیب و غریب آواز نے ہمارے دل بند کرکے رکھ دیا اس بار اگر میں غلط نہیں ہوں تو یہ وہی آواز تھی جس کی وجہ سے ہم آرندو سے بھاک کر یہاں آگئے تھے لیکن اس بار یہ آواز بہت قریب سے آگئی تھی ہم تالاب سے اڑے اور شام کے دھندلکے کا سہارا لیتے ہوئے  جلدی سے جھاڑیوں میں گُھس گئے ہمارے دلوں میں خوف وہراس پھیلی ہوئی تھی، دل زوروں سے دھڑک رہا تھا تو اتنے میں معلوم ہوا کہ  ہمارے کچھ ساتھی زخمی حالت میں تالاب میں رہ گئے ہیں اب ان شکاریوں کا یقین ہوگیا تھا۔ اور ہم ان جھاڑیوں میں  پوری رات اپنے ان زخمی ساتھیوں کا انتظار کرنے لگے شائد وہ بچ آجائیں صبح  ہونے پر جب ان کا زندہ  بچ جانے کی امید کافور ہوگئی تو جینے کی لالچ نے  جلدی یہاں سے نکلنے پر مجبور  کیا ہم  روتے ہوئے وہاں سے رخصت ہوئے۔

        یوں نئی فضاؤں سے ٹکراتے ہوئے ہم ایک اور علاقے کو دریافت کیا جس کو “بمباغ” کہا جاتا تھا۔ ہم بمباغ  کا نظارہ فضا سے ہی کر رہے تھے ہم نے پہلی بار شکاری ظالم انسان کو دیکھا جو کوئی ہتھیار ہاتھ میں لیے رینگتے ہوئے تالاب کے کنارے کی طرف آرہا تھا۔ ہم نے دیکھا تو ہمارا دوسرا گروپ تالاب میں موجود تھا اس نے اسی اثنا اپنی بندوق کا رخ ہمارے ساتھیوں کی طرف کیا ہم بہت دور تھے اور آواز بھی نہیں دے سکتے تھے اسی اثنا  وہی زوردار آواز نکلی اور مسلسل کئی دفعہ نکلتی گئی اس کے بعد کا منظر ناقابل برداشت تھا میرے ساتھیوں کی چیخ و پکار اور خون میں لت پت جسم تالاب میں تیر رہے تھے اور وہ ظالم لوگ خوشی منا رہے تھے اپنے  ساتھیوں کی بے بسی  اور  دردناک موت  اور اس ظالم کا وحشیانہ اور غیر انسانی روپ دیکھ کر میری روح کانپ اٹھی اور میرے اندر اپنے ساتھیوں کی طرح اس ظالم کا نشانہ بننے کا ڈر پیدا ہوگیا اور یوں ہم حواس باختہ ہوکر اترنے کا فیصلہ ترک کیا۔ تھوڑا آگے ایک اور علاقے کی صورت میں موت ہماری منتظر تھی جس کا نام “جنالی کوچ” تھا۔ ہم دور سے ہی ڈر اور تھکن کی وجہ سے انسانوں سے اچھائی کی امید لیے ان تالابوں میں سے ایک تالاب کو منتخب کیا کچھ ساتھی اتر گئے تھے اور ہم اترنے والے ہی تھے اس ظالم نے ہم پر فائر کھول دیا  ، وہ ساتھی جن کے ساتھ میں سائیبریا سے یہاں تک کا سفر کیا تھا میں سے اکثر اس درندے کا شکار ہوگئے جس کا مجھے جتنا دکھ تھا وہ ظالم درندہ شائد محسوس بھی نہ کیا ہوگا اب مجھے احساس ہوگیا کہ واقعی زندگی ایک غیر متوقع ہے۔

