Chitral Times

Jul 4, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

عالمی یوم آزادی صحافت – تحریر: قاضی شعیب خان

شیئر کریں:

عالمی یوم آزادی صحافت – تحریر: قاضی شعیب خان

پاکستان سمیت پوری دنیا میں ہر سال کی طرح رواں سال میں 03مئی2023 کے دن قلم کی حرمت کے تحفظ کے لیے آزادی صحافت کا دن اس عہد کے ساتھ منایا جاتا ہے کہ دنیا بھر کے صحافیوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے ہر سطع پر جدوجہد جاری رکھی جائے گی۔ صحافتی تنظیمیں ٓزادی صحافت کے حوالے سے سیمنارز، ریلیاں اور احتجاجی جلوس بھی نکالتے ہیں۔ مگر پاکستان میں یہ اہم دن انتہائی خاموشی کے ساتھ گزر گیا۔ پاکستان میں آزادی صحافت کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے تحت صحافیوں کو مکمل آزادی دی گئی ہے۔ حیران کن امر یہ ہے کہ تمام اپوزیشن سیاستدان اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے کے لیے میڈیا کے کندھے استعمال کرتے ہیں اور جب مسند اقتدار پر بیٹھ جاتے ہیں تو سب سے پہلے میڈیا کی آزادی کو کچلنے کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے صحافیوں کے خلاف نئے نئے قوانین بنائے گئے ان کے خلاف پیکا ایکٹ اور دھشت گردی کے مقدمات بنائے جاتے رہے ہیں۔

 

آزادی صحافت سے خائف پاکستان کے جہوری اور آمریت دور حکومت نے ہمیشہ صحافیوں کو ہمنوا بنانے کے لیے میڈیا ہاؤسز کے ذریعے دباؤ ڈالتے ہوئے انھیں ملازمت سے بھی فارغ کیا جاتا رہا۔ انکار کی صورت میں صحافیوں اور ان کے زیر کفالت خاندانوں کی بھی شدید ذہنی اور معاشی مسائل سے دوچار کیا۔ جن کی تمام تفصیلات سرکاری اور نجی اداروں کے ریکارڈ میں بھی موجود ہے۔ پاکستان میں صحافت کو ریاست کا چوتھا ستون ہونے کا اعزاز حاصل ہے جس کے لیے قلم کے مزدروں نے جان ہتھیلی پررکھ کر آزادی صحافت کے پرخار راستوں کو عبور کرتے ہوئے دنیا میں اپنا لوہا منوایا۔ اس صحافتی آزادی کو کچلنے کے لیے پاکستان کے حکمران طبقے سے اپنے اپنے دور میں فعال صحافیوں کے خلاف قوانین بنائے اور انھیں تخت مشق بنایا۔ پاکستان کے سیاستدان بھی عجیب ہیں جب اپوزیشن میں ہوں تو صحافیوں کے ساتھ کھڑے ہو کر اظہار یک جہتی کا دم بھرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور جب برسر اقتدار ہوں تو صحافیوں کو اپنے ہم نوا بنانے اور ان کی زبان بندی کے لیے تمام ریاستی اداروں کو استعمال کرتے ہیں۔

 

حیران کن امر ہے کہ ریاست کے دیگر تین ستون عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ بھی اس دور میں خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتے ہیں۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان کے ازخود نوٹس کے تناظر میں پاکستان کے معروف سینئر صحافیوں حامد میر پر 19 اپریل 2014میں کراچی میں ہونے قاتلانہ حملے اور ارشدشریف کے قتل کے حوالے سے تین رکنی بینچ بھی تشکیل دئیے گئے۔ اس دوران صحافی ارشد شریف نے اپنے وکیل بیرسٹر شعیب رزاق کے توسط سے عدالتی کمیشن کی رپورٹ کے حصول کے لیے جب اسلام ہائی کورٹ میں رٹ دائر کی تو وزارت داخلہ نے عدالت میں اپنا موقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ قومی مفاد میں کمیشن کی روپورٹ جاری کرنا ممکن ہی نہیں۔حامد میر کے مطابق اگر ان کی رپورٹ پبلک ہوجاتی توارشد شریف کی جان بچ سکتی تھی۔ اس طرح صحافی مدثر نارو گزشتہ پانچ سال سے لاپتہ ہے جس کی والدہ پاکستان کے تمام مقتدر حلقوں کے سامنے فریادکر رہی ہے۔ عیدالفطرسے قبل اس کے لاپتہ بیٹے سے کم از کم زندہ ہونے کی تسلی ہی دلادیں مگر بدقسمتی سے تمام ادارے خاموش ہیں۔ صحافیوں اور ان کے متاثرہ خاندانوں بار بار کی استدعا کے باوجود عدالت کی رپورٹ منظرعام پر نہ لانا انصاف میں تاخیرانصاف میں انکار کے مترادف ہے۔

