Chitral Times

Jul 3, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

سفردرسفر۔۔۔۔۔۔۔۔۔(ایک تصوراتی سفر)۔۔۔۔۔۔ Utopia# 3۔۔۔میرسیماآمان

شیئر کریں:

ع-عشق کی ایک جیت نے کردیا قصٔہ تمام۔۔۔اس زمین و آسماں کو بیکراں سمجھا تھا میں۔۔۔۔                

اسکے سفر کا آغاز تریچ میر کے خوبصورت پہاڑی سے ہوتا ہے جہاں وہ کوہ  قاف کی پری کی طرح اپنے پر کھولتی ہے اور برف سے ڈھکے اس اونچے پہاڑی سے اڑان بھرتی ہے۔ پرواز کے دوران دیوار چین کے مُقام پر اترنے کا بڑا دل تو کرتا ہے لیکن وقت کی کمی کے باعث اسے واپسی پر ٹالتے ہوئے  وہ اگے بڑھ جاتی ہے۔اسوقت اُسکی توجہ کا پہلا مرکز پیار کا پہلا شہر ‘ تاج محل ‘ ہے۔ میری ذاتی رائے ہے کہ انسان پیار کے معنی سے تو بعد میں مانوس ہوتا ہے ،جبکہ تاج محل دیکھنے کا شوق اسکے دل میں پہلے ہی پیدا ہوجاتا ہے۔

تاج محل کی خوبصورتیوں سے آنکھوں کو خیرہ کرنے کے بعد وہ ہمایوں کے مقبرے   پر حاضری دینے جاتی ہے۔ “ہمایوں کا مقبرہ”  یعنی وہی تاریخی عمارت جسے گرا کر قبرستان بنانے کا  دلی کے مسلمان ایک زمانے میں مُطالبہ کرتے رہے۔انکے ” مُطالبے ” پر بھی بڑی حیرت ہے بھلا لے دے کے پوری دہلی میں قبرستان بنانے کے لیے کیا  یہی ایک جگہ رہ گئی تھی  ہاہ۔۔بحر حال پری کا سفر اگے بڑھتا ہے۔راستے میں کہیں خوبصورت وادیاں ،باغات ،جھرنے اور چھوٹی بڑی پربتیں پری کو پُر شکوہ نگاہوں سے تکتی ہیں۔۔انکا شکوہ بھی بجا ہے۔مگر ا نھیں کون بتائے کہ پری بے شک اکیسویں صدی میں جی رہی ہے مگر اسکی روح تو ۲۱۰۰ سو سال سے بھی پرانی ہے بالکل کسی بوسیدہ قبر کی طرح۔۔

پری کو ان خوبصورت وادیوں سے پیار ضرور ہے لیکن اُن عمارات سے ”عشق ” ہے جو اب مزید بوڑھے ہوتے جا رہے ہیں۔ اسی لیے پری کا پرواز سیدھا اٹلی کی طرف جاتا ہے۔ اس کے پر تھک گئے ہیں اسلیے میلان میں پہنچتے ہی پری سنگ ِ مر مر سے تراشے گئے اس عمارت  میں اُترتی ہے  جسکو بنانے میں ہی  ۶۰۰  سال لگ گئے تھے جو دنیا کا تیسرا اور اٹلی کا سب سے بڑا چرچ مانا جاتا ہے جہاں اس چرچ کی خوبصورتی پری کو مدہوش کرتی ہے وہیں چرچ میں موجود مختلف نشانیاں حیرت کے ساتھ ساتھ افسردہ کر دیتی ہیں۔جن میں قابل ِ ذکر چرچ کا وہ کونہ ہے جہاں سرخ روشنیوں کے نیچے رکھی گئی کیل ہے جسکے بارے میں کہا یہ جاتا ہے کہ حضرت عیسٰی کو صلیب پر چڑھاتے وقت ایسی ہی ایک کیل اُنکے ہاتھ یا پاوں پر ٹھونک دی گئی تھی۔

پری کو دم گھٹنے کا احساس ہوتا ہے وہ یک دم باہر نکلتی ہے اور دوبارہ پرواز میں چلی جاتی ہے،اٹلی کی سرحدوں پر پرواز کرتے ہوئے ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے دنیا بھر کے تمام قدیم عمارات اٹلی میں قید کردئے گئے ہیں،تاریخ دیکھنے کے لیے کسی دوسرے تیسرے ملک جانے کی ضرورت ہی نہیں۔اگر پری کا بس چلے تو ساری عمر  کسی بھٹکتی روح کی طرح اٹلی کی گلیوں میں ہی گھومتی رہے لیکن ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے۔۔۔

