Chitral Times

Jul 1, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

قائد اعظم کا لازوال احسان آزاد پاکستان – تحریر: قاضی شعیب خان

Posted on
شیئر کریں:

قائد اعظم کا لازوال احسان آزاد پاکستان – تحریر: قاضی شعیب خان

قارئین کرام: اپنے آزاد وطن پاکستان کی محبت ہماری سانس اور ہماری روح میں شامل ہے۔
بقول شاعر:
ہم اپنی سانسیں تیرے نام کرتے ہیں،
اے وطن ہم تیری عظمت کو سلام کرتے ہیں

قائد اعظم محمد علی جناح نے دستور ساز اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کے دوران فرمایا تھا:اگر ہم اس عظیم مملکت پاکستان کو خوش اور خوش حال بنا نا چاہتے ہیں توہمیں اپنی پوری توجہ لوگوں بلخصوص غریب طبقے کی فلاح وبہبود پر مرکوز کرنی پڑے گی؛

پاکستانی قوم پر اللہ پاک کا خاص کرام ہے کہ ایک آزاد وطن پاکستان میں گزشتہ 75برسوں سے مختلف سیاسی، اقتصادی معاشی جسے سنگین بحرانوں کا سامنا کرنے کے باوجود مسلسل جدوجہدکرتے ہوئے ترقی و خوشحالی کی منزل کی جانب گامزن ہے۔ اس سال اللہ پاک کے فضل و کرم سے رمضان المبارک کے بابرکت مہینے کے آغاز میں یوم پاکستان کی تقریبات منا رہی ہے۔ یوم پاکستان قائد اعظم محمد علی جنا ح کا پاکستانی قوم پراحسان عظیم ہے۔ جس کے لیے پوری قوم تا قیامت اپنے قائدکی احسان مند اور ممون رہے گی۔ مینار پاکستان کے سائے تلے 23 مارچ 1940 کے تاریخی روز قائد اعظم محمد علی جناح نے ایک آزاد وطن پاکستان کی بنیاد رکھتے ہوئے متفقہ قراد داد منظور کی تھی۔ اس کے بعد برصغیر کے مسلمانوں نے اپنے الگ وطن کے قیام کے لیے لازوال قربانیوں کے بل بوتے پرقائد اعظم محمد علی جناح نے 14اگست 1947کو ایک آزاد وطن پاکستان کے قیام کے خواب کو شر مندہ تعبیر ثابت کر کے نہ صرف ایک نئی تاریخ لکھ دی بلکہ ایک آزاد اور خود مختیارپاکستان قائم کر کے پوری دنیا کا نقشہ ہی بد ل ڈالا۔

 

قائد اعظم محمد علی جناح آل انڈیا مسلم لیگ کے وہ لیڈر تھے جنھوں نے برصغیر پاک و ہندپر انگریزوں کے تسلط سے پاکستان کو آزاد کراکے پاکستانی قوم پر بہت بڑا احسان کیا۔قائد اعظم محمد علی جناح میں عظمت و قابلیت کے ساتھ ساتھ نیک نامی کی ساری خوبیا ں پیدائشی طورموجود تھیں۔ اور یہ خوش قسمتی ہمیں نصیب ہوئی کہ رب کائنات نے قائد اعظم محمد علی جناح کی صورت میں ایک عظیم لیڈر ہیں دیا جن کی مدبرانہ صلاحیتوں،فہم و فراست،غیر متزلزل عزم و ہمت، سیاسی بصیرت اور بے مثال قائدانہ صفات کی بدولت ایک آزاد مملکت پاکستان دنیا کے نقشے پر ابھراہے۔ اور آج ہم ایک آزاد و خودمخیار وطن میں سکھ کا سانس لے رہے ہیں۔ آزادی کی قدر و منزلت وہ قومیں جانتی ہیں جو آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی ظالم حکمرانوں کے زیر تسلط غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہو ئی ہیں۔ان میں فلسطین، بوسنیا، مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام بھی شامل ہیں جو اپنی ازادی کے لیے مسلسل کئی دائیوں سے جنگ لڑ رہے ہیں۔ قائد اعظم نے کشمیر کو شہ رگ قرار دیا ہے۔ اس لیے کوتی غیرتمند قوم اپنی شہ رگ کو کسی دشمن کے قبضے میں نہیں دے سکتی۔ پاکستانی قوم کشمیر کے عوام کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ان کی بھارتی قبضے سے آزادی کے لیے کوشاں ہے۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ قائد اعظم کی زندگی کے ہرلمحے میں ہماری قوم کے لیے قابل قدر اور مفید جواہر پارے پوشیدہ ہیں۔ مگر ان سے کہیں زیادہ قابل توجہ ان کے خیالات و افکار ہیں جو انھوں نے قوموں کی اجتماعی زندگی،مسلمانوں کے تہذیب و تمدن، آزادی و حریت،اور موجودہ سیاسی کشمش کے بارے میں ظاہر کئے۔

