Chitral Times

Jun 30, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

شندور کا خوفناک چہرہ – (پارٹ ٹو) ۔ تحریر: شمس الحق نوازش

Posted on
شیئر کریں:

شندور کا خوفناک چہرہ – (پارٹ ٹو) ۔ تحریر: شمس الحق نوازش

شندور میں جب سورج طلوع ہوتا ہے تو صبح کی آمد کا نظارہ دنیا بھر کے دیگر حسین خطوں سے یکسر مختلف نظر آتا ہے۔ تازہ اور فرحت بخش ہوا سیاحوں کو آہستہ آہستہ شندور جھیل کے کنارے ٹہلنے پر مجبور کردیتی ہیں۔

سردیوں خصوصاً جنوری کے موسم میں پہاڑ کے اندر چھپے ہوئے غاروں میں آئی بیکس کے گروہ نظر آتے ہیں جنوری کے مہینے میں شدید برفباری کے باعث شندور دنیا سے کٹ کے رہ جاتی ہے اُس وقت کی یخ بستہ ہوائیں انسانی پسلیوں کو چیرتی ہیں اور ہڈیوں کا گودہ منجمد کرکے رکھ دیتی ہیں۔

22 مارچ 1895؁ء کو محصوریں چترال کو بچانے کے لیے یہی سے گزرنے والے عسکری دستہ اور فرنگی فوجی مہم کے سربراہ رابرٹ سن کو سردی کی شندت نے جس طرح بے بس کیا تھا وہ ناقابل بیان ہے۔ اُس وقت رابرٹ سن کا (میڈان یو ایس اے) تھرمامیٹر شندور میں سردی کی شدت کی پیمائش کرنے سے عاجز آگیاتھا اُس وقت کے عسکری دستے میں موجود سیکھ سپاہی سردی کی شدت سے بیہوش ہوگئے تھے۔ یہاں کی طوفانی ہواؤں نے رابرٹ سن کے یرقندی گھوڑے کو شراب پینے پر مجبور کردیا تھا۔ رابرٹ سن کا گھوڑا تھوڑی دیر کے لیے شراب کے نشے میں مست ضرور ہوا لیکن جانبر نہیں۔۔۔۔ شندور کی یخ ہواؤں نے فرنگی آفیسروں اور سکھ سپاہیوں کو پاؤں گرم رکھنے کے لیے بکری کی چربی کا محتاج بنا دیا تھا۔ سردی کی شدت سے انگریز فوجی کمانڈر ٹاؤ نشینڈ (Town Shend) کے ہاتھ ان کے پستول سے چپک گئے تھے 31 مارچ 1895؁ء کی صبح کرنیل کیلی کے فوجی دستے میں شامل کئی سپاہی اپنے ہاتھ اور پاؤں کی انگلیوں سے محروم ہوگئے تھے۔

غذر اور چترال میں آج بھی اُس مسافر کو انتہائی خوش قسمت سمجھا جاتا ہے جو شندور کی جان لیوا سردی میں شندور کے بے رحم طوفانی ہواؤں کو چکمہ دے کر زندہ سلامت درہ شندور کو عبور کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ سردیوں میں شندرور اپنے مزاج کی کج روی اور ترش روی کی بناء پر یہاں کے مقامی باسیوں پر اپنا خوفناک اثر قائم کررکھا ہے۔ چترال کے وہ بے بس راہ گیر جو شندور سے گزرتے ہوئے لقمہئ اجل ہوگئے ہیں اُن کے خون کی چھینٹوں کے داغ آج بھی شندور کے خوفناک اور غضبناک مناظر کے چشم دیدہ گواہ ہیں۔

یہ اہالیانِ غذر اور باسیانِ چترال کی دریا دلی اور فیاضی کا واضح ثبوت ہے کہ باؤجود اس قدر خونخواری کے آج تک چترال اور غذر کے کسی صحافی، ادیب اور شاعر نے اس کو طنز و ملامت یا طعن و تشینع کا نشانہ بنایا اور نہ ہی کسی نے اُسے نانگا پربت کی طرح خونی درہ یا قاتل شندور کا طعنہ دے کر لعنت ملامت کیا بلکہ سب یک زبان ہوکر اُس کی خامیوں کو سلسلہ ئ کوہِ ہندوکش کے پہاڑوں کی اوڑھ میں دفنا کر اس کے قصیدہ خوانی اور مدح سرائی میں مصروف ہیں۔ صرف ایک مرتبہ ایک مقامی سیاح نے چٹکلا انداز میں شندور کے اس دو رُخی مزاج کو تنقید کا شعری لبادہ پہنا کر ادبی زبان میں یوں شکوہ کیا ہے

