Chitral Times

Jul 3, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

سپریم کورٹ کا حکومت کو الیکشن کیلیے 27 اپریل تک فنڈز دینے کا حکم

Posted on
شیئر کریں:

سپریم کورٹ کا حکومت کو الیکشن کیلیے 27 اپریل تک فنڈز دینے کا حکم

اسلام آباد(چترال ٹایمزرپورٹ)سپریم کورٹ نے وزارت دفاع کی ملک بھر میں ایک ساتھ الیکشن کروانے کی درخواست ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے حکومت کو 27 اپریل تک فنڈز جاری کرنے کا حکم دے دیا۔سپریم کورٹ نے اپنے حکم نامے میں کہا ہے کہ درخواست گزار کے وکیل نے پر امن، منصفانہ اور شفاف انتخابات پر زور دیا، درخواست گزار کے مطابق عام انتخابات میں شرکت کرنے والی سیاسی جماعتوں کے درمیان باہمی احترام اور مفاہمت ہونی چاہیے۔درخواست گزار کے مطابق 1970,1977 کے انتخابات کے برعکس ایک وقت انتخابات ہونے کے زیادہ بہتر نتائج نکلے۔ حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ بادی النظرمیں درخواست گزار کا موقف مناسب ہے۔عدالت نے مزید کہا کہ سیاسی مذاکرات کو عدالت کے 14 مئی کے حکم سے بچنے کا ذریعہ نہیں بنایا جا سکتا، ہم درخواست گزار کی کاوشوں کو سراہتے ہیں۔سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن اور وزارت دفاع کی انتخابات اکتوبر میں کروانے کو ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے کہا کہ 14مئی کو انتخابات کروانے کا حکم حتمی ہو چکا، قومی اسمبلی سے انتخابات کے لیے رقم کے بل کے مسترد ہونے کے سنگین آئینی نتائج ہیں، بل مسترد ہونے کا ایک ممکنہ اثر یہ ہے کہ حکومت پارلیمان میں اپنی اکثریت کھو چکی ہے۔سپریم کورٹ کے حکم نامے میں مزید کہا گیا ہے کہ اکثریت کھونے کے ممکنات کو اٹارنی جنرل نے یکسر مسترد کردیا ہے۔

 

 

اٹارنی جنرل کے مطابق وزیر اعظم اور کابینہ پر پارلیمان کی اکثریت کا اعتماد ہے۔سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ عدالتی حکم عدولی اور اس سے انحراف کے سنگین نتائج ہیں، اٹارنی جنرل عدالتی حکم عدولی کے نتائج بارے حکومت کو بتائیں تاکہ اس کا تدارک ہو سکے۔سپیریم کورٹ نے اپنے حکم نامے میں کہا کہ وزارت دفاع کی درخواست ناقابل سماعت ہونے کی بنا پر نمٹائی جا رہی ہے۔حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ سیاسی مذاکرات کو عدالت کے 14 مئی کے حکم سے بچنے کا ذریعہ نہیں بنایا جا سکتا، ہم درخواست گزار کی کاوشوں کو سراہتے ہیں، 14مئی کو انتخابات کروانے کا حکم حتمی ہو چکا، جمہوریت اسمبلی میں اکثریت کا اعتماد ہے، انتخابات بل کے مسترد ہونے کے سنجیدہ نتائج ہیں، آئین کے مطابق وزیر اعظم کو اسمبلی میں اکثریت کا اعتماد لازم ہے، قومی اسمبلی سے رقم کے بل کے مسترد ہونے کے سنگین آئینی نتائج ہیں۔حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ بل مسترد ہونے کا ایک ممکنہ اثر یہ ہے کہ حکومت پارلیمان میں اپنی اکثریت کھو چکی ہے، اکثریت کھونے کے ممکنات کو اٹارنی جنرل نے یکسر مسترد کردیا، اٹارنی جنرل کے مطابق وزیر اعظم اور کابینہ پر پارلیمان کی اکثریت کا اعتماد ہے۔ ڈیماندڈ مسترد ہونے کی صورت حال کو جلد تبدیل کیا جا سکتا ہے جبکہ عدالتی حکم عدولی اور اس سے انحراف کے سنگین نتائج ہوسکتے ہیں۔

