Chitral Times

Jul 3, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

غیررسمی تعلیمی ادارے – ڈاکٹر ساجد خاکوانی

Posted on
شیئر کریں:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

غیررسمی تعلیمی ادارے – ڈاکٹر ساجد خاکوانی

 

غیررسمی تعلیمی اداروں سے مراد ایسے تعلیمی ادارے ہیں جہاں داخلے کی کوئی شرائط نہیں ہوتیں، تعلیمی واجبات کی ادائگی نہیں کی جاتی،کوئی متعین نصاب بھی نہیں ہوتا،ادارے کا نظام الاوقات بھی گویانہ ہونے کے برابر ہوتاہے،پیشہ وارانہ ذہنیت کے حامل  تنخواہ داراساتذہ کرام بھی نابودہوتے ہیں،غیررسمی تعلیمی ادارہ چلانے کے لیے کسی طرح کا غیرتدریسی عملہ اور حکام بالاکاتصوراور لمبی چوڑی منصوبہ بندیاں بھی نہیں ہوتیں،اخراجات کے تخمینے اورفراہمی کے انتظامات اور پھران کی جانچ پڑتال کے لیے وفودکی آمدکابھی یہاں کوئی تصورنہیں ہوتااوربہت سخت قوائدوضوابط،کوئی خاص وردی(یونیفارم)اور امتحانات کے نتیجے میں درجات بندی اور پھر اگلے مراحل میں ترقی،عدم ترقی یاتادیباََتنزلی  کے تصورات سے بھی یہ ادارے کلیتاََ خالی ہوتے ہیں۔تاہم ان سب امور کے ہونے یانہ ہونے کے باوجود یہ غیررسمی تعلیمی ادارے تندہی سے،احساس ذمہ داری سے،بغیرکسی لالچ،بدلے یا معاوضے  اوراجرکی توقع کے اگلی نسلوں کی تعلیم و تربیت کے فرائض سرانجام دیتے ہیں اوران کی کے اثرات قرنوں تک اورصدیوں تک باقی رہتے ہیں اور تہذیب و تمدن کے فروغ میں اور روایات و شعائرکی بڑھوتری میں ان غیررسمی اداروں کاتاریخی کردارانمٹ نقوش کاحامل ہے۔

 

