Chitral Times

Jul 1, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

شب معراج،باری تعالی سے گفتگو کے چندحوالات……محمدآمین

شیئر کریں:

ٓشب معراج کو اسلامی کیلنڈر میں نمایاں اہمیت و فضلیت حاصل ہے کیونکہ یہ وہ مبارک رات ہے جس میں خاتم الانبیاٗ محمد مصطفی ﷺ رجب 27 کو مکہ مکرمہ سے اللہ سبحانہ تعالی سے ملاقات کے لئے ساتوان آسمان تشر یف لے گیا تھا اور خالق کائینات سے ہم کلام ہوا۔ ََ ٓآمیرالمومنین علی ابن آبی طالب ؑسے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والسلام نے شب معراج کے موقع پر اپنے پروردگار سے ذیل گفتگو فرمائے۔


اے مالک کونسا عمل افضل ہے تو ارشاد قدرت ہوا کہ کوئی چیز میرے نزدیک مجھ پر بھروسہ اور میری تقسیم پر راضی رہنے سے افضل نہیں ہے اے محمد ﷺ میری محبت ان کے لئے ضروری ہے جو ایکدوسرے سے میری وجہ سے محبت کرتے ہیں اور میری محبت واجب ہے ان لوگوں کے لئے جو میرے لیے ایک دوسرے سے محبت و شفقت سے پیش اتے ہیں اور میری محبت ان لوگوں کے لیے لازم ہے جو ایک دوسرے سے صلہ رحمی اور میل جول رکھتے ہیں اور میری محبت لازمی ہے ان کے لیے جو مجھ پر توکل کرتے ہیں۔وہ ایسے لوگ ہیں جو مخلوق کو میری نظر سے دیکھتے ہیں اور وہ اپنی حاجت مخلوق کے پاس نہیں لے جاتے ان کے شکم حرام کھانے سے خفیف ہیں ان کی نعمت دینا میں میرا زکر،میری محبت اور میرا ان سے راضی ہونا ہے۔اے احمد اگر تو چاہتا ہے کہ تمام لوگوں سے زیادہ صاحب درع بنے تو دینا سے پرہیز کر اور اخرت کی طرف رغبت کر۔آپ نے عرض کیا خدایا کس طرح دینا سے پرہیز گار بنوں؟فرمایا دینا میں سے تھوڑا سا کھاناپینا اور لباس لے لو اور کل کے لیے زخیرہ نہ بناو۔مجھے ہمیشہ یاد رکھو عرض کیا پالنے والے کس طرح تجھے یاد رکھوں فرمایا لوگوں سے خلوت کرلو کھٹی مھٹی چیزوں سے بغض رکھو اپنے شکم اور گھر کو دینا سے خالی رکھو۔آپ نے عرض کیا پروردگا ر نجھے کوئی ایسا عمل بتا کہ جیسے میں تیرا قرب حاصل کرسکوں فرمایا اپنی رات کو دن اور دن کو رات بنالے عرض کیا پالنے والے یہ کیسا فرمایا اپنی نیند کی جگہ نماز اور کھانے کی جگہ بھوک کو دے دو۔


