Chitral Times

Jun 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

سہارے کی انگلی – تحریر : اقبال حیات اف برغذی

شیئر کریں:

شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بچپن میں ایک دفعہ اپنے والد صاحب کی انگلی پکڑ کر ان کے ساتھ کہیں جارہا تھا۔راستے میں میں ایک جگہ ایک شخص بند ر کونچا رہا تھا۔بڑی تعداد میں لوگ تماشہ دیکھ رہے تھے۔ میرے والد صاحب وہاں پر کھڑے اپنے ایک شناسا سے محو گفتگو ہوئے تو میں ان کی انگلی چھوڑ کر تماشائیوں میں گھس گیا۔ کچھ عرصہ بعد تماشے سے لطف اندوز ہوکر جب باہر نکلا تو والد صاحب کو موجود نہ پاکر زارو قطار رونے لگا۔ اسی دوران وہ مجھے ڈھونڈتے ہوئے مجھ تک پہنچے اور ڈانٹتے ہوئے کہا کہ “نادان لڑکا اگر بڑوں کی انگلی چھوڑ کر زندگی گزاروگے تو زندگی بھر رونے سے واسطہ پڑے گا”۔

یہ چند الفاظ اپنی نوعیت کے لحاظ سے پتھر پر لکیر کی حیثیت رکھتے ہیں ۔کیونکہ عمر کے لحاظ سے بڑے اور خصوصاً والدین زندگی کے سفر میں تجربات کی بنیاد پر اولاد کے لئے مشعل راہ کا کردار ادا کرسکتے ہیں ۔ اور ساتھ ساتھ ان کی خیر خواہی زار راہ کی حیثیت کا حامل ہوگی۔ البتہ نافرمانی کی صورت میں اس کے منفی اثرات سے واسطہ پڑنا یقینی امر ہے۔ اولاد اگر گھر کے بڑوں اور خصوصاً والدین کی رہنمائی کے سائے میں پلنے کو اپنا شعار بنائیں گے۔ تو زندگی کے کسی مرحلے پر بھی ٹھوکر کھانے یا ناکافی کا منہ دیکھنے سے دوچار  نہ ہونگے۔ اور اس کے برعکس ہٹ دھرمی کی بنیاد پر زندگی کے امور سے متعلق فیصلے کرنے کی صورت میں پچھتاوے کا شکار ہوکر زندگی کی لذتوں سے محرومی سے واسطہ پڑنے کے بارے میں دورائے نہیں ہوسکتی ۔

بھلا جنہوں نے انگلی پکڑ کر سفرحیات میں قدم رکھنے کے ڈھنگ سکھائے ہوں اور ٹھوکر کھا کر منہ کے بل گرنے سے بچنے کے اسلوب بتائے ہوں وہ کیسے اپنی اولاد کی زندگی کے معاملات کے سلسلے میں بدخواہی کرسکتے ہیں۔ بدقسمتی سے آج سوشل میڈیا نے رشتوں ،ناطوں کی عزت وتوقیر کو ملیا میٹ کرکے رکھ دی ہے۔ مجموعی طور پر پوری معاشرتی زندگی چاہے کوئی خاندانی ،علمی اور منصبی حیثیت کے حامل کیوں نہ ہوں والدین اور گھر کے بڑوں کی آراء سے بے نیاز من چاہے زندگی اپنانے کو اپنا حق تصور کرتے ہیں ۔خصوصا شریک حیات کے انتخاب میں کسی کی مداخلت کو برداشت تک نہیں کرتے۔ اور بسا اوقات اس سلسلے میں حالات خودکشی پر منتج ہوتے ہیں۔

اخلاق،شرافت ،شرم وحیا اور دینداری کی کسوٹی میں پرکھے بغیر چہرے پر ملے رنگ وروغن کے دھوکے میں آکر جو فیصلے کرتے ہیں ۔ اس کے منفی اثرات کا خمیازہ پوری زندگی بھگتنا پڑتا ہے۔ کیونکہ اس حقیقت سے انکار کی گنجائش نہیں کہ والدین کے سامنے اُف  تک نہ کہنے کی حکم عدولی اور زندگی کے معاملات باہمی مشاورت کے ساتھ نمٹانے کے قرآنی ہدایات سے روگردانی کی بنیاد پر کئے جانے والے  فیصلوں کا برکات سے خالی ہونا ایک مسلمہ حقیقت ہے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامین
52519