Chitral Times

Jul 1, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

سیاست بے نقاب ہوچکی…… محمد شریف شکیب

شیئر کریں:


وفاقی حکومت نے ملک کو بحرانوں سے نکالنے اور عوام کا معیار زندگی بہتر بنانے کے لئے اپوزیشن کو ساتھ چلنے کی پیشکش کی ہے سائنس و ٹیکنالوجی کے وفاقی وزیر فواد چوہدری نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اب ہمیں آپس کی لڑائیوں سے آگے نکلنا چاہئے،عوام اب ہمیں آپس میں لڑتا نہیں ملکر کام کرتا دیکھنا چاہتے ہیں،حکومت اور اپوزیشن کو کم سے کم ایجنڈا پر اتفاق کرنا چاہئے،اگلے ایک سال کو اصلاحات کا سال بناناناگزیر ہے اورعدلیہ اور نیب قوانین میں اصلاحات ضروری ہیں سیاست دانوں کی آپس میں تلخ باتیں ہوتی رہتی ہیں،حکومت نے پرانے سیٹھوں اور سرمایہ کاروں پر کافی خرچ کرلیا، اب وقت ہے کہ ہمیں اپنے نوجوانوں پر خرچ کرنا چاہیے، ہم لوگ آج ایوانوں میں بیٹھے ہیں،کل نہیں ہوں گے،ہمارا کام بتائے گا کہ لوگ ہمیں یاد رکھتے ہیں کہ نہیں؟وفاقی وزیرنے قومی ایوان میں جو باتیں کی ہیں وہ پاکستان کے عام شہریوں کے دل کی آواز ہے۔عوام اپنے منتخب نمائندوں کی نورا کشتی سے تنگ آچکے ہیں یہ لوگ ایوانوں میں ایک دوسرے کے خلاف انتہائی نامناسب اور نازیبا الفاظ استعمال کرنے سے بھی نہیں چونکتے مگر اندرون خانہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے ایک ہی صف میں کھڑے ہوجاتے ہیں باریاں لینے کی سیاست اب بے نقاب ہوچکی ہے۔اسمبلیوں، ٹاک شوز اور سیاسی جلسوں میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے والے عوام کے بارے میں کبھی نہیں سوچتے،یہی وجہ ہے کہ لوگوں کا سیاسی نظام سے اعتماد رفتہ رفتہ اٹھتا جارہا ہے۔لوگ عام انتخابات میں اپنا حق رائے دہی استعمال نہیں کرتے، 1988سے لے کر اب تک بعد ملک میں 9مرتبہ عام انتخابات ہوئے ہیں کسی ایک الیکشن میں بھی ٹرن آوٹ 50فیصد نہیں رہا۔جنرل الیکشن میں ٹرن آؤٹ 37سے 42فیصد اور ضمنی انتخابات میں 25سے 30فیصد رہا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ 60سے 70فیصد عوام ملک کے جمہوری نظام اورسیاسی جماعتوں کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں اور اسی وجہ سے وہ رائے دہی کا اپنا قومی فریضہ انجام دینا ضروری نہیں سمجھتے، انہیں یقین ہے کہ ووٹ لینے والی پارٹیاں منتخب ہوکر اپنے مفادات کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہوتی ہیں،اقتدار میں آکر وہ خود کو حاکم اور عوام کو محکوم سمجھتے ہیں،اسمبلیوں میں عوامی مفاد کی کوئی قانون سازی نہیں ہوتی،ہمارے وزراء اور اراکین اسمبلی بچوں کی طرح ایک دوسرے سے لڑتے رہتے ہیں قومی ایوانوں میں منتخب ارکان ایک دوسرے کے خلاف جو زبان استعمال کرتے ہیں اسے سن کر لوگ کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں۔ تلخ کلامیاں اور ہنگامہ آرائی ترقیافتہ ممالک کے ایوانوں میں بھی ہوتی رہتی ہے مگر وہ لوگ ذاتی رنجشیں ایوانوں میں زیربحث نہیں لاتے، عوامی مفادات اور اصولوں کی بنیاد پر لڑائیاں ہوتی ہیں لیکن قومی مفادات کی بات آجائے تو حزب اختلاف اور حزب اقتدار میں بیٹھے لوگ یک زبان ہوجاتے ہیں۔پاکستان کے عوام نے قدامت پسند وں کو بھی آزمایا ور ترقی پسند کہلانے والوں کو بھی اقتدار کی کرسی پر بٹھا کر دیکھا ہے لیکن عوام کے دکھوں کا مداوا نہیں ہوسکا۔تحریک انصاف نئے ایجنڈے کے ساتھ منظر عام پر آنے والی جماعت تھی لوگوں نے آخری چوائس کے طور پر انہیں ووٹ دے کر اقتدار تک پہنچایا ہے اگر اس نے بھی عوام کو مایوس کیا تو پاکستان میں جمہوریت اور سیاسی جماعتوں پر سے عوام کا اعتماد مکمل طور پراٹھ جائے گا۔اس کے بعد جو عوامی ردعمل ہوگا وہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، جماعت اسلامی، تحریک انصاف، جے یو آئی، اے این پی، ایم کیو ایم اور بی
این پی سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے لئے تباہ کن ہوگا۔اگر سیاست دانوں نے اپنی بقاء کا تحفظ کرنا ہے تو انہیں اپنے لچھن بدلنے ہوں گے عوامی مفاد کے لئے مل کر کام کرنا ہوگا، پاکستان آج اپنی تاریخ کے اہم موڑ سے گذر رہا ہے، ہماری مشرقی و مغربی سرحدیں اب بھی غیر محفوظ ہیں دشمن ہمیں سیاسی، سفارتی،معاشرتی اور معاشی طور پرتباہ کرنے پر تلا ہوا ہے۔دہشت گردی کا مکمل طور پر خاتمہ نہیں ہوسکا۔ ملک کی پچاس فیصد آبادی خط غربت سے نیچے کی سطح پر زندگی گذار رہی ہے تعلیم کاروبار بن گیا ہے صحت کی مناسب سہولیات عام آدمی کو میسر نہیں، روزگار کے دروازے ایک ایک کرکے بند ہورہے ہیں مہنگائی کا جن بوتل سے باہر نکل آیا ہے اور غریب آدمی کے لئے ایک وقت کی روٹی کمانا بھی مشکل ہوگیا ہے۔اس مرحلے پر بھی اگر عوام کے منتخب نمائندے ان کے مسائل کا حل تلاش کرنے کے بجائے اپنے مفادات کے لئے مشت و گریبان رہے تو مستقبل میں افراتفری اورطوائف الملوکی کی صورتحال پیدا ہونا خارج ازامکان نہیں ہے اور اس صورت حال کے سیاست دان اور بیوروکریٹ، جج، صحافی اور دانشور سب ذمہ دار ہوں گے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
37232