Chitral Times

Jul 3, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

سائبرکرائمز قانون کی افادیت…… محمد شریف شکیب

شیئر کریں:


پاکستان میں چار برسوں کے دوران سائبر کرائمز میں 12گنا اضافے کا انکشاف ہوا ہے۔وزارت داخلہ کی رپورٹ کے مطابق ملک میں سائبر کرائمزکے حوالے سے قانون سازی کے بعد ہر سال جرائم کی تعداد میں اضافہ نوٹ کیا گیا، ان جرائم میں جنسی ہراسیت، مالیاتی فراڈ، ڈیٹا چوری، سوشل میڈیا پر شناخت کی چوری، بچوں کی غیر اخلاقی تصاویر اور ویڈیوز بنانے اور پھیلانے کے مقدمات شامل ہیں۔2016 میں پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ کے نفاذ کے بعد ملک بھر سے ایف آئی اے کو 9ہزار شکایات موصول ہوئیں جن کی بنیاد پر 47مقدمات درج کیے گئے۔ 2019میں درج ہونے والے مقدمات کی تعداد 577 ہو گئی جبکہ رواں سال ایف آئی اے کو موصول ہونے والی شکایات کی تعداد 56 ہزار سے بھی بڑھ گئی ۔ ایف آئی اے کا سائبر کرائم ونگ اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے ذریعے عوام میں ان جرائم کے حوالے سے آگاہی پیدا کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ اس کے علاوہ مختلف ہدایت نامے بھی جاری کیے جاتے ہیں جو کہ ایف آئی اے کی ویب سائٹ پر موجود ہیں۔تاہم سائبر کرائمز کا شکار ہونے والے 75فیصد لوگوں کو ایف آئی اے کے سوشل میڈیا اکاونٹ کے بارے میں علم ہی نہیں۔

دیہی علاقوں میں رہنے والے سادہ لوح لوگوں کو انٹرنیٹ تک رسائی حاصل نہیں،لوگوں کو کبھی بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں انعام نکلنے اور کبھی ٹی وی کے انعامی پروگرام میں نام آنے کا لالچ دے کر لوٹا جارہا ہے۔ موبائل رکھنے والے تقریباً ہر دوسرے فرد کو اس قسم کے پیغامات موصول ہوتے ہیں پچاس فیصد لوگ ان پیغامات کو نظر انداز کرتے ہیں پندرہ بیس فیصد کو کچھ عرصے بعد احساس ہوتا ہے کہ انہیں دھوکہ دیا جارہا ہے جبکہ تیس فیصد لوگ جرائم پیشہ گروہ کا شکار بن کر لٹ جاتے ہیں۔اب انٹرنیٹ پر جعلی کاروبار کانیا دھندہ شروع کیاگیا ہے۔ جدید ڈیزائن کے جوتوں، تھری پیس سوٹ، شرٹس، پینٹس،عبایااور ملبوسات کی تصاویر اور وڈیوز اپ لوڈ کی جاتی ہیں نوجوان اور سادہ لوح لوگ انٹرنیٹ پر آن لائن خریداری کا آرڈر دیتے ہیں خریداروں کا اعتماد حاصل کرنے کے بعد انہیں ٹیلی فون کال کرکے تصدیق کی جاتی ہے کہ آپ نے فلاں چیز کا آرڈر بک کرایا ہے جو کوریئر سروس کے ذریعے آپ کے گھر پہنچا دی جائے گی۔ حال ہی میں میری فیملی کی ایک بچی نے جدید ڈیزائن کے دو عبایا آن لائن بک کروا دیئے۔ تصدیق کرانے کے لئے ٹیلی فون کال بھی کی گئی کہ کیاآپ نے فلاں ڈیزائن کے برقعے آرڈر کئے ہیں تصدیق پر بتایا گیا کہ تین دنوں کے اندر آپ کا پارسل گھر کے پتے پر پہنچایاجائے گا۔ تیسرے دن کورئیر سروس سے فون آیا کہ تمہارا پارسل آیاہوا ہے چونکہ آپ کا علاقہ ہمارے سروس ایریا سے باہر ہے لہذا آپ کورئیر کے دفتر آکر اپنا پارسل لے جائیں۔حالانکہ دو سو روپے کورئیر والوں نے ہوم ڈیلیوری کے لئے وصول کئے چار سو روپے ٹیکسی والے کو دیئے اور ایک ہزار روپے عبایا کے لئے ادا کئے گئے۔ گھر لاکر پارسل کھولا گیا تو اندر سے آرڈر کئے گئے عبایا کے بجائے پھٹا پراناشلوار قمیض کا جوڑابرآمد ہوا۔ نیٹ چیک کیاگیا تو وہ اشتہار غائب اور جس فون سے تصدیق کے لئے کال کی گئی تھی وہ نمبر بھی بند تھا۔

ہمارے ملک میں روزانہ سینکڑوں ہزاروں افراد سائبر کرائمز مافیا کے ہاتھوں لٹ رہے ہیں۔ملک میں جرائم کی روک تھام کے لئے قوانین تو موجود ہیں لیکن ان قوانین سے خود قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی واقف نہیں ہیں۔بجلی کا میٹر صارف کی ملکیت ہوتی ہے ایک مہینے کا بل کسی مجبوری کی وجہ سے جمع نہ ہوپائے تو متعلقہ ادارے کے اہلکار میٹر اتار کر لے جاتے ہیں جبکہ قانون یہ ہے کہ بل نہ دینے کی صورت میں صارف کو تین مرتبہ نوٹس دیا جائے گا۔ اس کے باوجود بل جمع نہ کرنے پر متعلقہ محکمے کا اہلکار میٹر اتارنے کے بجائے اپنی تار میٹر سے نکال دے گا، لیکن صارف کو بجلی کی سہولت سے محروم نہیں رکھے گا بلکہ ڈائریکٹ لائن سے بجلی کی فراہمی جاری رکھے گا۔ بل ادا کرنے پر تار دوبارہ میٹر کے ساتھ منسلک کیا جائے گا۔میٹر اتارنے پر صارف بجلی کی تقسیم کار کمپنی کے خلاف ایف آئی آر درج کروا سکتا ہے مگر اس قانون سے نہ صارفین واقف ہیں نہ ہی پولیس کو کبھی ایسے واقعات سے پالا پڑتا ہے۔شہریوں کے لئے قانون کی افادیت اس وقت تک بے معنی ہے جب تک انہیں قانون کے بارے میں آگاہی نہ ہو۔ حکومت کو سائبر کرائمز کے حوالے سے شہریوں میں آگاہی پیدا کرنے کی مہم شروع کرنی چاہئے تاکہ عوامی بہبود کے لئے بنائے گئے قوانین سے عوام استفادہ کرسکیں۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
41922