Chitral Times

Jul 2, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

صدر اپنے اقدام کے خود ذمہ دار ہیں انہوں ںے جان بوجھ کر منظوری میں تاخیر کی، وزارت قانون

شیئر کریں:

صدر اپنے اقدام کے خود ذمہ دار ہیں انہوں ںے جان بوجھ کر منظوری میں تاخیر کی، وزارت قانون

اسلام آباد( چترال ٹایمزرپورٹ)وزارت قانون و انصاف نے صدر مملکت کے حالیہ ٹویٹ پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ صدر کو اپنے اقدامات کی ذمہ داری خود لینی چاہیے۔وزارت قانون و انصاف کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 75 کے مطابق جب کوئی بل منظوری کے لیے بھیجا جاتا ہے تو صدر مملکت کے پاس دو اختیارات ہوتے ہیں، یا تو وہ بل کی منظوری دیں یا وہ مخصوص تحفظات کے ساتھ معاملہ پارلیمنٹ کو واپس بھیج دیں، آرٹیکل 75 صدر مملکت کو کوئی تیسرا آپشن فراہم نہیں کرتا۔وزارت قانون نے کہا ہے کہ آرمی ایکٹ ترمیمی بل اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل کے معاملے میں کسی بھی اختیار پر عمل نہیں کیا گیا بلکہ صدر مملکت نے جان بوجھ کر منظوری میں تاخیر کی، بلوں کو تحفظات یا منظوری کے بغیر واپس کرنے کا اختیار آئین میں نہیں دیا گیا، ایسا اقدام آئین کی روح کے منافی ہے، اگر صدر مملکت کو بل پر تحفظات تھے تو وہ اپنے تحفظات کے ساتھ بل واپس کر سکتے تھے جیسا کہ انہوں نے ماضی میں کئی بار کیا۔وزارت قانون نے مزید کہا ہے کہ وہ اس سلسلے میں ایک پریس ریلیز بھی جاری کر سکتے تھے، یہ تشویش ناک امر ہے کہ صدر مملکت نے اپنے ہی عملے کو مورد الزام ٹھہرانے کا انتخاب کیا، صدر مملکت کو اپنے عمل کی ذمہ داری خود لینی چاہیے۔

 

صدر کے پاس 10 دن تھے دونوں بل اعتراض کیساتھ واپس کیوں نہ کیے؟ نگراں حکومت

اسلام آباد(چترال ٹایمزرپورٹ)نگراں وزیر قانون احمد عرفان اسلم نے کہا ہے کہ صدر کے پاس دو بلوں کی منظوری کے لیے دس دن موجود تھے وہ ان پر اعتراض عائد کرکے واپس کرسکتے تھے مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا اور مدت پوری ہونے پر بل قانوناً منظور ہوگئے۔نگراں وزیر قانون نے نگراں وزیر اطلاعات مرتضٰی سولنگی کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ صدر مملکت وفاق کے سربراہ ہیں ان کا احترام کرتے ہیں، آرمی ایکٹ ترمیمی بل ایوان صدر کو دو اگست کو موصول ہوا اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل منظوری کے لیے ایوان صدر کو آٹھ آگست کو موصول ہوا، ان کے پاس صرف دو اختیار ہیں کہ وہ بل منظور کریں یا اسے اعتراض کے ساتھ واپس کردیں، تیسرا کوئی راستہ نہیں اور اگر بل واپس نہ کیا جائے تو ایوان صدر ارسال کرنے کے دس دن کے اندر قانوناً خود بخود منظور ہوجاتا ہے۔احمد عرفان اسلم نے کہا کہ صدر مملکت کے پاس دس دن موجود تھے وہ اعتراض عائد کرکے واپس کرسکتے تھے جیسا کہ انہوں ں ے اس سے قبل بھی ماضی میں کئی بلوں کو اعتراض کے ساتھ واپس کیا، آج سے قبل ایسی کوئی صورتحال سامنے نہیں ا?ئی کہ جس میں بغیر دستخط کے یا بغیر اعتراض کے کسی بل کو واپس کرنے کا عندیہ دیا گیا ہو، دس روز کی مدت صرف اسی لیے ہے تاکہ کوئی آئینی بحران پیدا نہ ہو۔نگراں وزیر قانون ں ے کہا کہ نگراں حکومت کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں اور ہمارا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں، ہم سیاسی گفتگو سے گریز کریں گے۔ انہوں ں ے مزید کہا کہ اس معاملے پر صدر مملکت کے اسٹاف کا سامنے آکر وضاحت دینا نامناسب عمل ہوگا۔نگراں وزیر اطلاعات مرتضٰی سولنگی نے ایک سوال پر کہا کہ اس معاملے پر اب کوئی ابہام نہیں، پریس ریلیز اور اس پریس کانفرنس کے ذریعے ہم مکمل وضاحت دے چکے، صدر مملکت ں ے دس دن کے اندر یہ دونوں بل اپنے مشاہدات کے واپس کیوں نہ کیے؟ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ہم اس معاملے میں ایوان صدر کا کوئی ریکارڈ قبضے میں نہیں لیں گے، اگر صدر مملکت کا اسٹاف ان کے اپنے اختیار میں نہیں تو یہ ان کا معاملہ ہے میں اس بارے میں مزید کچھ نہیں کہہ سکتا۔

اگر صدر مملکت کا اسٹاف بھی انکے بس میں نہیں تو مستعفی ہو جائیں، عرفان صدیقی

اسلام آباد(سی ایم لنکس)مسلم لیگ ن کے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ اگر صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا اسٹاف بھی ان کے بس میں نہیں تو مستعفی ہو کر گھر چلے جائیں۔اپنی ٹویٹ میں سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ صدر علوی کھل کر بات کریں، اگر بلوں سے اختلاف تھا تو انہوں نے کیوں اپنے اعتراضات درج نہ کیے؟ ہاں یا نہ کے بغیر بل واپس بھیجنے کا کیا مقصد تھا؟سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ میڈیا پہ خبریں آنے کے باوجود وہ دو دن کیوں چپ رہے؟ بولے بھی تو معاملہ اور الجھا دیا۔واضح رہے کہ صدر مملکت نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل 2023ء اور پاکستان آرمی ترمیمی بل 2023ء پر دستخط نہ کرنے کا انکشاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں اس پر دستخط کرنے کے حق میں نہیں تھا اور میرے عملے نے میری مرضی کے برخلاف قدم اٹھایا۔اپنے ٹویٹ میں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے کہ خدا گواہ ہے کہ میں نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل 2023ء اور پاکستان آرمی ترمیمی بل 2023ء پر دستخط نہیں کیے، میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل 2023ء اور پاکستان آرمی ترمیمی بل 2023ء سے متفق نہیں۔

 


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, جنرل خبریںTagged
78072