 

پاکستان کے نڈر اور بے باک سینئر صحافی ارشد شریف عوام کے اظہار رائے کی آزدی کے بنیادی آئینی حقوق کے تحفظ کی جنگ لڑتے لڑتے 3 اکتوبر 2022 کی شب کینیا کی پولیس کے ہاتھوں قتل ہو گئے اور بروز جمعرات 27 اکتوبر 2022 کو وفاقی دار ا لخلافہ اسلام آباد کے سیکٹر H-11 قبرستان میں لاکھوں اشک بار آنکھوں کے سامنے ابدی نیند سو گیا۔ جن کی شہادت کے بعد پورے ملک کی فضا سوگوار ہے۔ ملک کے طول و عرض میں ان کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی جا رہی ہے۔ پوری قوم ان کے درجات کی بلندی کے لیے دعا گو ہے۔ شہید صحافت ارشد شریف کی صحافتی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے پورے ملک سے آئے ہوئے عوام کا جم غفیر عوام میں اس کی مقبولیت کی ایک روشن دلیل ہے۔ جو اپنے عوام کے دلوں میں آج بھی زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا۔اللہ پاک نے انسان کو اشرف المخلوقات ہونے کے ناطے بے پناہ نعمتوں سے نوازہ ہے۔انسان عطاکردہ ان نعمتوں کا شکر ادا نہیں کر سکتا۔ جس میں سے اظہار رائے کی آزادی سب سے قیمتی انعام ہے۔

 

اسلامی جہوریہ پاکستان کے1973 کے دستور میں پاکستان کے تمام شہریوں کو دیگر بنیادی حقوق کے تحفظ کے ساتھ ساتھ آرٹیکل 19کے تحت انھیں اپنی رائے کے آزادانہ رائے کے اظہار کی مکمل گارنٹی دی گئی ہے۔ ملک کے دیگر صحافیوں کی طرح صوبہ پنجاب اورخیبر پختونخوا کے انتہائی حساس سرحدی ضلع اٹک کے صحافی حضرات بھی اپنے محدود وسائل کے باوجود عوام کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے مصروف عمل رہتے ہیں۔ عوام کو اپنے رائے کے آزادانہ اور غیر جاندارانہ اظہار کے لیے پریس کلب بہت اہمیت کا حامل رہا ہے۔ عوام کے حقوق کے تحفظ کی جدو جہد میں ضلع اٹک کے پروفیشنل صحافیوں نے گراں قدر خدمات سرانجا م دی ہیں۔ پاکستان کے معروف صحافی محمد اسماعیل کا تعلق بھی ضلع اٹک سے تھاجن کو 16سال قبل پی پی آئی نیوز ایجنسی اسلام آبادمیں صحافتی فرائض کے دوران شہید کر دیا تھا۔میڈیا اطلاعات کے مطابق گزشتہ روز مقبوضہ پریس کلب اٹک (رجسٹرڈ) کے سرپر ست اعلی سینیرصحافی سید رضا نقوی نے وزیر اعلی پنجاب سے مطالبہ کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ ضلع انتظامیہ اٹک نے نقص امن عامہ کی فرضی کہانی بنا کر راتوں و رات قانونی تقاضے بالائے تاق رکھتے ہوئے صحافی برادری کو پریس کلب سے محروم کر دیا ہے۔

 