 

ان کے تین فرمودات، ایمان، تنظیم اور یقین محکم بلاشک و شہ کسی بھی غیوراور ترقی پسند قوم کا مطمع نظربن سکتے ہیں لیکن ان کی تمام تخلیقات میں افضل ترین تخلیق سلطنت خداد پاکستان کی صورت میں دنیا کے نقشے پر ظاہر ہوئی۔ جن کی بدولت آج ہم ایک آزادملک اسلامی جمہوریہ پاکستان کے فرد کی حیثیت سے سکون اور اطمینان کا سانس لے رہے ہیں۔ 1935کے عام انتخابات کے بعد کانگریس کے رہنماؤں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ کانگریس ہی واحد سیاسی جماعت ہے جو انگریزوں کے جانے کے بعدہندوستان پر حکومت قائم کر سکتی ہے۔ اس لئے کانگریس کے لیڈرپنڈت جواہر لال نہرو نے ایک اجلاس کے دوران اعلان کیاکہ ہندوستان میں صرف دوجماعتیں ہیں ایک انگریز کی جماعت اور دوسری کانگریس۔ اس پر قائد اعظم نے اعتراض اٹھاتے ہوئے کہاکہ ان دو جماعتوں کے علاوہ تیسری جماعت بھی ہے۔جو دس کروڑ مسلمانوں کی نمائندگی کرتی ہے۔اور مسلم لیگ ہے۔کانگریس مسلمانوں کی نمائندہ جماعت نہیں ہے۔ جنوری 1938 میں قائد اعظم نے اپنے ایک خطاب کے دوران اہم بات فرمائی کہ، جب ہم اسلام کی بات کرتے ہیں یا جب ہم کہتے ہیں کہ مسلم لیگ کا جھنڈا اسلام کا جھنڈا ہے۔تو بہت سے لوگ بلخصوص ہمارے ہندوں دوست ہمیں غلط سمجھتے ہیں۔وہ خیال کرتے ہیں کہ ہم مذہب کو سیاست میں گھسیٹ رہے ہیں، حالانکہ یہ ایک ایسی روشن حقیقت ہے کہ جس پر ہم فخر کرتے ہیں۔اسلام ہمیں مکمل ضابطہ حیات دیتا ہے۔یہ نہ صرف ایک مذہب ہے۔بلکہ اس میں قوانین،فلسفہ اور سیاست سب کچھ ہے۔در حقیقت اس میں وہ سب کچھ موجود ہے۔جس کی ایک آدمی کو صبح سے رات تک ضرورت ہوتی ہے۔

 

