Chitral Times

Jul 3, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

سرکاری افسران کیلئے ‘صاحب’ کا لفظ استعمال کرنے پر پابندی عائد

شیئر کریں:

سرکاری افسران کیلئے ‘صاحب’ کا لفظ استعمال کرنے پر پابندی عائد

اسلام آباد( چترال ٹائمز رپورٹ) سپریم کورٹ نے سرکاری افسران کے لیے “صاحب” کے لفظ کے استعمال پر پابندی لگادی۔سپریم کورٹ میں مردان میں 9 سالہ بچے کے قتل کیس کے ملزم کی درخواست ضمانت پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے سماعت کی۔کیس کی سماعت کے دوران ڈی ایس پی کے ساتھ “صاحب” کا لفظ استعمال کیا گیا تھا۔اس حوالے سے سپریم کورٹ کی جانب سے کہا گیا کہ صاحب کے لفظ کا استعمال کسی آزاد قوم کی عکاسی نہیں کرتا۔سپریم کورٹ کی جانب سے کہا گیا کہ سرکاری ملازم صاحب کے لفظ سے خود کو احتساب سے بالا تصور کرتے ہیں، فیصلے کی کاپی آئی جی اور ایڈووکیٹ جنرل کے پی اور ہوم ڈیپارٹمنٹ کے پی کو بھیجی جائے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پولیس نے تحقیقات پر کچھ کام نہیں کیا، سپریم کورٹ کو مجسٹریٹ کی عدالت بنا دیا گیا ہے۔جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ یہ کوئی مذاق ہے، دلائل نہ ہوں اور ہم بس وکیلوں کی شکلیں دیکھتے رہیں، کیا ایک فائل اتنی بھاری تھی کہ 2 افسران کے پی سے اسلام آباد آئے؟ پٹرول اور ٹی اے ڈی اے مفت جبکہ واٹس ایپ سے پرنٹ نکالنا مہنگا ہے؟انہوں نے کہا کہ عوام پولیس کو کیوں پال رہی ہے؟ ایک بچہ مرگیا اور پولیس کی تفتیش کا حال یہ ہے، ناقص تفتیش کر کے کہتے ہیں کہ عدالت نے ملزم چھوڑ دیا، غریب کا بچہ تھا اس لیے پولیس نے سنجیدگی سے تفتیش کرنا ضروری ہی نہیں سمجھا۔چیف جسٹس نے خیبرپختونخوا کے پولیس اہلکار سے استفسار کیا کہ آپ کا اتنا پیٹ کیوں نکلا ہوا ہے؟ آپ ایک فورس ہیں، ایک زمانے میں بیلٹ ہوتی تھی۔عدالت میں ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کے پی نے کہا کہ کیس کی تفصیلات ڈی ایس پی صاحب بتا سکتے ہیں۔

 

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ نے صاحب صاحب کہہ کر سب کا دماغ خراب کردیا ہے، یہ ڈی ایس پی ہے، صاحب نہیں، یہ نالائق ڈی ایس پی ہے۔چیف جسٹس نے شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ معیار ہے آپ کی تفتیش اور تحقیقات کا۔کمرہ عدالت میں تفتیشی افسر سے معلومات لینے پر چیف جسٹس نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کمرہ عدالت کو اپنا دفتر سمجھ رکھا ہے؟ دفتر کے کام عدالت میں کرنا غیر سنجیدگی کو ظاہر کرتا ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ملزم کے خلاف کیا شواہد ہیں؟ ڈی ایس پی انویسٹی گیشن پشاور نے کہا کہ 2 گواہان نے ملزم کے ساتھ بچے کو جاتے ہوئے دیکھا، چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ گواہ تو آپ 4 بھی ڈال سکتے تھے، شواہد کہاں ہیں؟ڈی ایس پی انویسٹی گیشن پشاور نے کہا کہ بچہ اپنے چچا کی ورکشاپ میں کام کرتا تھا۔چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی چچا اپنے بھتیجے کو کسی غیر کے ساتھ کیسے جانے دے سکتا ہے؟ ورکشاپ والوں نے بچے کے اہلخانہ کو 16 دن بعد کیوں آگاہ کیا؟ پولیس نے ورکشاپ ملازمین کے بیانات کیوں نہیں ریکارڈ کیے؟ سب سے ناقص تفتیش کے پی پولیس کی ہوتی ہے۔سپریم کورٹ کی جانب سے کہا گیا کہ پولیس نے بچہ مرنے کے ذمے داران کے تعین کے لیے کوئی تفتیش نہیں کی، ناقص تفتیش کی مثال دینے کے لیے یہ بہترین کیس ہے۔بعدازاں سپریم کورٹ ا?ف پاکستان نے بچے کے قتل کیس کے ملزم کی ضمانت منظور کر لی۔

