Chitral Times

Jun 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

سیاحتی مقامات کی لیز، فائدہ یا نقصان؟ …..پروفیسرعبدالشکورشاہ

شیئر کریں:


لیز کی تاریخ صدیوں پرانی ہے۔زمانہ قدیم میں سمرائی لوگ اوزاروں،پانی، جانور اور زرعی علاقے لیز پر دیتے تھے۔آرکیالوجی  کے ماہرین نے 2000قبل مسیح لیز پر دی جانے والی چیزیں عور کے شہر سے حاصل کر چکے ہیں۔بیبلون کی تاریخ میں بھی لیز کے قوانین موجود تھے جو بادشاہ ہمورابی نے1700قبل مسیح  میں بنائے تھے۔تاریخی مسودوں کے مطابق قدیم یونان، روم، مصر اور فونیشین کے ہاں لیز کا نظام موجود تھا۔ 1066میں نارمنز اور انگلینڈ کے درمیان لیز ہوئی۔1284میں ویلز سٹیٹس بھی لیز کا شاخسانہ تھیں جس کی 1571میں تشریح کی گئی۔سن 1700میں امریکہ میں چھکڑے تک لیز پر دستیاب ہو تے تھے۔صنعتی انقلاب کی آمد کے ساتھ لیز حقیقی معانی میں پروان چڑھی اور اس کے بعد تو ہر شعبہ لیز پر دیا جانے لگا۔ اگرچہ لیز کا نظام صدیوں سے جاری ہے، تاہم گزشتہ کچھ عشروں سے اس میں تیز ی آئی ہے جس میں خدمات بھی لیز پر دی اور لی جاتی ہیں۔نیلم ویلی کے سیاحتی مقامات کی لیز پر ایک بحث بھی جاری ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کیا نیلم یا کشمیر کے کسی بھی علاقے کے سیاحتی مقامات کو لیز پر دینا علاقے کے لیے مفید ہے یا نہیں۔ دنیا بھر میں لیز کے زریعے معاشی استحکام حاصل کیا جا رہا ہے۔ حتی کے جس فرد کے پاس چند کنال رقبہ موجود ہے وہ اسے لیز پر دے کر ناصرف بھاری رقم حاصل کرکے ترقی کر تا ہے بلکہ کرایہ اور پراپرٹی الگ سے حاصل کرتا ہے۔ لیزپر دیے گئے رقبے پر عارضی یا موبائل جسے پورٹ ایبل تعمیرات بھی کہتے ہیں، اس کے علاوہ بنائی جانے والی ساری پراپرٹی مالک  یا حکومت کی ہوتی ہے۔ لیز ایک کاروباری نظام ہے جس سے ساری دنیا فائدہ اٹھا رہی ہے۔ لیز کی شرائط و ضوابط پر تو بحث ہو سکتی ہے تاہم لیز پر اعتراض غیر منظقی اور غیر عقلی ہے۔ نیلم ویلی کے کل رقبے میں سے ہم صرف 3.7فیصد استعمال کرتے ہیں باقی 96.3فیصد رقبہ بے کار پڑا ہے۔ اگر ہم اس رقبے میں   موزوں رقبہ لیز پر دے دیں گے تو اس میں نیلم کا فائدہ ہے نقصان تو بالکل بھی نہیں ہے۔

جو سیاحتی مقامات لیز کے لیے دیے گئے یا دیے جانے کا امکان ہے وہاں پر ہم مقامی لوگوں نے کونسی تعمیرات کر کے اپنے علاقے یا ملک کوکو ئی فائدہ پہنچایا ہے۔اگر حکومت یہ مقامات لیز پر دیتی ہے تو اس میں ہمارے علاقے کی بہتری ہے۔ اس امر پر بات ہو سکتی ہے کہ لیز سے ملنے والی آمدن اسی علاقے کی ترقی کے لیے استعمال ہو۔ لیز کی شرائط، معاہدے اور دیگر امور کے بارے سوال اٹھانا اور اس کے بارے جاننا ہر کشمیری کا فرض ہے۔نیلم کے سیاحتی مقامات یا کسی دیگر جگہ کو لیز پر دیتے ہوئے مندرجہ ذیل نکات پر توجہ دیناضروری ہے۔ لیز کے ٹینڈر جاری کرنے سے پہلے عوام، متعلقہ نمائندوں اور لیز و سیاحت سے وابستہ افراد سے تجاویز طلب کرے تاکہ بہترین علاقائی مفاد کو ترجیح دی جائے۔لیزپر رقبہ دینے سے پہلے تھرڈ پارٹی سروے کروایا جائے تاکہ اندازہ ہو اس رقبے سے کتنی آمدن متوقع ہے اور پھر وادی کے بہترین فائدے کے لیے فیصلہ کیا جائے۔