ماں کی گودسب سے پہلا غیررسمی تعلیمی ادارہ ہے،یہ کہنے میں کچھ باک نہ ہوگاکہ اس ادارے میں داخلہ براہ راست اللہ تعالی کی طرف سے کیاجاتاہے،گویامعلم اورمتعلم دونوں کی تعیناتی فطرت کی طرف سے کی جاتی ہے جس میں فریقین کی مرضی ورضامندی کاکوئی عمل دخل نہیں ہوتا،اس ادارے کے انتخاب میں داخل ہونے والے نومولودکی مرضی شامل حال نہیں ہوتی اورماں کی گودوالے غیررسمی تعلیمی ادارے میں داخل ہونے والا گوراہویاکالاہویاگندمی ہو،کم وزن والا لاغروکمزورہویا زیادہ وزن والا صحت مندہو،یا خوبصورت نقش و نین کامالک ہو یامحض قبول صورت اورواجبی شکل و صورت کاحامل ہویہاں تک کہ اپنے اعضاء میں بھی مکمل یانامکمل یا کسی کمی کوتاہی کاشکارہو،ہرصورت میں نوواردکو قلبی،عملی وقولی طورپر خوش آمدیدکہاجاتاہے،اسے چوماچاٹاجاتاہے،مسرتوں کااظہارکیاجاتاہے،ساراخاندان اسے ہاتھوں ہاتھ لیتاہے اور سب سے پہلے ماں بحیثیت معلم و مدرس اس کی پرورش،اکل و شرب،لباس،حاجات ضروریہ  اورتعلیم و تربیت کے لیے کمربستہ ہوجاتی ہے۔ماں کی گودمیں اس کاسب پہلا سبق “لوری”ہوتاہے،یہ اتناطاقتور اور دوررس اثرات کاحامل درس ہے کہ کم و بیش سوسال کاانسان جب موت کے بسترپرملک الموت کامنتظرہوتاہے تو اپنے منہ میں بہت آہستگی سے کچھ بڑبڑارہاہوتاہے ،معالج جب اس کی یہ نحیف سے آوازسنتاہے توبتاتاہے کہ یہ اپنے علاقائی ومقامی زبان کی نظمیں پڑھ رہاہے جوماں کی  گودمیں اسے سننےکوملیں تھیں۔ماں کی گودمیں معلم کو ایک ایساطالب علم ملتاہے جس کاذہن بالکل خالی تختی کی مانندہوتاہے اورماں اس پر جوچاہے نقش کر دے اسے دنیاکی کوئی طاقت اسے وہاں سے مٹانہیں سکتی۔اسی لیے پیداہوتے ہی بچے کے کانوں میں آذان و اقامت کہنے کاحکم ہے تاکہ یہ الفاظ اس کے شعور،لاشعوراورتحت الشعورمیں پتھکی لکیرکی طرح ثبت ہوجائیں۔ماں کی گودمیں پیار،محبت اورخلوص کے وہ اسباق سیکھنے کوملتے ہیں کہ زندگی بھرکی پریشانیوں میں جب کبھی بھی انہیں یادکیاجائے توشہدسے بھی بڑھ کر مٹھاس منہ میں عود کرآتی ہے اوروقتی طورپر سب غم غلط ہوجاتے ہیں اورماں کی گوکی شیرینیاں ایک بارپھر عمررسیدہ فردکواپنی نرم و گدازمامتابھری باہوں میں بھینچ کرچوم لیتی ہیں،تب خالق کائنات نے کیاخوبصورت تبصرہ کیاہے کہ قل رب الرھمھماکماربینی صغیرا،کہ دیجئے کہ اےمیرے رب ان دونوں (والدین)پرایسے رحم فرماجیسے انہوں نے بچپن میں میری پرورش کی۔

 

گھرکاچولھا انسانی زندگی میں دوسری ایسی تعلیمی درس گاہ ہے جو مکمل طورپر غیررسمی ہے۔ماں کی گودسے سندفراغت کے بعد بچہ چولھے کے گرد بنے دائرے میں غیررسمی تعلیم حاصل کرنے کے لیے داخل ہوجاتاہے،یہاں اس کے ساتھ اشتراک میں کچھ اور بھی بچے شریک جماعت ہیں اور یہاں پر اس کے معلمین میں لازمی طورپر ایک اضافہ تو ناگزیرہے اوروہ والد محترم کادست شفقت ہوتاہے،اس کے علاوہ خوش قسمت بچوں کو اس پرمزید معلمین بھی میسر آجاتے ہیں۔یہاں بچہ اپنے ہم جماعتوں کی صحبت سے لطف اندوزہوتاہے،سب بچے مل ماں پر گہری نظررکھتے ہیں ہیں ،اس کو سالن اورروٹیاں پکاتے ہوئے دیکھتے ہیں،روٹی پکنے پراپنی اپنی باری کاانتظارکرتے ہیں ،سب بچوں کواپنی اپنی باری پر پکی ہوئی تازہ روٹی میسرآجاتی ہے۔بہت چھوٹے بچوں کو ان کی روٹی پر ہی سالن رکھ کردے دیاجاتاہے جب کہ کچھ بچے جو تھوڑے سے بڑے ہوجاتے ہیں انہیں کٹوری بھرا سالن ملتاہے، اوربعض میں مائیں جداجدابرتنوں میں کھانا فراہم کرتی ہیں جہاں بچے لکڑی اوربان کی بنی چوکیوں پر یا پیڑیوں پر براجمان ہوکر کھاناتناول کرتے ہیں۔اس غیرتعلیمی ادارے کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں زبان اپنے ارتقاء کاسفر شروع کردیتی ہے۔لہجے یہیں سے پیداہوتے ہیں اورفروغ بھی پاتے ہیں،الفاظ کوخاص اندازسے زوردے کر اداکرنے سے انہیں سوالیہ بنانا،یاان میں تاکید کاعنصربھردینا یا آنکھ یاہونٹوں کے اشاروں سے کچھ الفاظ کی ادائگی سے کوئی خاص مفہوم اخذکرلینا یا جملہ میں شامل الفاظ کی ترتیب بدل کرانہیں کسی خاص مطلب کے اظہارکاذریعہ بنالینا دراصل اسی عمر میں شروع ہوجاتاہے۔بڑی عمر کے لوگ سالہاسال بھی دوسری زبان سیکھ کراس طرح کی ادائیگیاں نہیں کرسکتے شاید اسی لیے اس کو”مادری”زبان کہتے ہیں اور چولھے جیسے غیررسمی تعلیمی ادارے سے سیکھی ہوئی زبان دنیاکی تمام لغات میں سندکی حیثیت رکھتی ہے۔اس موقعٍ پرآپ ﷺنے فرمایاجب بچہ بولناشروع کرے تواسے سب سے پہلے اللہ کہناسکھاؤ۔