 

 

سپریم کورٹ نے اپنے حکم نامے میں لکھا کہ اٹارنی جنرل عدالتی حکم عدولی کے نتائج بارے حکومت کو بتائیں تاکہ اس کا تدارک ہو سکے۔واضح رہے کہ 18 اپریل کو وزارت دفاع نے سپریم کورٹ سے پنجاب میں الیکشن کا حکم واپس لینے اور ملک بھر میں ایک ساتھ الیکشن کرانے کی استدعا کی تھی۔وزارت دفاع نے اپنی درخواست میں مؤقف اختیار کیا تھا کہ دہشتگردوں اور شرپسندوں کی جانب سے انتخابی مہم پر حملوں کا خدشہ ہے، قومی،بلوچستان اور سندھ اسمبلیوں کی مدت پوری ہونے پر ہی انتخابات کرائے جائیں۔وزارت دفاع نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ انتخابات کیلیے 3 لاکھ 85 ہزار سے زائد آرمڈ فورس اور رینجرز کے جوانوں کی خدمات درکار ہوں گی، سیاسی حالات کے پیش نظر اضافی نفری کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ موجودہ صورت حال کی روشنی میں پولیس سیکیورٹی انتظامات کیلیے ناکافی ہوگی جبکہ کے پی اور بلوچستان میں جاری آپریشنز کی وجہ سے جوانوں کو فوری ہٹانا ممکن نہیں ہے، ان دونوں صوبوں میں آپریشنز کی وجہ سے ہی پنجاب اور سندھ کی صورت حال بہتر ہے اگر جوانوں کو ہٹایا گیا تو پنجاب اور سندھ میں امن و امان کی صورت حال خراب ہوجائے گی۔

 

رپورٹ میں بتایا گیا کہ اکتوبر کے آغاز تک سیکیورٹی فورسز دستیاب ہوں گی۔اس سے قبل الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کو فنڈ نہ ملنے سمیت ساری صورت حال سے آگاہ کرتے ہوئے رپورٹ سپریم کورٹ رجسٹرار کو جمع کرادی تھی جبکہ اسٹیٹ بینک نے بھی اپنی رپورٹ جمع کرائی تھی جس میں الیکشن کمیشن کو رقم منتقل نہ کرنے کی وجوہات بیان کی گئی تھیں۔اسٹیٹ بینک نے سپریم کورٹ رجسٹرار میں جمع کرائے گئے جواب میں کہا تھا کہ حکومت نے پارلیمنٹ ایکٹ کے تحت اسٹیٹ بینک کو فنڈ کے اجرا سے روکا ہے۔ علاوہ ازیں وزارت خزانہ نے بھی اپنی رپورٹ اٹارنی جنرل آفس کے ذریعے جمع کرائی تھی جس میں وفاقی کابینہ کے فیصلے اور پارلیمان کو معاملہ بھجوانے کی تفصیلات شامل تھیں۔وزارت خزانہ کی رپورٹ میں عدالتی حکم پر اسٹیٹ بینک کو فراہم کردہ معاونت کے بارے میں بھی آگاہ کیا گیا تھا جبکہ فنڈز منتقلی پر قانونی پہلوؤں کو بھی اجاگر کیا گیا تھا۔

 

 