اس کے بعد لیز کے لیے ٹینڈر جاری کیے جائیں۔نیلم کے لیے سب سے فائدہ مند فرد یا کمپنی کے ساتھ نیلم کے حق میں شرائط کے ساتھ لیز طے کی جائے۔اگر کوئی مقامی سرمایہ کار شامل ہو تو اسے ترجیح دی جائے۔ یہ بات بھی مدنظر رکھی جائے کے وہ ایڈوانس کتنی رقم یک مشت ادا کرے گا۔لیز کے لیے دی جانے والے رقبے کاماہانہ یا سالانہ کرایہ بھی مقررکیا جاتا ہے۔ یہ کرایہ فکس نہیں ہونا چاہیے بلکہ لیز شدہ جگہ سے ملنے والی آمدن کے حساب سے ہونا چاہیے۔ کرایہ طے کرتے ہوئے یہ بات زیر غور رکھی جائے کے کرایہ فی کینال کے حساب سے طے کرنا ہے یا کل رقبے کے حساب سے۔لیز لینے والے فرد یا کمپنی سے انکم ٹیکس الگ سے لیا جائے۔تمام سرکاری بلز بھی وہی ادا کرے ۔لیز کا دورانیہ یا عرصہ انتہائی اہم پہلو ہے۔لیز کا عرصہ تیس یا چالیس سال سے زیادہ نہ رکھا جائے۔ طے کردہ عرصہ کے بعد لیز معاہدہ کی تجدید کی جائے۔ کمپنیاں لمبے عرصے کی لیز میں دلچسپی رکھتی ہیں اور لیز کی شرائط بوقت معاہدہ کے مطابق ہی چلاتی ہیں جس میں نیلم کا نقصان ہے۔ بہتر صورت یہ ہے کہ لیز کے معاہدے میں ایسی شرائط شامل کی جائیں جن کے زریعے اگر تو لیز لینے والا فر د یا کمپنی اگر فائدہ مند ثابت ہو تو معائدہ دوبارہ سے کیا جا سکتا ہے مگر علاقائی مفاد میں یہی ہے کہ لیز تیس سے چالیس سال بعدختم کر کے یا تو نئی شرائط کے ساتھ لیز دی جائے یالیز کے لیے دوبارہ ٹینڈر جاری کیا جائے۔ لیز پر دیے جانے والے رقبے پر کام کرنے کے لئے مقامی لوگوں کی شرط کو لازمی قرار دیا جائے تاکہ اس سے مقامی لوگوں کو روزگار میسر ہو۔عوامی ہیجان سے بچنے کے لیے لیز کا معائدہ اور شرائط پبلک کی جائیں تا کہ عوام کو پتہ ہو ان کے رقبوں پر کہیں ذاتی نوازشات یا مفادات تو کارفرما نہیں ہیں۔

سیاحتی مقامات کی پارکنگ اور سیاحتی سروسز کے لیے نوے فیصد مقامی لوگوں کو رکھنے کی ضمانت لی جائے۔لیز کا معاہدہ کرتے ہوئے علاقائی زبان و ثقافت، رسم و رواج اور ماحولیاتی تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔ سیاحوں کی آمدورفت کے لیے مقامی کنٹریکٹرز کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کی جائے۔ تعمیرات کس طرز، کی کتنی تعداد میں، کتنے رقبے پر اور کس قسم کی ہوں گی اور یہ تعمیرات حکومت کرے گی یا لیز لینے والافر د یا کمپنی کرے گی۔ لیز میں یہ بات بھی شامل ہوتی ہے کہ لیز ختم ہونے پر عارضی یا پورٹ ایبل تعمیرات کے علاوہ تمام تعمیرات مالک یا حکومت کی ملکیت ہوتی ہیں۔ ہماری حکومت ان تعمیرات کو بھی ٹینڈر کے زریعے مقامی افراد پر نیلام کر سکتی۔لیز میں یہ بات بھی شامل کی جائے کے لیزشدہ جگہ پر کس قسم کی اور کس حد تک وہ تبدیلی کا حقدار ہو گا۔ ایسا نہ ہو کہ اگلی لیز تک وہ جگہ دوبارہ لیز کے قابل ہی نہ رہے۔ اگر خلاف معائدہ کوئی بھی تعمیر یا توسیع ہو گی تو وہ سرکار یا تو ضبط کر لے گی یا اس کا مارکیٹ کے مطابق کرایہ طے کر نے کے ساتھ ساتھ خلاف ورزی پر جرمانہ کرے گی یا معائدہ کی شرائط میں تبدیلی کا اختیار رکھا جائے۔ علاقے کی بیواوں،معذور وں، یتیموں اور طلبہ کا داخلہ فری قرار دیا جائے۔ نیلم ویلی لائن آف کنٹرول کے ساتھ ساتھ واقع ہے۔ لہذا جنگی صورتحال میں حکومت کسی قسم کی انشورنس وغیرہ کی ضمانت دے کر عوامی ٹیکسوں کو ضائع نہ کرے۔ لیز پر لیا گیا رقبہ آگے ٹھیکے پر نہ دیے جانے کو یقینی بنایا جائے کیونکہ یہ عمل نہ صرف علاقے کے لیے مسائل پیدا کرے گا بلکہ سیاحوں کو بھی متاثر کرے گا۔ حکومت ایسی کوئی شرط لیز میں شامل نہ کرے جس سے عوام کے ٹیکسوں کے پیسوں کا ضیائع ہو اور بجائے فائدے کے نقصان اٹھانا پڑے۔

