Chitral Times

Jun 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

سوات اور چترال کی سیاحت کے درمیان بنیادی فرق ۔تحریر:اشتیاق چترالی

شیئر کریں:

کسی بھی علاقے کی سیر وسیاحت وسیاحت وہاں کی۔مقامی آبادی اور رہائشیوں کیلئے خاطر خواہ آمدنی اور خوشحالی کا باعث ہوتی ہے ،اس سے ملک کا ایک سافٹ امیج بھی باقی ماندہ دنیا کے سامنے آجاتا ہے اور وہاں کے پر آمن ہونے اور خوبصورتی کو آشکار کرنے میں بھی مددگارثابت ہوتی ہے۔


پچھلے دنوں ایک لیڈر شپ کیمپ میں شرکت کرنے کیلئے سوات کی پرفضا سیاحتی مقام کالام جانے کا موقع ملا اور اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہاں اور چترال میں سیروسیاحت کے شعبے میں بنیادی فرق کو منظر عام پر لانے کی ادنیٰ سی کوشش کی ہے تاکہ ہمارے پیارے علاقے چترال میں بھی لوگ مزید جوق درجوق آئیں اور یہاں کے چھپے ہوئے اور پوشیدہ علاقوں میں بھی جہاں ابھی تک رسائی ممکن نہیں ہو سکی ہے کو ممکن بنا کر کثیر تعداد میں سیاحوں کی توجہ اس جانب مبذول کرایا جاسکے جس سے مزید اس شعبے کو ترقی ملے۔


رات گیارہ بجے سوات کے علاقے مینگورہ پہنچے اور وہاں ہوٹل کی تلاش میں چند فاصلے پر ہی ہوٹل نظر آئے کھانے کے فراغت کے بعد حب ہوٹل کی طرف بڑھے تو رات کے تقریباّ بارہ بجے سے بھی اوپر کا ٹائم تھا لیکن ہوٹل اسٹاف مستعد اپنی سیٹ پہ۔براجمان تھے اور مجھ جیسے اور پردیسیوں کے مسائل کم کرنے کے ارادے سے اپنی فرض منصبی ادا کرنے میں مصروف اور منتظر تھے۔ایک ہوٹل میں جانے کے بعد ایک آدمی سے مختصر علیک سلیک کے بعد کمرے کے ریٹس وغیرہ معلوم کئے تو مجھ جیسے مڈل مین کے دائرہ کار کے اندر پا کر موقع کو غنیمت جان کر جلدی جلدی کمرے کا نمبر معلوم۔کرکے چابی لی اور کمرے میں جاکے بیڈ پہ جاکے ہی دن کی تھکاوٹ دور کرنے کیلئے کمر لو سیدھا کرنے کی دیر تھی اور دیکھتے ہی دیکھتے نیند کی آغوش میں چلے گئے۔


علی الصبح آنکھ کھلی تو ہوٹل اسٹاف کو اسی طرح مستعد اور چوکنا پایا ناشتے کے بعد ہوٹل کا بل ادا کرکے اڈے کی راہ لی اور گاڑیوں کا پتہ لگا کے کالام کی طرف محو سفر ہوئے،چونکہ برفباری اپنے جوبن پہ تھی اور پورے راستے میں برفباری ہوتی رہی بلکہ چترال سے بھی زیادہ برفباری دیکھنے کو ملی اور وہ بھی اتنی شدید کہ دیکھتے ہی دیکھتے ساری زمیں نے جیسے سفید چادر پہن لی ہو،کافی جگہ۔پہسے رہے لیکن وہاں کے لوگ داد کے مستحق ہیں جنھوں نے اپنے گھروں کے دروازے تک سیاحوں کیلئے کھول دئے اور ان کی اتنی خاطر تواضع کی کی لوگ اپنی تکلیف اور تھکن کو جیسے بھول گئے اور اپنا گھر جیسا ان کو معلوم ہونے لگا۔جگہ جگہ ٹک شاپس،چھوٹے چھوٹے ہوٹلز بنے ہوئے تھے جہاں سے با آسانی گرم گرم پکوڑے،چائے اور دیگر ضروریات زندگی کے دیگر سامان با آسانی میسر تھے۔راستے کی بندش کی وجہ سے کافی پھسے رہے لیکن لوگوں کا تعاون دیدنی تھا چاہے ڈرائیور ہو یا اور لوگ سارے ہی ایک دوسرے سے مثالی تعاون پر آمادہ نظر آئے۔سیاحوں کی سہولت کیلئے مختلف جگہ فسٹ آیڈ کی سہولت بھی موجود ہےپھر سیاحوں کیلئے گاڑیوں کا انتظام مناسب ریٹس اور مناسب کرایے پہ دستیاب ہوتے ہیں اور یہ بھی قابل تعریف ہے کہ ان کے ریٹس بھی مناسب تھے،ہر فرد کو ہر علاقے کے بارے میں مکمل معلومات میسر ہوتی ہیں جو وہ بلا جھجک آگے لوگوں میں شیئر کرتے ہیں اور با آسانی بتائے گئے وقت کے اندر اندر مطلوبہ جگہ تک رسائی ممکن ہوجاتی ہے۔کالام چونکہ سوات سے کافی فاصلے پر واقع ہے لیکن سڑکوں کی پختگی،ہوٹلز کی بھرمار،اور سہولیات کا باآسانی میسر ہوجانا،ٹورسٹس کو مکمل تعاون اور مناسب گائیڈ لائن ،اسپاٹس کی مکمل معلومات اور رسائی ہی وہ بنیادی چیزیں ہیں جو سیاحوں کو اپنی طعف کھینچ لاتی ہیں۔