جب ہم اسلام کا نام لیتے ہیں توہم اسے ایک کامل لفظ کی حیثیت سے لیتے ہیں۔ہمارا کوئی غلط مقصدنہیں۔بلکہ ہمارے اسلامی ضابطہ کی بنیادآزادی،عدل و مساوات اور اخوت ہے ؛ قائد اعظم بہت لائق اور سمجھ دار وکیل تھے۔ انگریز سرکار نے ایک دفعہ چھ بجے تمام دکانین بند کرنے کا حکم دیامگر ایک دوکاندار کی گھڑی دس منٹ پیچھے تھی جس کی وجہ سے وہ اپنی دوکان بندنہ کر سکا تو انگریز فوج اس کو گرفتار کر کے جج کے پاس لے گئی۔ دوکاندار نے بہت منت سماجت کی مگر جج اس کو ضمانت دینے کو تیار نہ تھا۔اس کے وکیل قائد اعظم نے عدالت میں موجود سب لوگوں کی گھڑیاں اتار کر جج کے سامنے رکھ کرپوچھا؛ جناب ان سب گھڑیوں کا ٹائم ایک ہے؟ جج نے کہا نہیں، تو قائد اعظم نے دلائل دیتے ہوئے سوال کیا کہ اس کمرے میں سب کی گھڑیوں کا ٹائم ایک جیسا نہیں تو پورے ملک میں ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔ جج لاجوا ب ہو گیااور ان کے موکل کو رہا کرنے کا حکم دے دیا۔ ُپاکستان کی پہلی کابینہ کا اجلاس شروع تھا۔ جس کی صدارت قائد اعظم محمد علی جناح کر رہے تھے۔ اس موقع پرقائد اعظم کے اے ڈی سی گل حسین نے قا ئد اعظم سے پوچھا کہ سر اجلاس میں چائے پیش کی جائے یا کافی؟قا ئد اعظم نے چونک کر سر اٹھایا اورفرمایا؛ یہ لوگ گھروں سے چائے،کافی پی کر نہیں آئے؟ اے ڈی سی گھبرا گیا۔قائد اعظم نے فرمایاجس وزیر چائے، کافی پینی ہے،وہ گھر سے پی کر آئے یا پھر گھر جاکر پئیے، قوم کا پیسہ قوم کے لیے ہے وزیروں کے لیے نہیں۔ 14 اگست1948کو پاکستان کی پہلی سالگرہ کے موقع پر قائد اعظم نے اپنے پیغام میں فرمایا کہ قدرت نے آپ کو ہر نعمت سے نوازہ ہے۔ آپ کے پاس لامحدود وسائل موجود ہیں۔ آپ کی ریاست کی بنیادیں مضبوطی سے رکھ دی گئیں ہیں۔ اب یہ آپ کا کام ہے۔نہ صرف اس کی تعمیر کریں بلکہ جلد از جلد اور عمدہ سے عمدہ تعمیر کریں۔ سو آگے بڑھئے اور بڑھتے ہی جائیے۔قارئین کرام: وقت اور حالات بدلتے رہیں گے مگر پاکستانی قوم قائداعظم کے اتحاد، تنطیم اور یقین محکم کے سنہری اصولوں پر کار بند ہوکر اپنے مادر وطن کی آزادی کے تحفظ کے لئے

ہمیشہ کی طرح پیش پیش ہے۔ اس لیے قائد اعظم کے احسان کو یاد کرتے ہوئے اپنی آزادی کی قدر کریں جو لاکھوں جانیں قربان کر کے حاصل ہوئی ہے۔ یوم قرار داد پاکستان محض ایک دن کا نام نہیں ہے۔ بلکہ23 مارچ کا تاریخی دن تمام پاکستانی قوم کو اپنے وطن عزیر کے ساتھ وفاداری اور تجدید عہد کی یاد دلاتا ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے دستور ساز اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کے دوران فرمایا تھا:اگر ہم اس عظیم مملکت پاکستان کو خوش اور خوش حال بنا نا چاہتے ہیں توہمیں اپنی پوری توجہ لوگوں بلخصوص غریب طبقے کی فلاح وبہبود پر مرکوز کرنی پڑے گی؛ اس لیے پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کو قائداعظم کے فرمان پر عمل پیرا ہوکر اپنے تمام سیاسی و ذاتی اختلافات کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک پلٹ فارم پر جمع ہوکر پاکستان کو سیاسی و معاشی بحرانوں سے نکال کر ترقی و خوشحالی کی راہ پرگامزن کریں۔

پاکستان رہے گا تو سیاست بھی چلے گی۔
بقول شاعر:
خدا کرے کہ مری ارض پاک پراترے،
وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو۔
یہاں جو پھول کھلے وہ کھلا رہے صدیوں،
یہاں خزاں کوبھی گزرنے کی مجال نہ ہو

 


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
72802