        اب مجھ میں آگے جانے کی جستجو ، ہمت اور حوصلہ کم ہوتا جارہا تھا کہ کیا پتہ کس تالاب میں میری موت لکھی تھی۔ ان سوچوں میں دیکھا تو رات ہوچکی تھی اور میں کچھ ساتھیوں سمیت ایک اور وسیع وغریض صحرا ” کروئی جنالی” پہنچ گئی تھی۔  وہاں کے تالاب دیکھ کر دل میں خوشی اور خوف کی ملی جلی کیفیت تھی اسی کشمکش میں میں نے اپنی عارضی جان ہتیلی پر رکھتے ہوئے ہمت کے ساتھ ساتھیوں سمیت  کروئی جنالی کے تالاب میں اتر ہی گئی تھکن کی وجہ سے رات یہیں قیام کرنے کا فیصلہ کیا۔ بدن تھکن سے چور، ساتھیوں کی دردناک موت کا منظر اور اپنی موت کے انتظار میں نجانے کب آنکھ لگ گئی۔ صبح سویرے آذان کی آواز کے ساتھ ہم بھی آواز دے کر دیکھا تو تمام ساتھی موجود تھے ایک جگہ جمع ہوئے اور خدا کا شکر ادا کیا اور اڑنے ہی والا تھا یکے بعد دیگرے تین آوازیں کانوں میں گھونجی اب کے بار یہ آوازیں بہت زیادہ قریب سے آرہی تھیں میں آڑنے کے لیے جوں ہی پر کھولنے کی کوشش کی تو دیکھا کہ میرے دونوں پر مکمل طور پر جھلس گئے تھے۔ آس پاس نظر دوڑائی تو قیامت کا منظر تھا میر ے تمام ساتھی  بے سدھ اور بے جان پڑے ہوئے تھے۔ میں بہت زیادہ تکلیف میں تھی میرے دل کی آواز گلے  کے زریعے کچھ یوں نکلی کہ کائنات نے اس میں آہ بھری درد، لاچارگی، بے بسی ، مجبوری اور بے تحاشا معصومیت پائی۔ ایک ہی لمحے میں میرا وجود خون میں لت پت ہوگیا میری جینے کی امید خیال بن کر میرے ذہن ہی میں رہ گئی، میرے آنسو میرے خلق میں جم گئے اور میں چاہ کر بھی نہیں روسکی اور اس افسوس کے ساتھ میں اپنی آخری سانسیں گن رہی ہوں کہ ہم بھی اللہ تعالٰی کی مخلوق ہیں، ہمیں بھی جینے کا حق ہے، اس کائینات کی زینت ہم  بھی ہیں، کاش ہمیں بھی کھل کے جینے کا حق مل جاتا، کاش ہماری جانوں کی قدرو قیمت کسی کو معلوم ہوتی،کاش ان ظالم انسانوں کوان مشکلات کا احساس ہوتا جنھیں ہم  جھیلتے ہوئے یہاں تک پہنچے ہیں، کاش ان شکاریوں کو اس درد کا احساس ہوتا  جنھیں ہم اپنی سانسیں گنتے ہوئے محسوس کرتے ہیں اور اس آہ کو سُننے والا کوئی ہوتا جو ہمارے دل سے نکلتی ہے۔

        میں دیکھ رہی ہوں وہ ظالم درندہ پانی کا سینہ چیرتا ہوا میرے دوستوں کو ایک ایک کرکے اٹھاتا ہوا میری جانب بڑھ رہا ہے نہیں معلوم وہ مجھ بے بس کے ساتھ کیا سلوک کرنے والا ہے اس سے پہلے کہ وہ مجھے اپنے مضبوط ہاتھوں میں پکڑے  میری اس التجا کے ساتھ میری ننھی خون آلود آنکھیں کسی انصاف کا منتظر ہوتی ہوئی بند ہورہی ہیں ۔ دل سے دُعا نکلتی ہے کہ خدا میرے ان ساتھیوں کو جو بچ نکلے ہیں انسانوں کے شر سے محفوظ رکھے اور ان درندہ نما انسانوں کے دلوں میں  دوسری مخلوقات کے لیے رحم پیدا کرے۔یہ میرا لہو کا قرض ہے جو قیامت تک انسانوں کی گردن پر رہے گا۔

آکرگرا تھا کوئی پرندہ لہو میں تر

تصویر اپنی چھوڑ گیا ہے چٹان پر

تحریر: بسمہ عزیز جماعت دہم   آغا خان ہائرسیکنڈری سکول کوراغ


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
46587