Chitral Times

Jul 3, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

زور کے سامنے کمزور تو کمزور پہ زور۔۔عادل شہر تیرے عدل کے معیار پہ تھو۔۔تحریر:میر سیما آمان

شیئر کریں:

ابھی چند روز پہلے دعوت عزیمت والوں کی کوشش سے ایک غیر مقامی شخص کی چترال میں شادی کی کوشش کو ناکام بنایا گیا اور تب سے حسب دستور یہ خبر سوشل میڈیا کی زینت بنی ہوئی ہے۔چونکہ نہ تو واقعہ نیا ہے نہ ہی اس پر چلنے والا بحث لیکن جس چیز نے قلم اٹھانے پر مجبور کیا ہے وہ عوام کا وہ مشترکہ رویہ ہے جو اب حد سے تجاوز کر چکا ہے۔۔۔یعنی وہ رویہ جو کسی بھی صورتحال میں بیٹی کے باپ کے لیے سامنے آ تا ہے۔۔

انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے معاشرے  میں عام حالات میں بھی اور ایسی صورتحال میں اور بھی زیادہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ تمام توپوں کا رخ اس شخص کی طرف ہوتی ہیں جو بیٹیوں کے باپ ہونے کا گنہگار ہے۔۔میں اس مضمون کے ذریعے آپ تمام عوام سے دو سوال پوچھنا چاہتی ہوں آپ دل پر ہاتھ رکھ کر ایمانداری سے بتائے گا  ۔۔کہ کیا اس بچی سے آپ تمام لوگ اسکے والد سے بھی زیادہ شفقت رکھتے ہیں یا رکھ سکتے ہیں  ؟؟؟دوم سوال یہ کہ یہ دلال جنکا ذکر سن کر ہمارے کان پک گئے ہیں میرا سوال ہے کہ  درحقیقت یہ دلال کون ہیں۔۔۔؟؟ مجھے قسم ہے اللہ پا ک کی اور اسکے رسول کی کہ دنیا کا کوئی دوسرا تیسرا  شخص ایک بچی کے لیے اسکے باپ سے بڑھ کر شفیق نہیں ہو سکتا اسلیے ہمدردی کے آ ڑ میں اپنی سیاست چمکانے کے بجائے ان اصل لوگوں کو سامنے لائیں جو ان واقعات کا اصل سبب ہیں ۔۔۔

سب سے پہلے تو عوام اس بات کا تعین کریں کہ انکو اعتراض کس بات پر ہے ۔۔بہت ہی افسوسناک بات ہے کہ مذکورہ واقعہ میں ہمیشہ کی طرح   اصل دلالوں کو چھپا کر ایک تو غیر مقامی شخص کی ظاہری شخصیت کو مذاق کا نشانہ بنایا گیا جسکی خود مذہب بھی مذمت کرتا ہے تو دوسری طرف ایک بچی کے باپ کو طنز و طعنوں کا نشانہ بنایا گیا ۔۔۔سوچنے کی بات ہے ایک بچی کا باپ جو پہلے ہی معاشرے کا ستایا ہوا ایک ناچار مخلوق ہے جسے چند کم ظرف رشتہ دار یا ملنے والے حقیقی دلال بیٹی کے مستقبل کے سنہرے خواب دکھاتے ہیں شادی نہ ہونے کی صورت میں اور بچی کو گھر بٹھانے اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل کا ایسا خطرناک  نقشہ کھینچتے ہیں کہ ایک باپ کو رشتہ دینے کے علاؤہ کوئی صورت نظر نہیں آتی ۔ان حالات میں جب باپ رشتہ دیتا ہے اور قسمت کی ستم ظریفی سے آگے جا کر رشتے میں کوئی نقص نکل آتا ہے تو رشتہ کرانے والے دلال تمام معاملے سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں کوئی زمہ داری نہیں لیتے ۔۔ حتی کہ حالات خراب ہونے پر وہی لوگ  یا تو لڑکی کی کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں یا ایک بار پھر بچی کا باپ ہی تیروں کا نشانہ بنتا ہے۔۔۔

ما ضی کے واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ جب بھی کوئی برا واقعہ ہوا حتی کہ بچیوں کو قتل کرکے بو ریوں میں بند کرکے بھیجا گیا تو میرے  علاقے کے کسی طرم خان نے کسی دعوت عزیمت والے نے رشتہ کرانے والے کسی خبیس کو نہیں پکڑا بلکہ صرف بچی کے والدین کو ہی غم کیساتھ ساتھ ذلت کا دکھ بھی اٹھانا پڑا ۔۔کیوں ؟؟ میں پوچھنا چاہتی ہوں کیوں؟؟ آ خر یہ کیسا تماشہ ہے؟؟؟؟؟  مذکورہ واقعہ  بلکہ واقعات سے بالخصوص اور عام حالات سے بالعموم میں نے صرف یہی سیکھا کہ ہم جیسے بے ضمیروں کے معاشرے میں بیٹی کا باپ بیٹی دے کر بھی ذلیل ہوتا ہے اور بیٹی کو گھر بٹھا کر بھی ۔۔اس باپ  کی کیفیت کا اندازہ کوئی بے ضمیر شخص کر ہی نہیں سکتا جو ہمارے بنائے گئے اس گھٹیا معاشرے کا حصہ بننے پر مجبور ہے ۔۔