 

دسترخوان کاماحول بچوں کے غیررسمی تعلیمی اداروں کااگلا مرحلہ ہوتاہے۔یہاں وہ اب اپنے بزرگوں کے ساتھ بیٹھ کر ادب و احترام،آداب اکل و شرب،،پیشکش کے لیے ترتیب فوقیت وحفظ مراتب،نشست و برخواست کے طرق اوراپنی گفتگواوراپنے لباس کے بارے خاص حزم و احتیاط یہاں کے تدریسی اسباق ہیں۔اس تعلیمی ادارے کی اوربات خاص بات یہ ہے کہ یہاں لڑکے اورلڑکیوں کی تعلیم و تربیت جداہوجاتی ہیں کیونکہ یہی ان کی فطرت کاتقاضابھی ہے۔لڑکے اپنے بڑوں کے ساتھ بیٹھ کراوران کے اثرات قبول کرتے ہوئے دسترخوان پر اپنی تہذیب و تمدن کے مطابق مردانہ عادات و اطوارسیکھتے ہیں جن میں شکار،تیراکی،گھڑسواری اور عادات حرب شامل ہیں اورلڑکیاں اپنی بڑی بوڑھیوں کی سرپرستی میں امورخانہ داری،سلائی کڑھائی اور پکوان میں مہارت کے فنون میں سبقت لے جانے کی کوشش کرتی ہیں۔اس غیررسمی تعلیمی ادارے کی خاص بات تہذیب و تمدن کے گھوڑے کو ایڑھ لگاناہے،نئی نسل یہیں سے عہدجدیدکی باگ دوڑ اپنے ہاتھ میں لیناشروع کرتی ہیں،تربیت کے مراحل سے گزرتی ہیں،اسی غیررسمی تعلیمی ادارے میں انہیں اوقات بعض جسمانی تادیب کاسامنابھی کرناپڑتاہے جس کے باعث وہ اپنے  بڑوں سے رعب میں رہتے ہیں کیونکہ آپ ﷺکاقول مبارک ہے کہ گھرمیں کوڑا لٹکائے رکھو۔اس غیررسمی تعلیمی ادارے میں بچوں پر گھریلوذمہ داریوں کاہلکاہلکابوجھ بھی ڈالاجاتاہے تاکہ وہ بڑے ہوکر زندگی کی باگ دوڑ سنبھالنے کے قابل ہو سکیں،والدین اوردیگربزرگ رشتہ دارگویااس تعلیمی ادارے میں گویاایک طرح سے مقابلے کی فضاپیداکیے رکھتے ہیں جس سے مسابقت کاجذبہ جنم لیتاہے  اور بچے بصدشوق اورکبھی کبھی انعام کی لالچ میں اپنے ذمیہ کام میں عجلت اور حسن پیداکرنے کی سعی جمیلہ کرتے ہیں تاکہ اپنے بزرگوں کی آنکھ کاتارہ بن سکیں اوران کی تعریف کے پل باندھے جائیں۔

 