جولائی میں ملک بھر میں انتخابات ہو سکتے ہیں، چیف جسٹس

اسلام آباد(سی ایم لنکس)چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ جولائی میں ملک بھر میں انتخابات ہو سکتے ہیں پنجاب میں فصلوں کی کٹائی اور حج کے بعد انتخابات کی تاریخ رکھ لیں۔ سپریم کورٹ میں ملک بھر میں بیک وقت عام انتخابات سے متعلق درخواست کی سماعت دوسرے روز بھی جاری ہے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ سماعت کر رہا ہے اور عدالت نے سماعت میں آج شام چار بجے تک وقفہ کیا ہے۔ اب تک کی سماعت میں ملک کی سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے عدالت میں پیش ہوکر اپنا موقف پیش کیا۔ اس کے علاوہ اٹارنی جنرل عثمان انور، درخواست گزار کے وکیل شاہ خاور اور سیاسی جماعتوں کے وکلا بھی پیش ہوئے۔سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے رولنگ دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے واضح کر دیا کہ پنجاب میں انتخابات کی تاریخ 14 مئی ہے۔ عدالتی فیصلے کو اگنور نہیں کیا جاسکتا۔ عدالتی فیصلہ واپس لینا مذاق نہیں ہے۔

 

عدالت اپنا 14 مئی کا فیصلہ واپس نہیں لے گی۔ عدالتی فیصلے ہٹانے کا طریقہ کار ہے وہ 30 دن بھی گزر گئے۔ کسی نے عدالتی فیصلہ چیلنج نہیں کیا۔ آج کسی سیاسی لیڈر نے فیصلے کو غلط نہیں کہا اور اور یقین ہے کوئی رکن اسمبلی عدالتی فیصلے کے خلاف نہیں جانا چاہتا۔چیف جسٹس نے سیاسی جماعتوں کو آج شام 4 بجے تک سیاسی جماعتوں کو انتخابات سے متعلق مشاورت کر کے عدالت کو آگاہ کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ 4 بجے دوبارہ کیس کی سماعت کریں گے۔ مشاورت کرکے چار بجے تک عدالت کو آگاہ کریں۔چیف جسٹس نے کہا کہ ایک تجویز ہے کہ عدالت کارروائی آج ختم کر دے۔ تمام سیاسی قائدین نے آج آئین کی پاسداری کا اعادہ کیا ہے۔ آئین پر نہیں چلیں گے تو کئی موڑ آجائیں گے۔ آئین کے آرٹیکل 254 کی تشریح کبھی نہیں کی گئی۔ آرٹیکل 254 کے تحت تاریخ نہ بڑھائی جائے اس لیے اسکی تشریح نہیں کی گئی۔ 1970 اور 1971 کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے غلط فیصلہ کیا جس پر عدالت نے حکم جاری کیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت آئین اور قانون کی پابند ہے۔ سراج الحق، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے کوشش کی ہے، بعد میں پی ٹی آئی نے بھی ایک ساتھ انتخابات کی بات کی ہے۔ اسمبلی میں ان کیمرہ بریفنگ دی گئی لیکن عدالت فیصلہ دے چکی تھی۔ حکومت کی شاید سیاسی ترجیح کوئی اور تھی لیکن یاد رکھنا چاہییکہ عدالتی فیصلہ موجود ہے۔

 

انہوں نے مزید کہا کہ مذاکرات میں ہٹ دھرمی نہیں ہو سکتی۔ دو طرفہ لین دین سے مذاکرات کامیاب ہو سکتے ہیں۔ بلاول بھٹو نے اچھی کوشش کی ہے لیکن گزارش ہو گی پارٹی سربراہان عید کے بعد نہیں آج بیٹھیں۔ جولائی میں بڑی عید ہوگی اس کے بعد الیکشن ہو سکتے ہیں اور عید کے بعد انتخابات کی تجویز سراج الحق کی ہے۔جس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ عید کے دوران بھی مولانا فضل الرحمان سے بات کریں گے۔اس سے قبل آج صبح جب چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے قرآن پاک کی تلاوت سے سماعت کا دوبارہ آغاز کیا اور کہا کہ مولا کریم ہمیں نیک لوگوں میں شامل کردیں اور پچھلے ہمیں اچھے الفاظ میں یاد کریں۔چیف جسٹس نے کہا کہ سراج الحق کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں انہوں نے اچھا اور نیک کام شروع کیا۔ ہم اس کام میں آپ کے لیے دعاگو ہیں کہ کامیاب ہوں اور توقع ہے مولانا فضل الرحمان بھی لچک دکھائیں گے۔وزارت داخلہ کے وکیل شاہ خاور ایڈووکیٹ نے عدالت میں دلائل پیش کرتے ہوئے کہا کہ جمہوریت کی مضبوطی کیلیے ضروری ہے الیکشن ایک ہی دن ہوں۔ بیشتر سیاسی جماعتوں کی قیادت عدالت میں موجود ہے۔ مناسب ہو گا عدالت تمام قائدین کو سن لے۔