اے محمدﷺ میری محبت فقیروں کی محبت ہے پس فقراء سے قریب رہو اور ان کی مجلس اپنے قریب رکھو تو میں تمہارے قریب ہو جاوں گا اور اغیناء کو دور کر و اور ان کی مجلس اپنے سے دور کرو کیونکہ نفس ہر برائی کا پناہ گاہ ہے اور یہ ہر برائی کا ساتھ ہے تو اسے اللہ کی اطاعت کی طرف کھینچے تو وہ تھجے اس کی نافرمانی کی طرف کھینچے گا اللہ کی اطاعت میں وہ تیری مخالفت کرے گا۔جب نفس سیر ہو تو طغیان و سرکشی کرتا ہے اور جب بھوکا ہو تو شکایت کرتا ہے،جب فقیرو محتاج ہو تو غضب ناک ہوتا ہے اور جب غنی و تونگر ہو جائے تو تکبر کرتا ہے جب بڑا ہو جائے تو بھول جاتا ہے اور جب ماموں ہو تو غافل ہوجاتا ہے وہ شیطان کا ساتھی ہے۔رسول خدا نے عرض کیا اہل دیناکوں ہیں اور اہل اخرت کوں؟فرمایا اہل دینا میں سے وہ ہیں جس کا کھانا،ہنسنا،سونا اور غصہ زیادہ ہو کم راضی ہوتا ہو جسے برائی کرے اسے معذرت نہ چاہئے اور جو اس کے سامنے عذر پیش کرے اس کا عذر قبول نہ کرے اطاعت کے وقت سست ہو گناہ کے وقت شجاع اور بہادر ہو اس کی امید طویل ہو اور موت قریب ہو اور اپنے موت کا محاسبہ نہ کرے۔
اور جن چیزوں کی ارزو رکھتے ہیں ان میں گفتگو کرتے ہیں اور لوگوں کی برائیاں بیاں کرتے ہیں اے احمد صلی اللہ علیہ والہ والسلام؛دینا میں جہالت ور حماقت زیادہ ہوتی ہے وہ اپنے اپکو عقلمند سمھجتے ہیں حالانکہ صاحباں معرفت کے نزدیک وہ احمق ہیں بیشک اہل خیر اور اہل اخرت کے چہرے کمزور ہوتے ہیں ان میں حیا و شرم ہوتی ہے اور ان میں حماقت کم ہوتی ہے ان کا فائدہ زیادہ ہوتا ہے ان میں مکرو فریب کم ہوتے ہیں لوگ ان سے ارام و راحت میں ہیں ان کی انکھیں گریہ کناں اور دل ذکر کرنے والے ہیں جب لوگ غافلین میں لکھے جاتے ہیں تو ان کا نام زکر کرنے والوں کی فہرست میں لکھا جاتا ہے وہ نعمت کی ابتداء میں حمد الہی بجالاتے ہیں اور اخر میں شکر کرتے ہیں ان کی دعا بارگاہ الہی میں جاتی ہے ان کی بات سنی جاتی ہے ان سے ملائکہ خوش ہوتے ہیں۔ آپ نے عرض کیا کہ پروردگار ذہد و پرہیز گار لوگ کوں ہیں فرمایا ذہد وہ لوگ ہیں جس کا کوئی گھر نہ ہو کہ جس کے خراب ہونے پر وہ مغموم ہے اور نہ اس کی کوئی اولاد ہو کہ جس کے مرنے پر وہ غمزدہ ہواور نہ کسی چیز کے کم ہونے پر اسے دکھ ہوذاہدون کے چہرے زرد ہوتے ہین رات کی تھکان اور دن کے روزے سے۔اور ان کی زبانین ذکر خدا کرکرکے تھکی ہوئی ہوتی ہین ان کے دل سینون مین زیادہ خاموشی کی وجہ سے لگام دیے گئے ہیں انھیں خود بخود کوشش کرنا عطا کیا گیا ہے نہ جہنم کے خوف سے اور نہ جنت کے شوق میں بلکہ وہ ملکوت اسمان و زمیں کو دیکتھے ہیں لہذا انہیں علم و یقین ہے کہ خداوند عالم ہی عبادت کے لائق ہے۔
احمد مجتبی صلی اللہ علیہ والہ والسلام نے عرض کیا خدایا میں تیری رضاو خوشی کو کیسے نہ چاہوں حالانکہ تو نے میرے عقل کو کمال کیا یہاں تک کہ میں نے تھجے اور حق کو باطل سے اور امر کو نہی سے اور علم کو جہالت سے اور نور کو ظلمت سے پہچانا۔پس ارشاد قدرت ہوتا ہے مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم میں تیرے اور اپنے درمیاں کبھی بھی حجاب نہیں قرار دوں گا میں اپنے دوستوں سے ایسا ہی کرتا ہوں۔ارشاد ہو ا کہ خوشگوار زندگی وہ ہے جو اپنے ساتھی کو میرے ذکر سے سست نہ بنائے اور وہ میرے نعمت کو نہ بھولے اور میرے حق سے جاہل نہ ہو رات دن میری رضا و خوشی کا طالب ہو اور باقی رہی باقی رہنے والی حیات تو ایسی زندگی ہے کہ انسان اپنے نفس کے لیے عمل کرے۔یہاں تک کہ دینا اس کے سامنے زلیل ہوجائے اور اس کی انکھوں میں حقیر معلوم ہو اور اخرت اس کے نزدیک زی عظمت ہو اور وہ میری خواہش کو اپنی خواہش پر ترجیح دے اور میری رضا کو چاہیے اور میری عظمت کے حق کو بزرگ سمجھے۔


اے محمدﷺ : اپنے بدن کو زندہ بنا وہ کبھی بھی غافل نہ رہے اور جو مجھ سے غافل رہے تو مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ وہ کونسی وادی میں ہلاک ہورہا ہے۔اے احمد صلی اللہ علیہ والہ والسلام زائل ہونے سے پہلے اپنی عقل کا استعمال کرلے کیونکہ جو اپنے عقل کو عمل میں لائے نہ وہ خطا کرتا ہے اور نہ سرکشی۔اے محمدﷺ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میں نے تھجے تمام انبیاء پر فضلیت کیوں دی ہے؟حضور صلی اللہ علیہ والہ والسلام نے عرض کیا خدایا برتر نہیں، ا رشاد ہو ا یقین،خوش خلقی،سخاوت نفس اور لوگوں پر رحم کھانے کی وجہ۔اے محمدﷺ جب بندہ کا شکم بھوکا ہو اور وہ اپنی زبان کو روکے رکھے تو میں سے حکمت کی تعلیم دیتا ہوں اب اگر وہ کافر ہے تو وہ حکمت اس کے خلاف حجت و دلیل اور وبان جان ہوجائے گی اور اگر مومن ہے تو حکمت اس کے لئے نور، برہاں،شفا اور رحمت بنے گی پھر وہ ان چیزوں کو جاننے لگ جاتا ہے جنھیں نہیں جانتا تھا۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
33931