اٹک پریس کلب اور اس میں پڑئے ہوئے لاکھوں روپے مالیت کا سامان چھین کر زبردستی قبضہ کرکے محکمہ مال کے سپر د دیا ہے۔ اٹک پریس کلب کا مین گیٹ توڑ کر صحن کو گاڑیوں کی پارکنگ میں تبدیل کر دیا ہے۔ ضلع انتظامیہ کے اس غیر قانونی اور غیرآئینی اقدام پر سراپا احتجاج صحافی برادری نے ڈپٹی کمشنر سمیت پنجاب کے تما م متعلقہ حکام کو اپیل کی جس پر ڈپٹی کمشنر اٹک نے سرسری سماعت کے بعد معاملہ ڈپٹی ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز اٹک شہزاد نیاز کی حل کرنے کی ہدایات جاری کیں تو انھوں نے چھ ماہ قبل اٹک پریس کلب کی فائل چیف آفیسر ضلع کونسل اٹک بادشاہ خان کو ریکارڈ کے لیے بجھوا دی تھی۔ جو تاحال افسر شاہی کے خود ساختہ رکاوٹوں میں الجھا ہوا ہے۔ مقبوضہ پریس کلب اٹک (رجسٹرڈ) کے سرپر ست اعلی سینیرصحافی سید رضا نقوی نے بتایا کہ مذکورہ پریس کلب کی الائٹمنٹ 1985 میں سابق چیرمین ضلع کونسل اٹک سید اعجاز بخاری نے ضلع کونسل کی متفقہ قرار داد کی روشنی میں کی تھی۔ جس کے تمام واجبات کلب کے ارکان اپنی جیب سے ادا کرتے تھے۔ بعد ازاں ضلع کونسل کی جانب سے مفاد عامہ کے تحت استثناء دے دیا تھا۔ضلع انتظامیہ نے صحافی برادری کو اپنے دفاع کا قانونی اور آئینی حق دیئے بغیر ہی پریس کلب پرغاصبانہ طور پر قبضہ قائم کر رکھاہے۔ جس کی وجہ سے صحافیوں کو اپنے فرائض منصبی سرانجام دینے کے لیے شدید مشکلات اور ازیت ناک صورت حال کا سامنا ہے۔

 

ضلع بھی کی صحافی برادری نے 5 فروری 2023کو کشمیر ڈے کے موقع پرکشمیری عوام کے ساتھ یک جہتی کے اظہار کے ساتھ ساتھ اپنے مقبوضہ پریس کلب کے غاصبانہ قبضے کے خلاف احتجاجی ریلی کے دوران بھی پنجاب کے اعلی حکام سے پریس کلب پر ضلع انتظامیہ کا بلاجواز قبضہ ختم کرانے کا مطالبہ کیا تھا۔ مقبوضہ پریس کلب اٹک (رجسٹرڈ) کے سرپر ست اعلی سینیرصحافی سید رضا نقوی نے معروف صحافی اور پنجاب کے نگران وزیر اعلی محسن نقوی سے اٹک پریس کلب کا قبضہ واگزار کرانے کے بعد فعال کرنے اور اس معاملے میں ملوث تمام افسران اور پس پردہ کرداروں کے خلاف قانونی کاروائی کا مطالبہ کیا تھا۔ جسے منہ زور بیورو کریسی نے اپنی جھوٹی انا کا مسئلہ بنا تے ہوئے خود ساختہ دفتری رکاوٹوں کی نذد کر رکھا ہے۔ جس کے نیتجے میں صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخواہ کے بین الصوبائی حساس سرحدی ضلع اٹک کی صحافی برادری کواپنے صحافتی فرائض سرانجام دینے میں کافی مشکلات کا سامنا ہے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے قومی اسمبلی سے وکلاء برادری کے جان و مال کے تحفظ کے لیے بل منظور کر کے ایکٹ آف پارلیمنٹ نافذ کر دیا ہے اور سند ھ حکومت نے صحافیوں کے تحفظ کے لیے جرنلسٹس پروٹیکشن ایکٹ نافذ کیا ہے۔ اس طرح وفاقی حکومت کو بھی ملک کے دیگرعلاقوں کے صحافیوں،ان کے زیر کفالت خاندانوں کے جان و مال اور فرائض کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے فوری قانون سازی کے لیے بروقت ٹھوس اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔

 


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
74018