اے شندور کیا تہ شوئیک، کیا تہ ڑوئیک
اے شندور کیا تہ ہو سئیک، کیا تہ کیٹرئیک

شندور کی حسن و دلکشی اور حسن گلوسوز کے تذکرہ نے نہ صرف صحافیوں اور ادیبوں کے قلم کو مہمیز بخشاہے بلکہ شعراء بھی شندور کی مدح سرائی میں بیتاب نظر آتے ہیں۔ چترال سے تعلق رکھنے والے کھوار زبان کے مشہور شاعر ذاکر محمد زخمی شندور کی شان میں لکھے گئے اپنے اشعار میں نہ صرف گلگت بلتستان کے مختلف خطوں سے تعلق رکھنے والے قوموں کو شندور میلے میں شرکت کی دیتے ہیں بلکہ مختلف نسل کے گھوڑوں کے نام لے کر اُن کی حُسن وکارکردگی میں بھی رطب السان نظر آتے ہیں۔

 

شندورا میلہ ھنون ڑوڑک مَو لغلہ ھنون
گیؤر کی ہنزِک، پیالک گئیور گئیور ویرشِک داریلِک گیؤر
گیؤر کی گِلتک، غیرزک گیؤر گیؤر کی ویخِک یارخونِک گیؤر

شیر ژیریان پائرہ ھنون
شندورا میلہ ھنون

غذر سے تعلق رکھنے والے معروف ادیب و شاعر جاوید حیات کاکا خیل شندور کو غذر اور چترال کے سرپر حسن و جمال کے تاج سے تشبیہ دیتے ہیں سورنک اور بیرٹش پھولوں کو شندور لیک کے گرد و نواح میں حسیناؤں کے ہارسے موسوم کرتے ہیں۔ شندور کی شان میں جاوید حیات کاکاخیل کے غزل کے چند اشعار ملاحظہ ہوں

کھپالہ تاج شاہانن دربار شیر شندور فطرتو حُسن قدرتو شاہکار شیر شندور
مَو نازو ادا درونگ آوان غیر زوچہ لاسپور تن خوش دارکان ھردیا ازبار شیر شندور

برٹش گورنمنٹ نے چترال کو سڑک اور ٹیلی گراف لائن کے ذریعے گلگت سے ملادیا تھا۔ کئی مقامات پر پُل تعمیر کئے گئے تھے مستوج، گوپس، گلگت اور چترال میں تارگھر قائم کئے گئے تھے مگر پاکستان بننے کے بعد ہمارے حکمرانوں نے یہ تار گھر اور مستوج سے گلگت کو ملانے والی ٹیلی فون لائن بھی ختم کردیئے۔ 1947؁ء میں پاکستان کے بعد جب کشمیر کا تنازعہ پیدا ہوا تو گلگت بلتستان کے عوام نے کشمیر کے ڈوگرا راجہ کے خلاف جہاد کا اعلان کیا۔ اُس وقت چترال کے ریاستی باڑی گاڑ اور چترال اسکاؤٹس کے دستوں نے جنگ آزادی میں گلگت بلتستان کے مسلمان بھائیوں کا ساتھ دینے کے لیے 1948؁ء میں شندور کو عبور کیا۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے شندور کی دفاعی اہمیت میں مسئلہ کشمیر کی وجہ سے مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ گزشتہ دہائی کے دوران سیاچین پر بھارتی حملہ اور افغان بارڈر میں انڈیا کی طرف سے افغان فوج کی پشت پناہی سے افغانستان کے بعد واخان کی پٹی کے اندر سابق سویت یونین کی طاقت ور فوجی تنصیبات کی وجہ سے شندور کی دفاعی اہمیت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ دفاعی تناظر میں شندور کے محل وقوع کو دیکھا جائے تو اس کی دفاعی اہمیت اور بھی عیاں ہوجاتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ خود کو اس ملک کے بہی خواہ کہلانے والوں کو اس کے دفاعی، جغرافیائی اور سیاحتی اہمیت سے اشنائی کی توفیق ملے۔