چترال میں چونکہ سڑکوں کی ابتر صورتحال سے مقامی لوگ تو پریشان ہیں ہی سیقح بھی اس صورتحال سے خوش نہیں ہیں اور یہ اس علاقے کی طرف ان کے آنے والے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ تصور کیا جاتا ہے۔


چترال میں ایسے علاقے بھی ہیں جہاں تک راستے کی ناپیدگی کی وجہ سے رسائی ممکن نہیں ہو سکی ہے ورنہ وہاں تک با آسانی رسائی سے سیاح مری، سوات اور باقی علاقوں کے بجائے چترال آنے کو ترجیح دیں گے اور پھر یہیں کی سیاحت کو میں اسٹریم میڈیا میں ہائی لائٹ کرکے مزید لوگوں کی توجہ حاصل کی کاجاسکتی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کی توجہ اس جابب مبذول کرایا جاسکے پھر سیاحوں کی سہولیات کیلئے یہاں پہ موجود ہوٹلز کو چوبیس گھنٹے اپنی سروسز مہیا کرنے چاہئے چاہے وہ قیام کے حوالے سے ہوں یا طعام کے اور رات تین بجے یہاں ہہ آنے والے سیاح کو بھی اپنی مرضی کا کھانا اور رہائش کی لئے مناسب انتظام میسر آئے اور کھانے پینے کے حوالے سے بھی مختلف ورائٹی کے کھانے میسر آجائیں،پھر مختلف ٹورسٹس سپاٹس میں ٹک شاپس،فسٹ آیڈ کی سہولت چاہے یونٹ ہو یا کیمپ،ٹورسٹس اسپاٹس میں رہائش کے لئے مناسب انتظامات اور گائیڈ لائن اگر اس طرح کے انتظامات ہم چترال میں ہر ملکی و غیر ملکی سیاح کو مہیا کردیں تو وہ دن دور نہیں جب باقی علاقوں کی طرح چترال بھی سیاحت کے شعبے میں بھی ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کروڑوں سیاحوں کی آمجگاہ بن جائے۔


چترال چونکہ اپنی منفرد ثقافت،سیاحت کے اعتبار سے منفرد حیثیت،تہذیب و تمدن،قدرتی حسن،روایتی مہمان نوازی،وادی کیلاش کی ہزاروں سال پہ محیط ثقافت،فری سٹائل پولو،پر آمن اور محبت سے سرشار لوگ،لہلہاتے کھیت،بلندوبالا پہاڑ،اپنی علاقائی مصنوعات،کیبل کار،نیشنل پارک،گرم چشمے،وادی بروغل اور وہاں کا فیسٹول،زائنی ٹاپ پیراگلائیڈنگ کے مقابلے،جشن قاقلشٹ،علاقہ کہوت کے مقام شاغلشٹ کا حسین و جمیل اور قدرتی حسن سے مالامال جنت نظیر علاقہ اور اس طرح کے ان گنت علاقت اور فیسٹولز کو مزید میڈیا کے اندر کوریج دلوا کے لوگوں کی توجہ دلوائی جاسکتی ہے اور اس طرح کے مزید مناسب انتظامات سے سے ہم اپنے علاقے کی رنگینیوں میں چار چاند لگا سکتے ہیں تاکہ یہاں کے لوگ بھی سیاحت کو بطور انڈسٹری اپناسکیں اور علاقہ اور اس کے باسی ہر حوالے سے خوشحال زندگی گزارسکیں۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57413