Chitral Times

Jun 30, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

قبیح فعل –  تحریر: اقبال حیات اف برغذی

شیئر کریں:

قبیح فعل –  تحریر: اقبال حیات اف برغذی

 

ایک محفل جمی تھی جس میں ایک ایسا نوجوان شریک تھا جو شکل وصورت میں دیدہ زیب اور انداز گفتگو میں متانت اور سنجیدگی کا حامل تھا۔  اس کی علمی صلاحیتیں ان کے الفاظ اور گفتار سے نمایان ہوتی تھیں۔خوش طبعی کی وجہ سے چہرہ پھول کی طرح کھلا نظر آتا تھا۔ اس کی قابل ذکر باتیں سننے کے لئے ہر کوئی اس کے چہرے پر نظریں مرکوز کرتا تھا۔ اور یہ نوجوان اپنے اوصاف کی وجہ سےہر محفل کی زینت بنتا تھا۔اس ہمہ صفت نوجوان کے وجود مین صرف زبان پر تھوڑی سی لکنت تھی۔ جو الفاظ کی ادائیگی میں مخلل ہوتی تھی۔ ایک دوسری مجلس میں مذکورہ نوجوان کی صلاحیتوں اور اخلاقی اقدار کے تذکرے کے دوران ایک شریک محفل نے منفی انداز میں ان کی تما م تر اچھائیوں اور اوصاف کو پس پشت ڈال کر زبان کی لکنت کو قابل ذکر خرابی کے طور پر پیش کئے ۔جس پرحاضریں مجلس نے بیک زبان افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہنے لگے کہ انسان کے وجود سے منسلک تمام اوصاف کو نظر انداز کرکے ایک کوتاہی کو ہدف تنقید بناتا۔ انتہائی قبیح اور ناپسندیدہ فطرت سے مماثلت کا حامل فعل ہے۔ طاوس کی طرف دیکھتے ہوئے اس کی تمام جسمانی خوشنمائی سے انکھیں ہٹا کر اس کی بدصورت پاون پر مرکوز کرنا کم ظرفی کے مترادف ہے ۔

 

اللہ رب العزت خود ستارلعیوب یعنی عیوب کو چھپانے والے ذات ہیں ۔اس لئے اپنے بندوں سے بھی اس وصف سے خود کومزین کرنے کا تقاضا کرتے ہیں۔بصورت دیگر رب کائنات اپنے بندوں کی عیوب کو ظاہر کریں گے تو کسی کے دنیا میں منہ چھپانے کے لئے جگہ نہیں ملے گی۔

 

بدقسمتی سے ہماری معاشرتی زندگی مجموعی طور پر ایک دوسرے کی کوتاہیوں اور عیوب کو افشا کرکے اچھالنے کی کیفیت سے متعضن ہے اور اس ناپسندہ فعل کے ارتکاب میں لطف وسرور محسوس کیا جاتا ہے۔ اور کسی کی تضحیک پر سینہ تان کر سانس لینے کی صورت میں دل بھڑاس نکالتے ہیں ۔ حالانکہ ہمارا مذہب اسلام ہمیں اپنی ذات میں خرابیوں اور دوسروں کے وجود میں اچھائیاں ڈھونڈنے کی ترغیب دیتا ہے۔ اس سلسلے میں اس حقیقت  کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ جس طرح باغ میں پھول بھی ہوتے ہیں اور کانٹوں کی موجودگی بھی مسلمہ ہے۔

 

اسی طرح دنیا بھی اچھائیوں اور برائیوں کی آماجگا ہے ۔جس انسان کے دل کا آئینہ دھند لا ہو اس کی نظر میں ہر چیز دھندلی نظر آئیگی اور جس کے دل کا آئینہ صاف وشفاف ہو تو ہرچیز اس میں صاف اور روشن نظر آئیگی۔

 

ایک صاحب کرامات بزرگ کی اہلیہ ان کے کرامات میں کیڑے نکالنے کا عادی تھی۔ایک دن بزرگ ہوا میں اڑنے کی کرامت کا مظاہر ہ کرکے گھر لوٹنےپر اس کی اہلیہ اسے طعنہ دیتی ہیں کہ بزرگی اس کو کہتے جو آج ایک شخص ہوا میں محوپرواز تھا۔ بزرگ مسکرا کر اس کمال کو خود سے منسوب کرنے پران کی اہلیہ فوراً جواب دیتی ہے کہ اچھا یہ تم تھے میں سوچ رہی تھی کہ یہ شخص ٹیڑھا ٹیڑھا کیوں اڑتا ہے۔

 

بحرحال مشغل ہدایت قرآن عظیم الشان ہمیں دوسروں کے وجود میں خامیاں تلاش کرنے سے منع کرتا ہے کیونکہ ایک متقی اور پرہیزگار انسان کے وجود کو بھی اگر کریدا جائے گا تو خواہ مخواہ کوئی نہ کوئی قابل اعتراض کیفیت پر نظر پڑیگی۔ کیونکہ عیب سے پاک اگر کوئی ذات ہے تو ہمارے عظیم خدا کی ذات ہے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامین
76896