شندور تک کیسے پہنچیں؟
اگر آپ کا تعلق پاکستان کے کسی بھی شہر سے ہے تو شندور جانے کے لیے آپ کو پشاور یا پنڈی کا رُخ کرنا پڑے گا۔ پنڈی سے شندور کے لیے دو راستے ہیں زمینی اور فضائی۔۔۔ فضائی سفر کا دارومدار موسم پر ہے۔ زمینی سفر راولپنڈی سے شروع کریں تو پیر ودھائی سے کے کے ایچ کے راستے شندور پہنچیں گے۔ پیرودھائی سے روانگی کے بعد پہلا پڑاؤ بشام کا آتا ہے۔ یہ پنڈی سے تقریباً250 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ بشام عظیم دریائے سندھ کے کنارے آباد ہے۔ بشام کے بعد قرارقم کی بلندیاں شروع ہوجاتی ہیں جو مشرق میں دریائے شیوک اور مغرب میں دریائے۔۔۔۔۔اشکومن اور دریائے گلگت میں گھری ہوئی ہے۔ براستہ کے کے ایچ ٹھیک 11 گھنٹے کے بعد چلاس کا علاقہ آتا ہے چلاس سے جگلوٹ کے لیے صرف 2گھنٹے کی مسافت ہے۔ جگلوٹ کے مقام پر تین بڑے پہاڑی سلسلے کوہ قراقرم، کوہ ہندوکش اور کوہ ہمالیہ آپس میں بغلگیر ہوتے ہیں۔ اس لیے اس مقام کو دنیا کے تین عظیم پہاڑی سلسلوں کا سنگم کہا جاتا ہے۔ یہ تین پہاڑی سلسلے دفاعی اعتبار سے وطن عزیز کو اپنی حصار میں لئے ہوئے ہیں۔ مشرق سے مغرب تک پھیلے سلسلے کو کوہ قراقرم کہتے ہیں۔۔۔ہمالیہ اور ہندوکش پاکستان کو چین، افغانستان اور روس سے علیحدہ کرتے ہیں۔ ہمالیہ ملک کی شمالی سرحدوں کے شمال اور مشرق کی طرف پھیلا ہوا قراقرم کے پاس تک جاپہنچتا ہے جب کہ ہندوکش کا سلسلہ قراقرم کے شمال مغرب میں واقع ہے اور اس کی حدود افغانستان سے جاملتی ہے۔

سلسلہ کوہ قراقرم میں دُنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے۔ٹو (2811m) (28250ft) سلسہئ کوہِ ہمایہ میں نانگاپربت (8126m) (26,660ft) المعروف خونی پہاڑ جب کہ رینج آف ہندوکش میں تریچ میر کی چوٹی (7690m) (25,230ft) واقع ہے۔ قراقرم تُرک زبان کا لفظ ہے جس کے معنی سیاہ کے ہیں ہمالیہ سنسکرت لغت میں ”برف کے گھر“ اور ہندوکُش سے مراد ہندوؤں کے قاتل کے ہیں۔ جگلوٹ سے صرف ایک گھنٹے کے فاصلے پر شہر گلگت واقع ہے۔ گلگت کا قدیم نام سارگن تھا بعد میں گلیت (Gileet) اور پھر آہستہ آہستہ گلگت بن گیا۔

قدیم تاریخ میں اس کو بدھ مت کاکی راہداری (Buddhism Corridor) تصور کیا جاتا تھا۔ چین سے کئی راہب (Monk)بدھمت کی تبلیغ کے لیے یہی سے ہوتے ہوئے کشمیر جایا کرتے تھے۔ گلگت میں سیاحوں کے لیے انتہائی قابل دیدنی اور قابل ذکر”کارگا کا بدھا“ ہے۔ یہ گلگت شہر کے شمال میں گلگت شہر سے 6 میل (9.7 km) کے فاصلے پر برمس اور نپورہ نامی بستیوں کے عین اوپر کارگاہ اور شوکاگاہ ندیوں کے سنگم میں واقع ہے۔ یہ ایک کھڑا بدھا کی کھدی ہوئی تصویر ہے جس کی اونچائی پچاس فٹ (15m) ہے۔ تیسری صدی سے لے کر گیارہویں صدی تک گلگت میں بدھمت (Bhuddism) قائم رہا ہے۔ کارگاہ میں بدھا کا مجسمہ کارگاہ پہاڑ پر تنا ہوا ہے۔ آثار قدیمہ کے ماہرین کا خیال ہے کہ یہ مجسمہ آج سے چودہ سو سال پرانا ہے۔