خاندانی تقریبات ,جیسے منگنی،شادی ،ولیمہ وغیرہ،فوت ہونے پر تعزیت کی مجالس ،حج کے لیے روانگی یا سفرسعادت سے واپسی پر مبارک بادکے لیے برادری کااکٹھ یادیگر کامیابیوں پر یاتہنیت کی ملاقات یا بیماری کی عیادت وغیرہ  اگلے مرحلے کے غیررسمی تعلیمی ادارے ہیں۔یہاں زیرتربیت نوجوان لڑکے لڑکیوں کو اب پہلی دفعہ غیرافرادسے بھی تعارف کا مرحلہ درپیش ہوتاہے۔دوسرے خاندانوں کے لوگ،دوسرے محلوں اور بعض اوقات دوسرے شہروں کے لوگ،دیگرزبانیں بولنے والے،دوسری قسم کے لباسٍ زیب تن کرنے والے لوگ اوربعض اوقات کھانے کے مختلف ذائقوں میں تنوع کے مشاہدے سے بھی یہ غیررسمی تعلیمی ادارہ انہیں گزارتاہے خاص طورپر جب دوسروں کی غمی خوشی میں شریک ہواجائے۔یہاں اولین تجربوں میں نوجوان کچھ دبے دبے سے رہتے ہیں اوراپنے بزرگوں کی بے تکلفیوں سے لطف اندوزہوتے ہیں۔اب تک جو بڑے بوڑھے بہت سنجیدہ اور تنظیم کے پابندنظرآتے تھے لیکن اس غیررسمی تعلیمی ادارے میں وہ نوجوان دیکھتے ہیں کہ وہی بڑے بوڑھے اپنے ہم عمرساتھیوں کے ساتھ بہت کھل کر گفتگوکررہے ہیں،ہنسی مذاق کررہے ہیں اور ایک دوسرے کے ماضی کویادکر کے کس طرح خوش گپیاں بھی لگارہے ہیں۔یہ مزاج بزرگاں ان کے لیے ایک نیاتجربہ ہوتاہے،وہ سیکھتے ہیں کہ بہت عرصے بعدملنے کے کیاطورطریقے ہوتے ہیں،کن الفاظ والقابات سے پرانے شناساؤں کویادکیاجاتاہے،مہمانوں کو کس طرح خوش آمدیدکہتے ہیں،ان کے قیام و طعام میں کن امور کو پیش نظررکھاجاناچاہیے اورخود مہمان بن کرجائیں تو کن رویوں سے میزبان کو آسودہ رکھناہے وغیرہ۔اس غیررسمی تعلیمی ادارے میں معاشرتی رسوم و رواج کوخاص دخل ہےجوکہ تہذیب و تمدن کاایک خاص پہلوہے۔اسلام نے رشتہ داروں،مہمانوں اورپڑوسیوں کے حقوق پر خصوصی توجہ دی ہے اورایک حدیث مبارکہ میں آپ ﷺ نے فرمایاکہ جواللہ تعالی اورآخرت پرایمان رکھتاہے اسے چاہیے کہ اپنے مہمان کااکرام کرے۔

 

