Chitral Times

Jul 2, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں گھروں کی تعمیر اور بحالی کے لئے 16 ارب 30 کروڑ ڈالر کی ضرورت ہے جس میں سے 11 ارب ڈالر سندھ میں خرچ ہوں گے، وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار

Posted on
شیئر کریں:

سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں گھروں کی تعمیر اور بحالی کے لئے 16 ارب 30 کروڑ ڈالر کی ضرورت ہے جس میں سے 11 ارب ڈالر سندھ میں خرچ ہوں گے، وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار

اسلام آباد(چترال ٹایمزرپورٹ)وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں گھروں کی تعمیر اور بحالی کے لئے 16 ارب 30 کروڑ ڈالر کی ضرورت ہے جس میں سے 11 ارب ڈالر سندھ میں خرچ ہوں گے، ہم نے میثاق جمہوریت کی طرح میثاق معیشت کی بھی کوشش کی تا کہ ایک روڈ میپ بن جائے جس پر عمل پیرا ہو کر ہم معاشی بہتری کے سفر پر گامزن ہوں۔پیر کو قومی اسمبلی میں پیپلزپارٹی کی خاتون رکن ڈاکٹر نفیسہ شاہ کی جانب سے اٹھائے گئے نکات کا جواب دیتے ہوئے اسحق ڈار نے کہا کہ سندھ سمیت سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ریلیف کے مرحلے میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے 80 ارب روپے تقسیم کئے گئے جبکہ این ڈی ایم اے کے پاس ریلیف کا موجود سامان بھی تقسیم کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ صرف متاثرہ علاقوں میں گھروں اور انفراسٹرکچر کی بحالی کے لئے 16 ارب 30 کروڑ ڈالر درکار ہوں گے، ڈونر کانفرنس میں مختلف ممالک اور اداروں کی جانب سے امداد کے اعلانات کئے گئے ہیں۔

 

وزیر خزانہ نے بتایا کہ جمعے کو اس حوالے سے طویل اجلاس منعقد ہوا جس میں وزیر اعلیٰ سندھ اور پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے سینئر وزرا نے شرکت کی، وزیراعظم کی ہدایت پر میں بھی اس اجلاس میں موجود تھا جس میں کافی حد تک روڈ میپ تشکیل دے دیا گیا ہے، یہ چار سالہ وسط مدتی پروگرام ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں گھروں کی تعمیر کے لئے منصوبہ بندی زیر غور ہے، اس پر گھبرانے کی ضرورت نہیں، اس حوالے سے آج پھر اجلاس بلایا ہے، اس میں اس کو حتمی شکل دے دی جائے گی۔انہوں نے کہا کہ ماضی میں میثاق جمہوریت میں بھی انہوں نے کلیدی کردار ادا کیا، اس کے دو نکات کے علاوہ تمام نکات پر عملدرآمد بھی کیا گیا ہے، ہم نے 2013 سے 2018 کے دوران ملک میں معاشی بہتری کیلئے میثاق معیشت کے لئے بھی کوششیں کیں تاکہ معاشی ترقی کے لئے ایک روڈ میپ بن جائے اور اس میں بغیر کسی تبدیلی کے ہر حکومت عمل کرے اور اس کی گواہ قوم ہو۔انہوں نے کہا کہ اس وقت جو معاشی مسائل ہیں ایسے 1998 میں ایٹمی دھماکوں کے بعد بھی نہیں تھے جب آئی ایم ایف نے اپنا پروگرام بند کر دیا، پاکستان پر اقتصادی پابندیاں عائد کر دی گئیں، اس وقت آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی میں 8 ماہ لگے، ہماری کوششوں سے اب ٹھہراؤ آیا ہے، ہم نے ملک کو ترقی کی جانب لے کر جانا ہے۔

 

 

چیئرمین، ڈپٹی چیئرمین سینیٹ اور اراکین سینیٹ کی تنخواہوں اور مراعات سے متعلق بل کی منظوری سے قومی خزانے پر ایک پیسے کا بوجھ نہیں پڑا، محمد صادق سنجرانی

اسلام آباد(سی ایم لنکس)چیئرمین سینیٹ محمد صادق سنجرانی نے کہا ہے کہ چیئرمین، ڈپٹی چیئرمین سینیٹ اور اراکین سینیٹ کی تنخواہوں اور مراعات سے متعلق بل کی منظوری سے قومی خزانے پر ایک پیسے کا بوجھ نہیں پڑا، صرف قومی اسمبلی اور سینیٹ کے 1975 کے ایکٹ کو الگ الگ کیا گیا ہے، چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کی تنخواہ میں اضافے کے لئے کوئی سمری نہیں بھجوائی گئی۔پیر کو ایوان بالا کے اجلاس میں چیئرمین سینیٹ، ڈپٹی چیئرمین سینیٹ اور اراکین سینیٹ کی تنخواہوں اور مراعات سے متعلق بلوں کی منظوری کے حوالے سے میڈیا میں شائع ہونے والی خبروں پر وضاحت کرتے ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے تین بل منظور کئے گئے تھے، قومی اسمبلی اور سینیٹ کے لئے 1975 کا ایک ایکٹ تھا، اب ان ترامیم سے اس کو الگ الگ کر دیا گیا ہے، اسے میڈیا میں بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا، ان بلوں کی منظوری سے بجٹ میں ایک پیسے کا بھی اضافہ نہیں ہو گا، یہ تنخواہیں اور مراعات سینیٹ کو پہلے سے مل رہی ہیں، میں نے اپنے دفتر میں قومی خزانے سے ایک پیسہ بھی نہیں لگایا۔انہوں نے کہا کہ ان بلوں میں چیئرمین سینیٹ کے دفتر کا خرچہ 6 ہزار روپے سے بڑھا کر 50 ہزار روپے کیا گیا ہے،

