Chitral Times

Jul 4, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

سوشل میڈیا کا منفی استعمال – محمد شریف شکیب

Posted on
شیئر کریں:

سوشل میڈیا کا منفی استعمال – محمد شریف شکیب

انفارمیشن ٹیکنالوجی نے گذشتہ دو عشروں میں حیرت انگیز ترقی کی ہے انٹرنیٹ، سکائپ، فیس بک، انسٹا گرام ، ٹویٹر اور سوشل میڈیا کے دیگر ذرائع نے فی الواقع دنیا کو گلوبل ویلج میں تبدیل کردیا ہے۔ اس ترقی نے انسان کی زندگی میں بہت سی سہولتیں پیدا کی ہیں تاہم اس کے منفی استعمال نے معاشرے پر کافی برے اثرات بھی مرتب کئے ہیں۔ کچھ لوگ تو اس صورتحال کو پبلک ہیلتھ ایمرجنسی قرار دیتے ہیں۔سوشل میڈیا کے مسلسل استعمال سے نوجوانوں کی بڑی تعداد ذہنی دباؤ، اداسی اور ہیجانی کیفیت سے دوچار ہو رہی ہے ایک تحقیق کے مطابق پانچ میں سے تین نوعمر بچوں میں موبائل کے متواتر استعمال کی وجہ سے مسلسل اداسی یا مایوسی کی کیفیت کی شکایت نوٹ کی گئی ہے جو دس سال پہلے کے مقابلے میں تقریباً 60 فیصد زیادہ ہے۔

 

لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں میں موبائل کےاستعمال کی شرح بڑھ رہی ہے۔ذہنی دباو اور ڈپریشن کی وجہ سے نوجوانوں کی بڑی تعداد نے نادانستہ اور دانستہ خود کشی پرسنجیدگی سے غور شروع کر دیا ہے ماہرین صحت خودکشی کے رجحانات کے پیچھے جہاں ذہنی دباؤ، منشیات کے استعمال کے ساتھ کچھ دیگر مسائل کی طرف توجہ دلاتے ہیں وہیں وہ ان نوعمر نوجوانوں بالخصوص لڑکیوں کی زندگی میں اس مسئلے کا ذمہ دار سوشل نیٹ ورکس کے کردار کو بھی قرار دیتے ہیں۔ماہرین نے نوعمر نوجوانوں ذہنی دباو کے پیچھے حیاتیاتی، سماجی اور ثقافتی وجوہات کو بھی کارفرما قرار دیا ہے۔ذہنی صحت کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈپریشن سےدماغ کے اس حصے میں بھی تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں جسے ’ڈیفالٹ نیورل نیٹ ورک‘ کہا جاتا ہے۔جو ہمارے اس احساس سے وابستہ ہے کہ ہم دنیا میں کون ہیں۔کیا ہم اچھے انسان ہیں؟کیا ہمارے پاس مواقع ہیں؟کیا ہم اپنے آپ پر یقین رکھتے ہیں؟ کیا ہم ناامیدی یا اداسی محسوس کرتے ہیں؟

 

ایک پرانی کہاوت ہے کہ جب نوجوان تناؤ سے مغلوب ہوتے ہیں، تو وہ اپنے آپ کو ہی اس صورتحال کا ذمہ دار قرار دیتے ہیںوہ خود پر ناامیدی اور شرمندگی کا احساس طاری کر لیتے ہیں۔ جبکہ زیادہ تر ڈپریشن کا شکار نوجوان بدتمیزی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔زرا زرا سی بات پر مشتعل ہوجاتے ہیں کبھی دوسروں کو مارنے پرتل جاتے ہیں اور کبھی خود کو کوستے ہیں۔جونوجوان اپنا زیادہ تر وقت آن لائن گزارتے ہیں، ان کے افسردہ، فکر مند، ناامیداور مسلسل اداس ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔سوشل میڈیا کے مسلسل استعمال نے ہماری روایات اور خاندانی نظام کو بھی متاثر کیا ہے۔دسترخوان پر کھانا کھاتے ہوئے بھی لوگ موبائل پر سکرولنگ اور چیٹنگ کر رہے ہوتےہیں۔ میاں بیوی اور بچے ہر وقت اپنے اپنے موبائل میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ خاندان کے افراد کامل بیٹھ کر گفتگو کرنا، آپس میں صلاح مشورہ کرنا اور کسی پیچیدہ معاملے پر بزرگوں کی رائے معلوم کرنے کی روایت معدوم ہوچکی ہے۔انعامات کے لالچ اور سیلفیوں کےشوق میں نوجوان اپنی زندگیوں کوبھی خطرے میں ڈالنے سے گریز نہیں کرتے۔رہی سہی کسر موبائل کمپنیوں نےنائٹ پیکج متعارف کرکے پوری کردی ہے۔

 

نوجوان ساری ساری رات کانوں میں ہینڈ فری لگاکر گپ شپ میں مگن رہتے ہیں انہیں اپنے گردوپیش کی کوئی خبر نہیں ہوتی۔اکثر نوجوان راہ چلتے بھی موبائل کے ساتھ لگے رہتے ہیں جس کی وجہ سے وہ حادثات کا شکار ہورہے ہیں۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ موبائل آج ہر شخص کی ناگزیر ضرورت بن گئی ہے۔ اس کے مثبت استعمال سے بے شمار فوائد حاصل کئے جاسکتے ہیں۔تاہم یہ ضرورت ہماری تہذیب، اقدار، روایات اور معمولات زندگی سے زیادہ اہم نہیں، والدین اپنے چھوٹے بچوں سے جان چھڑانے کے لئے انہیں موبائل پکڑا دیتے ہیں اور وہ گھنٹوں موبائل پر گیم کھیلنے، ٹک ٹاک ، کارٹوں ، ڈرامے اور فلمیں دیکھنے میں مصروف رہتے ہیں۔بچوں کو ان منفی سرگرمیوں سے دور رکھنے کی سب سے زیادہ ذمہ داری والدین پر عائد ہوتی ہے۔ ایک دوست نے یہ تجویز دی ہے کہ گھر میں داخل ہوتے ہی تمام افراد کو اپنے موبائل فون ایک ڈبے میں رکھنا چاہئے اسی طرح سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں، ہسپتالوں میں بھی موبائل فون کے استعمال پر مکمل پابندی لگانی چاہئے اور اس کے لئے سزائیں بھی مقرر کرنی چاہئے۔کیونکہ یہ قوم صرف کڑی سزاوں سےہی ڈرتی ہے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
75245