غیررسمی تعلیمی اداروں میں عموماََ تعلیم کی نسبت تربیت پرزیادہ مرکوزہوتی ہے اور بہت ہی غیرمحسوس طریقے سے زیرتربیت نوجوان اپنی تربیت کے مراحل تیزی سے پورے کرتے چلے جاتے ہیں۔خوشی کااظہاراورتفریح اور کھیل تماشے بھی چونکہ تعلیم وتربیت کاایک لازمی جزو ہوتے ہیں اس لے سالانہ میلے غیررسمی تعلیمی اداروں کی ایک اورقسم ہے۔مذاہب نے عیدوں کے نام سے خوشی مواقع متعارف کرائے ہیں جن میں نئے کپڑے اور میٹھے و نمکین پکوان وغیرہ ان ایام مسرت کاحصہ ہوتے ہیں۔مختلف علاقوں میں مختلف طرزکے میلے منعقدہوتے ہیں ،کہیں سورج اورچاندکے ساتھ یہ مواقع منسلک ہوتے ہیں ،کہیں فصلوں کی کٹائی ان کے آغازکا موقع بنتی ہیں توکہیں اچھے موسموں کی آمدکو مرحباکہنے کے لیے یہ میلے منعقدکیے جاتے ہیں۔ان میلوں میں میلوں کاسماں ہوتاہے،وقتی طوراورجزوی طورپرپر حفظ مراتب سے صرف نظرکرلیاجاتاہے،مقامی رقص میں بڑھے بوڑھے بچے سب شریک ہوتے ہیں،خواتین دیکھنے کی حدتک شامل ہوتی ہیں البتہ غنی کی محافل میں خواتین اپناحصہ ڈالتی ہیں،مقامی کھیل منعقدکیے جاتے ہیں،مسابقت کے جذبے کے تحت ہرفرد،خاندان اورقبیلہ اس میں شرکت کرتاہے اورکئی کئی دنوں تک جاری رہنے والے ان میلوں میںکھانے پینے کے مقامی پکوان لوگوں کے سامنے تیارکیے جاتے ہیں اورانہیں کڑھائیوں سے نکال کرگرم گرم کھانے کے لیے پیش بھی کردیاجاتاہے۔زیرتربیت نوجوانوں کے لیے یہاں سیکھنے کی خاص چیزمقامی ادب ہے۔ان میلوں میں رات گئے ادبی محفلیں منعقدہوتی ہیں،سارے دن کے میلے سے تھکے ماندے لوگ اب سکون سے بیٹھ جاتے ہیں اور کہانی گوافراد قسم اسم کی رنگ برنگی کہانیاں سناتے ہیں،شعراء کرام فی البدیہ اشعارکی لمبی لمبی نظمیں ترنم سے یاتحط اللفظ پڑھتے ہیں ،بعض اوقات یہ نظمیں مکالموں کی شکل اختیارکرلیتی ہیں اور ایک گروہ کانمائندہ کوئی نظم یا ثلاثی یارباعی یاخماسی پڑھتاہے،اس میں اٹھائے گئے اعتراض،سوال یامحبت بھری کسی اداکا دوسرے گروہ کے شعراء انہیں اصناف میں جواب دیتے ہیں اوررات گئے تک یہ محفلیں جاری رہتی ہیں جہاں نوجوان زیرتربیت افرادکی ادبی تربیت کی جاتی ہے اوریہ غیررسمی تعلیمی ادارہ یوں اپنے نوجوانوں میں سے ادیب،شاعر،کہانی گواورغنی کی تربیت حاصل کرتے ہیں اورفطری ماحول میں اپنی ان صلاحیتوں کوپروان چڑھاتے ہیں۔

پنچائت یاجرگہ یاچوپال اپنی نوعیت کی آخری غیررسمی تعلیم گاہ ہے۔یہاں نوجوان کواب یہ نظم تعلیم سندفراغت عطاکرنے والاہے،اب اسے قیادت کافریضہ سرانجام دیناہے،یہاں اسے دیکھناہے کہ فریقین کے درمیان فیصلہ کیسے کرناہے،دعوی اور ثبوت کیسے پیش کرنے ہیں اور کن معیارات پر انہیں قبول یاردکردیاجاناہے،گواہوں کی شرائط ہوتی ہیں،گواہ کیسے اپنا بیان دیتے ہیں،کن معاملات کویہاں حل کیاجاتاہے اور کون سے ایسے مقدمات ہیں جن پر ریاست نے اپنی مہرثبت کرنی ہے۔نوجوان یہاں پہلے مشاہدہ کرتاہے،سیکھتاہے،اپنےذہن نشین کرتاہے اورپھر اسے ان ذمہ داریوں کی ادائگی کے لیے تیارکرکے زمانے کی باگ دوڑ اس کے سپرد کردی جاتی ہے۔اس کو نکاح کے بندھن میں باندھ دیاجاتاہے جہاں اس کے ہاں جنم لینے والا نومولوداپنے دائرہ حیات کی تکمیل کے لیے اس کادست نگر ہوجاتاہے،یوں پہلے وہ ایک گھرکاسربراہ بنتاہے،اولاد کے صاحب اولاد ہونے پروہ ایک خاندان کابزرگ بن جاتاہے اورپھروقت اگراسے مہلت دے تو اپنی زندگی کے آخری ایام پیری میں وہ پورے قبیلے کاسرداربنتاہے اور فطری قیادت کی ذمہ داریاں اس کے سپرد ہوجاتی ہیں۔