 

چیئرمین سینیٹ کے گھر کا کرایہ اڑھائی لاکھ روپے مقرر کیا گیا ہے، چیئرمین سینیٹ کے گھر کی تزئین و آرائش کے لئے 50 ہزار روپے رکھے گئے تھے، ان کو بڑھایا گیا ہے، میڈیا اس حوالے سے سینیٹ سیکرٹریٹ سے معلومات حاصل کر سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چیئرمین سینیٹ کے سفری اخراجات 75 روپے روزانہ سے بڑھا کر پانچ ہزار روپے کر دیئے ہیں، میں نے آج تک ٹی اے ڈی اے کا ایک روپیہ بھی نہیں لیا۔ انہوں نے کہا کہ ڈیلی 1750 سے بڑھا کر 10 ہزار روپے کر دیا ہے تاہم یہ بھی آج تک نہیں لیا، 1975 کے ایکٹ کے تحت چیئرمین سینیٹ اور سپیکر قومی اسمبلی پی آئی اے سے جہاز کرائے پر حاصل کر سکتے تھے، اب یہ پی آئی اے کسی بھی نجی ادارے سے حاصل کیا جا سکتا ہے، ہم نے کوئی نیا جہاز نہیں خریدا اور نہ ہی کسی نے چیئرمین نے کبھی جہاز کرائے پر لیا ہے۔انہوں نے کہا کہ چیئرمین سینیٹ اور دیگر اراکین کو میڈیکل بلوں کی اصل رقم ملے گی، کسی حادثہ کی صورت میں سینیٹرز کے لئے تین لاکھ روپے معاوضہ مقرر کیا گیا تھا اس کو بڑھا کر ایک کروڑ روپے کر دیا گیا ہے، یہ تبدیلیاں قائمہ کمیٹی خزانہ کے ذریعے کی گئی ہیں۔

 

انہوں نے کہا کہ میں نے کسی کو صوابدیدی گرانٹ نہیں دی اور نہ ہی وزارت صوابدیدی گرانٹس جاری کر رہا ہے، 1975 کے ایکٹ میں چیئرمین سینیٹ اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے لئے سکیورٹی مقرر تھی، اب یہ واضح کیا گیا ہے کہ کسی ادارے نے سکیورٹی دینی ہے، سابق چیئرمین اور ڈپٹی چئیرمن سینیٹ اور اراکین کے ساتھ عملہ کی تعیناتی کے حوالے سے معلومات درست نہیں، عملہ کی تعداد کو نہیں بڑھایا گیا۔انہوں نے کہا کہ ارکان پارلیمنٹ کو 10 روپے فی کلومیٹر سفری الاؤنس دیا جا رہا تھا، اس کو دیگر صوبوں کے مساوی کر دیا گیا ہے، پہلے اراکین سینیٹ کو صرف پی آئی اے کے ذریعے سفر پر سفری الاؤنس ملتا تھا، اب وہ پی آئی اے سمیت دیگر نجی کمپنیوں پر لاگو ہو گا۔ چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کو پانچ پانچ لاکھ روپے تنخواہ ملتی ہے، سینیٹر کو ایک لاکھ 60 ہزار روپے تنخواہ ملتی ہے، سینیٹ ملازمین کی تنخواہ سینیٹرز سے زیادہ ہے، ضروری نہیں کہ ہر سینیٹر لکھ پتی ہو، تنخواہوں میں بھی اضافہ ہونا چاہیے۔چیئرمین قائمہ کمیٹی برائے خزانہ سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ اس ایکٹ میں سینیٹرز کے لئے کچھ نہیں ہے، سب کچھ چیئرمین سینیٹ اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کو دیا گیا ہے، ارکان کا بھی خیال رکھنا چاہیے، سینیٹ سیکرٹریٹ سے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کی تنخواہیں بڑھانے کے لئے کوئی سمری وزیراعظم کو نہیں بھجوائی گئی، پہلے سینیٹرز کو تنخواہیں اور مراعات ملیں گی پھر ہم لیں گے، صرف ایکٹ کو الگ الگ کیا ہے کیونکہ اس سے کچھ ابہام پیدا ہو رہے تھے، اب معاملات بالکل واضح ہو گئے ہیں، قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ایکٹ الگ الگ ہونے سے کسی قسم کا آئندہ کوئی مسئلہ نہیں رہے گا اور دونوں ایوان اپنے اپنے ارکان کے حوالے سے آزادانہ طور پر فیصلہ کر سکیں گے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, جنرل خبریںTagged
75831