 

چیف جسٹس نے کہا کہ صف اول کی سیاسی قیادت کا عدالت آنا اعزاز ہے جس پر میں ان کا مشکور ہوں۔ قوم میں اس وقت اضطراب ہے، قیادت یہ مسئلہ حل کرے تو سکون ہو جائے گا۔ کیونکہ عدالت حکم دے تو پیچیدگیاں بنتی ہیں سیاسی قائدین افہام وتفہیم سے مسئلہ حل کرے تو برکت ہوگی۔چیف جسٹس نے کہا کہ وزارت دفاع کی بھی یہی استدعا ہے کہ الیکشن ایک دن میں ہوں۔ درخواست گزار بھی یہی کہہ رہا ہے کہ ایک ساتھ الیکشن ہوں، اٹارنی جنرل نے یہ نکتہ اٹھایا لیکن سیاست کی نذرہوگیا۔ فاروق ایچ نائیک بھی چاہتے تھے لیکن بائیکاٹ ہوگیا۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق پیپلز پارٹی کے قائد بھی مذاکرات کو سراہتے ہیں۔ ن لیگ نے بھی مذاکرات کی تجویز کو سراہا ہے۔

 

اس موقع پر پیپلز پارٹی کی جانب سے وکیل فاروق ایچ نائیک عدالت میں پیش ہوئے اور دلائل دیتے ہوئے کہا کہ حکومتی سیاسی اتحاد کا مشترکہ مؤقف ہے کہ 90 دن میں انتخابات کا وقت گزر چکا ہے۔ عدالت دو مرتبہ 90 دن سے تاریخ آگے بڑھا چکی ہے۔ سیاسی جماعتیں پہلے ہی ایک ساتھ انتخابات پر کام شروع کرچکی ہیں۔ بلاول بھٹو نے اسی سلسلے میں مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کی ہے اور عید کے فوری بعد سیاسی ڈائیلاگ حکومتی اتحاد کے اندر مکمل کرینگے۔پیپلز پارٹی کے وکیل نے کہا کہ پی ٹی آئی سے پھر مذاکرات کرینگے تاکہ ہیجانی کیفیت کا خاتمہ ہو۔ کوشش ہوگی کہ ان ڈائیلاگ سے سیاسی اتفاق رائے پیدا ہو۔ الیکشن ایک ہی دن اور جتنی جلدی ممکن ہو ہونے چاہئیں۔ ملک بھر میں نگراں حکومتوں کے ذریعے انتخابات ہونے چاہئیں جب کہ سیاسی معاملات پارٹیوں کے درمیان طے ہونے چاہئیں۔ سیاسی معاملے میں کسی ادارے کو مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔فاروق نائیک ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ آج پارٹی ٹکٹ جمع کروانے کا آخری دن ہے۔ عدالتی حکم کے بعد الیکشن کمیشن تاریخ نہیں بڑھا سکتا۔ پارٹی ٹکٹ کے لیے وقت میں اضافہ کریں۔چیف جسٹس نے کہا کہ 13 دن کی تاخیر ہوئی تب عدالت نے حکم دیا۔ الیکشن


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, جنرل خبریںTagged
73711