Chitral Times

Jul 2, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

سیاستدان کی زندگی اور اسکی سیاسی موت….. از قلم: حاجی فرید اللہ خان

Posted on
شیئر کریں:

ووٹ انسان کی ضمیر اور ضمیر کی آواز ہوتی ہے اس لئے ووٹ کا صحیح استعمال حکم خدا وندی ہے ۔ جہاں ووٹ کی غلط استعمال سے منتخب نمائندہ اگر غلط کام کا مرتکب ہو تو ووٹر اس گناہ میں برابر کا شریک ہوتا ہے ۔ سیاست کی ابتداء سیاستدانوں کی شاگردی میں وال چاکنگ اور پوسٹروں کو آویزاں کرنے سے شروع ہوتی ہے اس طرح دس پندرہ سال گزرنے کے بعد اس سیاستدان کا ہر طرح سے امتحان لئنے کے بعد سیاسی قیادت پارٹی ٹکٹ ے نوازتی ہے۔ٹکٹ ملنے کے بعد یوں محسوس کرتا ہے کہ حشر کے میدان میں حساب و کتاب کے بعد اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں مل گیا ۔ خوشی سے محفلیں سجاتے ہیں، گلی کوچوں میں ہر ایک کو دکھاتا پھرتا ہے ، اب ساری قیادت سیاسی امیدوار کو جتوانے میں ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں۔ امیدوار گھر گھر، گلی گلی، محلہ محلہ کے علاوہ وقت اور حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے کبھی مذہبی کارڈ ، کبھی قومیت کارڈ استعمال کرتا ہے اور ووٹروں سے قسم قسم کے وعدے وعید کرتا ہے ۔ کسی کو نوکریوں کا جھانسہ ، کسی کو ٹھیکوں کا لالچ دیتا ہے۔ شب کے دو بجے تک جان کی پرواہ کئے بغیر گلی کوچوں میں پھرتا ہے ۔ راتوں کو نیند حرام اور دن کو سکون حرام اور یہی حال بیچارے ووٹروں کا ہوتا ہے۔ دو تین مہینوں تک پوسٹر لگانا، وال چاکنگ کرنا ، گاڑیوں کے ڈنڈوں پر چڑھ کر نہ سردی کا پرواہ نہ گرمی اور بھوک پیاس کا پرواہ اسی طرح قسم قسم کے مصائب اور اذیتیں جھیلتے ہوئے آخر الیکشن کا امتحان کا دن آتا ہے ۔ بیچارے ووٹر نعرہ بازی کر کر کے تھکتے ہیں اور ووٹوں کی گنتی کے بعد اعلان ہوتا ہے کہ فلاں پارٹی کا ممبر جیت گیا ہے جس پر تمام ووٹر خوشی سے ناچتے ہیں ۔ادھر بڑے بڑے اونر اور ٹھیکیدار صاحبان ممبر صاحب کو گھیر لیتے ہیں ۔ ادھر حکام فوراً سے پہلے اس کی چاہت کا گن مین اور ڈرائیور وغیرہ فراہم کرتے ہیں اب ممبر صا حب کو جان کا خطرہ لاحق ہے لہٰذا غیر متعلقہ لوگوں کو ممبر صاحب سے ملنے سے اجتناب کیا جائے ۔اب مرحلہ حلف برداری کا آتا ہے تو اسی جذبے سے کارکن اپنے ممبر کو جلوس کی شکل میں جلسہ گاہ لے جاتے ہیں اور حلف برداری کے بعد ممبر اور ووٹروں کی دشمنی شروع ہوجاتی ہے۔ممبر صاحب اسمبلی جانے کے بعد اپنی مراعات اور اپنے رشتہ داروں کی نوکریوں اور اپنے ٹھیکیدار ٹیم کو نوازنے کے علاوہ غیر ملکی اور ملک کے اندر دورے کر کے سفر خرچ بٹورنے ، اپنے آبائی گاؤں میں کوٹھی اور اسلام آباد میں پلازہ تعمیر کرنے کے فکر میں غرق ہوتا ہے۔ووٹر بیچارہ مارے مارے ممبر صاحب سے ملاقات کے لئے دفتروں کے چکر لگاتا ہے ۔ کبھی اطلاع ملتی ہے ممبر صاحب میٹنگ میں مصروف ہیں کبھی کہا جاتا ہے کہ صاحب اسلام آباد گئے ہیں دس دن کے بعد آئیگا۔ممبر صاحب جب آتا ہے تو بتایا جاتا ہے کہ ممبر صاحب آج سرکاری ضروری کام میں مصروف ہے اسی طرح مایوسی کے عالم میں واپس لوٹتا ہے اور اپنے آپ کو کوستا ہے ۔ اس طرح اپنی پارٹی کے کارکنوں کا بھی یہی حشر ہوتا ہے۔جس سے ممبر اگلی انتخاب کے لئے عام ووٹروں اور پارٹی کارکنوں کا اعتماد کھو بیٹھتا ہے۔جس سے اس کی ذات کے علاوہ پارٹی کو بھی ناقابل تلافی پہنچتا ہے اور پارٹی بری طرح مارکھاتی ہے۔ممبر کو انتخاب جیتنے سے پہلے کوئی خوف و خطر نہیں تھا ممبر بننے کے بعد اس کو شدید خطرہ لاحق ہوتا ہے ۔ ممبر بے چارہ اب نماز جیسی اہم عبادت کے لئے مسجد بھی نہیں جا سکتا اور شہر کے بازاروں میں بھی خو ف و خطرہ لاحق ہے حالانکہ ممبر کا تعلق عام عوام سے ہے۔عوام سے منتخب ہو کر آتا ہے ، عوام کے ساتھ دکھ درد میں شامل ہونا چاہئے اور ممبر کو اپنے حلقے کے اندر ہر محلے سے دو دو افراد پر مشتمل کوآرڈینیشن کمیٹی تشکیل دیکر مہینے میں ایک دفعہ کوارڈینیشن کمیٹی کا اجلاس منعقد کرا کے عوامی مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا چاہئے۔ممبر کو بغیر سیکورٹی کے عوام کے اندر جانے کی عادت اور صلاحیت پیدا کرنا چاہئے اور عوام کے ساتھ شیر و شکر بن کے رہنا چاہئے کیونکہ یہ گن مین اور پروٹوکول کچھ عرصے کے لئے ہوتی ہے ہمیشہ کے لئے نہیں ۔ ان چیزوں پر عمل نہ کرنے سے سیاستدان اپنی سیاسی موت مرتا ہے اور کبھی بھی کامیابی اس کے قدم نہیں چومتی ہے۔

از قلم: حاجی فرید اللہ خان چیئرمین WCSDOنپورہ بسین گلگت


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
20006