 

بلاول کیساتھ 16 ماہ ملکرکام کیا، رونے دھونے سے کچھ نہیں ہوگا، شہباز شریف

کوئٹہ(سی ایم لنکس)سابق وزیراعظم اور ن لیگ کے صدر شہباز شریف نے کہا ہے کہ بلاول کے ساتھ 16 مہینے کام کیا ہے، رونے دھونے سے کچھ نہیں ہوگا، مل کر مسائل حل کرنا ہوں گے۔بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ اسلم خان رئیسانی سے ملاقات کے بعد گفتگو کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ بلاول بھٹو میرے چھوٹے بھائی جیسے ہیں، ہم نے 16 ماہ اکٹھے کام کیا ہے، رونے دھونے اور ایک دوسرے کو مؤرد الزام ٹھہرانے سے کچھ نہیں ہوگا، ہمیں سنجیدہ سیاست کی طرف جانا ہوگا۔شہباز شریف نے اسلم خان رئیسانی کو مسلم لیگ ن میں شمولیت کی دعوت دی، جس پر انہوں نے جلد فیصلہ کرنے کا وعدہ کیا۔ اس موقع پر گفتگو میں شہباز شریف نے کہا کہ ملک کو درپیش سیاسی، معاشی اور معاشرتی مسائل مل کر حل کرنے پڑیں گے۔ سیاسی زعما اور اسٹیک ہولڈر ماضی سے سبق سیکھیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان ہے تو ہم ہیں۔ اس ملک کی ترقی اور حوش حالی ہی سے ہماری ترقی و خوش حالی وابستہ ہے۔ پاکستان ایک جوہری قوت ہے مگر معاشی طور پر ہمارا گزشتہ 75 برس میں جو حشر ہوا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ ہمیں اس حالت کو ٹھیک کرنا ہوگا۔ الزام تراشی کرنا کوئی مناسب عمل نہیں ہے۔انہوں نے پارٹی قائد سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کے بلوچستان کی ترقی کے لیے اقدامات اور فیصلے کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ ان کے دور میں ملک بھر میں سڑکوں کا جال بچھایا گیا جب کہ سابقہ حکومت کے 4 سالہ دور میں تباہی و بربادی کے سوا کچھ نہیں ہوا۔سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ عوام کے ووٹوں سے کوئی بھی وزیراعظم منتخب ہو، قوم اسے قبول کر لے گی۔ ہماری مخلوط حکومت میں تمام فیصلے مشاورت کے تحت ہوتے تھے۔ بلاول میرے چھوٹے بھائی کے جیسے ہیں، ان کے ساتھ مل کر 16 ماہ کام کیا ہے۔شہباز شریف نے کہا کہ ہم سب کو الزام تراشی اور رونا دھونا چھوڑ کر اپنے گریبان میں جھانکنا پڑے گا۔ تجزیہ کرنا ہوگا کہ ہم سے کیا کیا اور کہاں کہاں غلطیاں سرزد ہوئی ہیں۔ ہم نے ملک کو ڈیفالٹر ہونے سے بچایا، ہماری سیاست کو نقصان پہنچا مگر ریاست بچ گئی۔ اب سیاست بھی بچ جائے گی۔

 


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, جنرل خبریںTagged
81741