معاہد ہ ختم کرنے کی شرائط واضع اور عام فہم ہوں تاکہ ایک عام آدمی بھی اپنے علاقے کے فائدے کو سمجھ سکے۔حکومت لیز کا معائدہ ملک کی اعلی عدالتوں سے منظور کروا کر اسے حتمی شکل دے تاکہ عوامی ٹیکسوں کے نقصان بچا جاسکے۔مقامی شکایات کی صورت میں کیا حکمت عملی ہو گی یہ بھی معائدے کی شرئط میں درج ہو ناچاہیے۔ایسا نہ ہو ہمارے رقبے پر ہم پر حکمرانی شروع ہو جائے۔ لیز شدہ جگہ پر حکومت کا رول کیا ہو گا اور کون کون سے چیزیں حکومت کے کنٹرول میں ہوں گی۔ کنٹرول لائن سے متصل ہونے کی وجہ سے ہمیں اپنی ملکی، مذہبی، ثقافتی، نظریاتی اور  ریاستی سالمیت کو اولین ترجیح دینی ہے۔ ہم معاشی فائدے کے لیے متذکرہ بالا میں سے کسی ایک بھی نقطے پر سمجھوتہ نہیں کر سکتے۔ ہمیں ہمیشہ اپنے ملک اور علاقے کی ترقی کو مدنظر رکھتے ہوئے اقدامات کرنے چاہیے۔ ہمیں مزید سیاحتی مقامات لیز پر دینے کے ساتھ ساتھ سابقہ ادوار میں لیز پر دیے جانے والے معائدوں پر بھی نظر ثانی کرنی چاہیے۔علاقے کی بہتر اور ترقی کے لیے اٹھائے جانے والے ہر قدم کے ساتھ عوامی حمایت یقینی ہوتی ہے اور علاقے کے مفادات کو پس پشت ڈال کر ذاتی مفادات یا نوازشات کی صورت میں صورتحال یکسر مختلف ہو جاتی۔ کیونکہ اب نیلم ویلی اسی یا نوے کی دہائی کا نیلم نہیں ہے۔موجودہ نیلم ایک پڑھا لکھا، باشعوراور اپنے علاقے کے مفادات اور نقصانات سے پوری طرح آگاہ ہے۔ ہمیں اس بات سے باخبر ہونا چاہیے کہ حکومت ہر کام نہیں کر سکتی، پوری دنیا میں پرائیویٹ سیکٹر سے پارٹنرشپ کر کے ملکی ترقی میں کردار ادا کیا جا رہا ہے۔ اگر ہم لیز نہیں کرتے تو ہمیں ان سیاحتی مقامات کا کیا فائدہ ہے۔

اب ہم نے بیک کے نظریے کو سیاحت کے نطریے میں بدلنا ہو گا تبھی ہم ترقی کر پائیں گے۔لیز کا ہر گز مطلب علاقہ یا رقبہ فروخت کر نا نہیں ہے۔ ہم لیز کی مخالفت میں سوشل میڈیا پر ایسے بمباری کر رہے جیسے نیلم کے متوقع لیز شدہ علاقے فروخت کیے جا رہے ہیں۔ خدا راہ ذاتی مفادات کے لیے علاقائی اور اجتماعی مفادات قربان ہر گز نہ کریں۔ سیاست کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم سیاست اور نمبر گیم کے چکر میں یا پانچھ سال سوئے رہ کر اب ہم ایک درخواست پر اپوزیشن کرنی شروع کر دیں گے۔ نیلم کے لوگ اتنے بھی اجڈ اور بیوقوف نہیں ہیں جتنا چند نام نہاد لوگ سمجھ رہے ہیں۔ پھر بھی اگر اپوزیشن جو آج تک سوئی ہوئی ہے اور محض فاتحہ خوانی کی سیاست تک محدود ہے وہ نوجوانوں کو استعمال کرنے کے بجائے پارٹی کی اعلی قیادت میدان میں اترے اور نیلم ویلی کے حقوق کی جنگ لڑے پوری وادی ساتھ کھڑی نظر آئے گی۔ مگریہ بات انتہائی افسوسناک ہے کہ ہم اپنی کرسی کے لیے نیلم کے نوجوانوں کودفتر میں ملاقات کر کے، کسی صحافی سے کہہ کر خبر لگوانے کی ڈیوٹی سونپ کر، اپنے ساتھ سیلفی بنا کر،گالوں پر ہاتھ پھیر کر یا کوئی چھوٹا موٹا عہدہ دے کر استعمال کریں۔ جلد یا بدیر یہ حربے ناکام ثابت ہوں گے۔ نوجوانوں کے کندھوں پر رکھ کر بندوق نہ چلائی جائے اور نوجوانوں سے بھی گزارش ہے وہ دوسروں کا آلہ کار بننے کے بجائے نیلم کے حقوق کے لیے جدوجہد کریں۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
37847