 

تین صدیوں سے زائدعرصہ گزرگیاکہ سیکولرازم نے انسانیت کی گردن پراپنے خونین اورزہرآلودپنجے گاڑھ رکھے ہیں۔ اس شیطانی نظریے نے جہاں انسان  کاچین سکون اورخاندانی نظام تباہ وبربادکرکے رکھ دیاہے اور قبیلہ بنی آدم کو ناک تک سودمیں جکڑرکھاہے اورعریانی و فحاشی سے پورے ماحول کوانتہائی بدبوداربناکے رکھ دیاہے وہاں سیکولرازم کایہ آسیب غیررسمی تعلیمی کو بھی نگل رہاہے۔سب سے بڑاظلم یہ ہے اس سیکولرازم نے بچوں سے ماں کی گود سلب کرلی ہے،اب ماں صرف بچہ پیداکرتی ہے اور چنددنوں کے بعداسے پیشہ ور دائیوں اورماماؤں کے سپردکر کے خود اپنے دفترمیں روانہ ہوجاتی ہے۔نمازجیسی عبادت کے لیے سات سال کی عمرمیں تلقین اوردس سال کی عمرمیں سختی کی اجازت ہے لیکن سیکولرنظام تعلیم ساڑھے تین سال کی عمرکابچہ داخل کرلیتاہے اوراسے چولھے اورخاندان جیسے غیررسمی تعلیمی ادارے  سے محروم کردیاجاتاہے۔غیرزبان میں تعلیم کے ذریعے پہلے دن سے بچوں میں تخلیقیت دم توڑ جاتی ہے  اورانہیں ایک غیرتہذیب کاذہنی وفکری غلام بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔اس سیکولرتہذیب کی سکرین نے میلوں ٹھیلوں کوہڑپ کرلیاہے”گلوبل ویلج”کے نام پر بین الاقوامی غلامی کاطوق نسلوں کی گردنوں میں پیوست کیاجارہاہے،سیکولرازم کےمتعارف کیے ہوئےظالمانہ عدالتی نظام نے جرگوں اورپنچائتوں کونگل لیاہے اب فوری اورمفت انصاف کی بجائے بھاری رقوم کی ادائگی کرکے ظلم وتعدی خریدی جاتی ہے۔براہواس سیکولرتہذیب کا جس نے پوری دنیاہے پیار،محبت،الف،وارفتگی،چاہت اورقلبی لگاؤ کی جگہ کمرشل ازم متعارف کرادیاہے اور چھوٹی چھوٹی بچیوں کی مسکراہٹوں کوبھی اشتہاروں میں استعمال کرکے ان کی قیمت لگائی جاتی ہے سے کاروباری فوائدسمیٹے جاتے ہیں۔سب سے زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ تعلیم وتعلم جو معرفت الہی کاایک مقدس ذریعہ تھااب ملازمت حاصل کرنے کاایک مکروہ دھندابن چکاہے۔دوسری جنگ عظیم کے بعدسے سیکولرازم کے خلاف پیداہونے والاردعمل اب پورے کرہ ارض میں از شرق تاغرب سرچڑھ کربول رہاہے،نفرت کاایک طوفان ہے جو امڈتاچلاآرہاہے اوراب موج مضطرہی اسے زنجیرپاہے۔اس ردعمل کو گیارہ ستمبر(9/11)کے بعدسے گویامہمیزلگ گئی ہے۔دنیابھرکے دانشور،اعلی تعلیم یافتہ لوگ اور عوام الناس کاجم غفیربہت تیزی سے درس ختم نبوت کی طرف گامزن ہیں۔کذب ونفاق سے آلودہ سیکولرازم اب حق پرستوں کے اس بڑھتے ہوئے سیل رواں کو نہیں روک پائے گااوربہت جلد خاورخطبہ حجۃ الواداع اس دنیامیں طلوع ہونے کوہے،ان شااللہ تعالی۔

[email protected]


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
77796