جس سسٹم جس کلچر کی ہم راگ الاپ رہے ہیں جس ظلم کا ہم رونا رو رہے ہیں اس ظلم کا آغاز کسی بیٹی کے باپ نے نہیں کیا اسکا آ غاز  ان دلال رشتہ داروں نے  دوستوں نے محلے والوں نے کیا ہے جنکے چہرے ہم چھپا رہے ہیں ۔ مجھے اب سمجھ آئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بیٹی کے باپ کو اتنی عزت کیوں دی ہے ۔۔کیونکہ معاشرے کی یہ اوقات ہی نہیں ہے کہ وہ بیٹی والوں کو عزت دے سکے۔ اللہ اور اسکے رسول نے بیٹیوں کے باپ کو بار بار جنت کی بشارت دی ہے ۔ بیٹیوں کو جہنم سے عار قرار دیا گیا ۔۔بیٹی کیساتھ شفقت کا رویہ رکھنے والے باپ اور بھائی کو رسول پاک (ص) نے جنت میں اپنا پڑوسی قرار دیا ۔۔۔جس شخص کی عزت اور مقام کا تعین خود اللہ اور اسکے رسول نے کیا میں حیران ہوں ایسے شخص کو ذچ کرنے کا ٹھیکہ اس دجالی معاشرے نے کس شان سے اٹھا رکھا ہے۔۔۔۔۔

واقعی عزت کا معاملہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے آپکے دروازے میں آنیوالے سائل کا معاملہ ہے۔۔ہم کسی سائل  کو روٹی پانی تب ہی دے سکتے ہیں جب وہ ہمارے اپنے پاس موجود ہو ۔۔    اپنی مفادات کے آگے بکنے والی اپنے تعلقات کی بحالی کے لیے آگے رشتوں کا سودا کرنے والے لوگ جو عزت کے اصل مفہوم سے ہی محروم ہوں وہ بیٹی والوں کو  کیا خاک عزت دے پائیں گے۔۔  مجھے افسوس ہے کہ میں کسی بھی عنوان پر لگی لپٹی بات کرنے کی عادی نہیں ہوں اور اس عنوان پر جو حالات ہیں وہ میرے الفاظ سے بھی زیادہ بد تر ہیں اسلیے صاف اور مختصرا بات اگر کہوں تو اتنا کہونگی کہ چترال کی ایک بیٹی ہاتھ جوڑ کر پوری قوم سے اس بات کی التجا کرتی ہے کہ اگر واقعی  چترال کے کسی شخص کو بچیوں کیساتھ ہونے والے نا انصافیوں پر رشتوں کے نام پر ہونے والے اس تجارت پر دکھ ہے تو آئیں ان اصل دلال کو سامنے لائیں جو ایسے رشتے لاکر بچیوں کے باپ کو  جذباتی بلیک میل کرتے ہیں انھیں بچی کے اچھے مستقبل کا جھوٹا لالچ دیتے ہیں ۔بچیوں کی عمر  بڑھنے رشتہ نہ ملنے غربت مالی مسائل کم صورتی اور تعلیم کے نہ ہونے کو جواز بنا کر باپ کو اپنے مقصد کے آگے سر جھکانے پر مجبور کر دیتے ہیں ۔۔جو پشاور اسلام آباد لاہور نہ جانے کہاں کہاں اپنے تعلقات بحال رکھنے کے لیے اپنی مفاد کے لیے کبھی ستر سال کے ا پا ہجوں کا رشتہ لاتے ہیں کبھی دوسری تیسری کے خواہشمند عیاش اور بے دین لوگوں کا ۔۔

پھر جب کوئی غلط واقعہ ہوجا تاہے تو یہ سارے گھٹیا کردار اس پورے منظر سے گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہوجاتے ہیں۔۔۔۔ اس پورے قصے میں باپ کی واحد غلطی ان میٹھی  چھڑیوں کو اپنا اور اپنی بچی کا خیر خواہ سمجھنا ہے اور بس۔۔۔۔اپکو بچیوں سے ہمدردی ہے تو آپ خاندان محلے اور علاقے کی ایک ایسی دلال عورت اور دلال مرد کو سامنے لائیں اسے ذلیل کریں نہ کہ پہلے سے ستائے ہوئے باپ کو۔۔

آخر میں صرف اتنا کہونگی کہ اس مسئلے کا حل نہ تو روز روز ایسے چھاپے مار کر شادیاں ناکام بنانے میں ہے نہ آگاہی پروگرام چلانے میں نہ سیمینارز منعقد کرنے میں ۔۔کیونکہ یہ کوئی وبا نہیں جس سے بچنے کے لیے آپ احتیاطی تدابیر پیش کرینگے اور عمل کرنے سے مسئلہ حل ہوگا۔۔

۔۔یہ مسئلہ حل  نہیں ہوگا۔۔کیونکہ یہ بیماری جسم کی نہیں روح کی ہے فطرت کی ہے سوچ کی ہے اور فطرت کب بدلتی ہے ؟؟   اسلیے عظیمت والے ہمارے بھائیوں کی ساری کوشش بے کار ہے کیونکہ چترال کے دلال اس بھٹو کی مانند ہیں جو ہر دور میں ذندہ رہیں گے ۔۔ انکی مثال بلکل ایسی ہے کہ تم جتنے بھٹو مارو گے ہر گھر سے بھٹو نکلے گا ۔۔۔ اسلیے براہ مہربانی چھاپے مارنے کے بجائے ہر گھر میں موجود بھٹو کو تلاش کریں اور انکے مکروہ چہرے سامنے  لائیں ۔

یا کوئی ایسا لائحہ عمل ترتیب دیں جو بچیوں اور والدین دونوں کے لیے  شادی کے لیے بنائے گئے غلط نظرئے کو تبدیل کرنے میں مدد گار ہو یا ان میں ان میٹھی چھڑی دلالوں سے بچنے کی شعور اجاگر  ہو سکے۔۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
38722