اس مجسمہ کے بارے میں قیاس کیا جاتا ہے کہ بدھا کے مجسمے کی نقش و نگاری کے لیے کارگاہ پہاڑ کے سینے میں کھدائی کا کام ساتویں صدی میں مکمل ہوا ہے۔ کارگاہ بدھا کا مجسمہ 1938 سے 1939 کے درمیان دریافت ہوا ہے۔ مقامی قصے کہانیوں کے مطابق سے یہ خطرناک چڑھیل تھی جو اپنی جسمانی خدوخال اور وضع قطع سے اب بھی چڑیل اور دیونی ہی معلوم ہوتی ہے۔ اس لیے اس کو مقامی زبان میں (Ya-Chani or Yacheni) یاچھنی یا چھینی کہتے ہیں۔ اس کی وہشت اور دہشت کی وجہ سے یہاں کے مقامی باشندے ہمیشہ خوف و ہراس کا شکار رہتے تھے۔ بلآخر کہیں سے کوئی پیر صاحب آیا اور انہوں نے اس کو کیلوں کی مدد سے کارگاہ پہاڑ کے سینے میں ہی ٹانک دیا۔

گلگت بلتستان میں بے شمار سیاحتی مقامات موجود ہیں اور اُن میں سے ہر ایک اتنا خوبصورت ہے کہ کسی ایک کے بارے میں حتمی رائے قائم نہیں کی جاسکتی کہ فلاح کے مقابلے میں حُسن و دلکشی کے اعتبار سے پُرکش ہے۔ ہر تفریحی اور سیاحتی مقام کی خوبصورتی کا انداز جداگانہ ہے۔

گلگت شہر سے ٹھیک گھنٹے کی مسافت پر ہنزل واقع ہے۔ گلگت کے کارگاہ بدھا کی طرح بدھمت دور کی ایک نشانی ہنزل اسٹوپہ (Henzal Stupa) کے نام سے یہاں بھی موجود ہے۔ یوں تو گلگت بلتستان کے پہاڑوں اور چٹانوں میں بے شمار تصویریں کھدی گئی ہیں۔ کے کے ایچ کے پہاڑوں میں ہزاروں کی تعداد میں مخطوطات (Scraptures) اور بدھوں کی پتھر کی نقاشی (Budhist Petrolyphs) موجود ہیں۔ چلاس کے نزدیک ایک پہاڑ پر (Budhisattva مایانا بدھمت میں وہ شخص جو نروان کے درجے پر پہنچ جاتے ہیں) کی پتھر نقش و نگاری انسان کو حیرت زدہ کردیتی ہیں۔ نپورہ کی طرح ہنزل میں بھی بدھمت کے زمانے کی کئی نشانیاں موجود ہیں۔ ہنزل اسٹویہ گلگت کی ماقبل تاریخ (Pre-historic) ورثہ ہے۔ جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہوا ہے کہ چین سے راہب (Monk) تجارت کے لیے کشمیر اور سنٹرل ایشیا آیا کرتے وہ یہاں کے لوگوں کو ریشم بیچنے کے ساتھ ساتھ بدھمت کی بھی تبلیغ کیا کرتے تھے۔ ماقبل تاریخ میں ترکھان خانہ (Tarkhan Dynestry) ہنزل اسٹوپہ کو کمیونکیشن کے طور پر استعمال کرتے تھے اچانک کوئی ہنگامی اعلان مقصود ہوتا تو وہ لوگ اس اسٹوپہ پر چڑھ کر اسٹک پر الاؤ روشن کرکے لوگوں کو ہنگامی صورتحال سے آگاہ کرتے تھے۔

یہ نایاب اور ناور چیزیں اس وقت دنیا کی نظروں سے اوجھل ہیں۔ گلگت بلتستان والوں کی اکثریت بھی اس قسم کی معلومات اور اس طرح کی عوام سے نابلد ہیں۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
76478