اتنے میں کوہ قاف کی پری کو جنگلات کے دوسرے پار اُونچے اونچے برف پوش پہاڑ نظر آتے ہیں،پری نہایت خوش ہوتی ہے لیکن جونہی وہاں پہنچتی ہے تو یہ دیکھ کر حیران رہ جاتی ہے کہ یہ برف نہیں بلکہ سنگ مر مر کے اونچے پہاڑ ہیں،جو سورج کی روشنی میں برف کی طرح چمکتے ہیں اور رات کے اندھیرے میں جب چاند کی روشنی میں نہا جاتے ہیں تو ہیبت اور خوبصورتی کا ایک عجب اور ناقابل ِ بیان منظر پیش کرتے ہیں،،چلتے چلتے پری ایک زیارت گاہ میں پہنچ جاتی ہے جو اٹلی کے ایک چھوٹے علاقے ویرونا میں واقع ہے۔۔ یہ رومیو کی محبوبہ جولیٹ کا گھر ہے جسکی بالکونی میں چڑھ کر رومیو اس سے پیار بھری سر گوشیاں کیا کرتا تھا۔آج یہاں جولیٹ کا مجسمہ نصب ہے دور دور سے لوگ صرف اس ایک گھر کو دیکھنے آتے ہیں۔جولیٹ کی حسین مجسمے کو چھو کر اپنی محبت کی قسمیں کھاتے ہیں،اکثر نوجوان اپنے محبت کو امر کرنے کے لیے بالکونی کے جنگلے میں مظبوط تالے ڈالتے ہیں اور اس پر اپنا اور محبوب کا نام لکھ دیتے ہیں۔۔ اس بالکونی میں ان تالوں سمیت لاکھوں ایسی پرچیاں دیوار پر نصب ہیں جسمیں دنیا بھر کے محبت کرنیوالے دلوں کے نام درج  ہیں ، اٹلی کا سارا حُسن اس ایک بالکونی کے اگے ماند پڑ جاتا ہے محبت کرنے والوں کے لیے یہ بالکونی محبت کی عظیم علامت ہےجس نے  کہیں دہایوں سے یہ ثابت کر رکھا ہے کہ ” محبت معاشرتی تعصٔب کا شکار ہوجائے تو مر نہیں جاتی بلکہ ” امر ” ہوجاتی ہے۔۔۔

 کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر ایک لکھاری کو کسی سے محبت ہوجائے تو محبوب کبھی نہیں مرتا جولیٹ کے معاملے میں محبت کا یہ فلسفہ بھی بالکل ٹھیک لگتا ہے کیونکہ  تاریخ گواہ ہے کہ  جولیٹ نے رومیو کے لیے جان دے دی لیکن اسکی محبت کو عروج ” شیکسپئر نے دیا،،، نہ شیکسپئر محبت کی اس عام سی کہانی کو اپنے الفاظ کا پیرہن دیتا اور نہ محترمہ جولیٹ کا گھر آج دنیا بھر کے عاشقوں کا قبلہ گاہ بنتا۔۔۔بحرحال پری کو یوں محسوس ہوا جیسے اس نے بھی اتنا لمبا سفر محض جولیٹ کے گھر پہنچ کر  اس جنگلے پر اپنے اور محبوب کے نام کا تالا ڈالنے کے لیے ہی کیا تھا۔۔لیکن شائد وہ جولیٹ کے گھر پہنچنے میں بہت دیر کرچکی تھی۔۔ وہ افسردگی سے جب جولیٹ کے گھر سے روانہ ہو تی ہے تو شدید دھند کے لپیٹ میں آجاتی ہے ۔

سنگ مرمر کے پہاڑیوں پر شدید دُھند اور نیچے پام  اور ربڑ کے جنگلات میں طوفان کے ایسے جھکر چلتے ہیں کہ پری کا اپنا تواذن برقرار رکھنا بھی مشکل ہوجاتا ہے ۔۔ پری سمت کا تعین کیے بغیر چلتی جاتی ہے یہاں تک کہ ایملس کا فوارہ دیکھنے کی خواہش بھی پیچھے رہ جاتا ہے۔۔اب نہ عمارات کی کشش ہے نہ اہرام مصر دیکھنے کا من۔۔ یوں لگتا ہے  پری  بہت دور نکل آئی ہے ۔۔وہ مختلف طوفانوں سے گزرتے ہوئے  اب  جس مقام  پر اترتی ہے وہاں کی فضاء میں ایک مانوس سی خوشبوپھیلی ہوئی ہے بہت سارے لوگ ہیں جو ایک ہی سمت میں جارہے ہیں۔پری حیرت سے اگے بڑھتی ہے اور جوں جوں اگے بڑھتی ہے اسکے آنکھوں سے اندھیرا چھٹتا جاتا ہے۔ پری کو اپنا آپ کسی  جنت میں داخل ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ دور کالے کپڑوں میں روپوش ” خانہ کعبہ ” اپنی تمام تر رعنائیوں سمیت کھڑا ہے۔وہ لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ جب  کعبہ کے دیوار وں کے پاس پہنچتی ہے تو اُسے  دیوار چین ، تاج محل، ہمایوں کا مقبرہ روم ،اٹلی ۔ایملس کے فوارہ  سے لیکر جولیٹ کے گھر تک کا سارا سفر بھول جاتا ہے ۔۔

پری حیرت میں ہے کہ کیا دُنیا کی کوئی جگہ  کعبے سے بڑھ کر بھی مسحور کُن ہوسکتا ہے؟؟ہاں اب پری کو اس بات پر ایمان آگیا ہے کہ دنیا کی وہ تمام جگہیں جن سے وہ ” عشق ” کرتی رہی وہ سب کے سب ” رانگ نمبرز ” تھے عشق کرنے اور خواہش رکھنے کا اصل مُقام تو محض ” کعبہ  ” ہے۔۔۔۔                                 تحریر میر سیما آمان ،،مورخہ ۱۲ اکتوبر ۲۰۱۷        


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامین
34632