Chitral Times

Jul 2, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

زندگی کی حقیقت….تحریر: انعم توصیف، کراچی

Posted on
شیئر کریں:

”کب تک پہنچ رہی ہو کراچی؟ دو دن باقی ہیں صرف عید میں۔۔۔۔۔“”بس ابھی کچھ دیر میں۔۔۔“”میں مذاق نہیں کررہی۔۔ سیسریس بتاٶ۔“”ارے میری دوست۔۔۔ سچ کہہ رہی ہوں۔ایئرپوٹ پہ ہوں۔“”سچی۔۔۔۔۔! “ ”مچی۔۔۔۔!“اس نے مسکراتے ہوٸے میسج لکھا اور مسکرانے لگی۔ لاک ڈاٶن کی وجہ سے وہ تقریبا تین مہینے سے اپنے گھر اور دوستوں سے دور تھی۔ اپنوں سے ملنے کی خوشی اس کے چہرے پہ عیاں تھی۔                     ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”مما! کتنی دیر میں ہم کراچی پہنچ جاٸیں گے؟“”بس بیٹا 2 گھنٹے میں۔۔“”واٶ! کتنا مزا آٸے گا.. نانا، نانی، آنی، ماما سب کے ساتھ عید مناٸیں گے۔ خوب ساری عیدی لوں گا میں سب سے۔“”جی نہیں۔ میں بڑی ہوں۔ سب سے زیادہ عیدی مجھے ملے گی۔“ ”اچھا۔۔ اچھا بس لڑاٸی نہیں۔ سب سے زیادہ عیدی مجھے ملے گی. آخر میں اتنے سالوں بعد اپنے سسرال جارہا ہوں. اکلوتا داماد ہوں میں۔۔۔۔“  ہنستے ہوٸے انہوں نے کہا اور وہ سب جہاز کے اڑنے کا انتظار کرنے لگے۔ 

                           ………………………                  ”شکر ہے چھٹی مل گٸی۔۔ ورنہ اس بار  تو ماں کو منانا بہت ہی مشکل ہوجاتا۔“”آپ لوگوں کی جاب ہی ایسی ہوتی ہے۔ ہم سب کے لیے آپ لوگ کتنی قربانیاں دیتے ہیں۔“” اس قربانی میں بھی الگ مزا ہے۔ اپنے وطن اور ہم وطنوں کے لیے ہم ہر وقت حاضر ہیں۔ لیکن ماں تو ماں ہوتی ہے۔ اس بار جاکر اچانک جاکر ان کو خوش کردوں گا۔“”مطلب آپ بنا بتاٸے گھر جارہے ہیں؟ “”صرف ماں کو نہیں پتا۔ باقی سب کو پتا ہے۔“ ماں اچانک اپنے سامنے دیکھ کر کتنا خوش ہوگی یہ سوچ کر اس کے دل کو کس قدر تسکین ہوٸی تھی۔ 

              …………………………..                         ”ہاں ہاں میں پہنچ جاٶں گی آرام سے۔ بس اب مجھے تنگ مت کرو۔“ ہوٸی جہاز میں سوار ہونے کے انتظار میں ہال بیٹھی اماں نے غصے سے کہا اور فون رکھ دیا۔”کیا ہوا اماں جی۔“”ارے بیٹا! پہلی بار اکیلے سفر کر رہی ہوں۔ گھر والے پریشان ہیں کہ کہیں اور ہی نہ چلی جاٶں۔“”کراچی کس سے ملنے جارہی ہے؟“”میرا پوتا انجینٸر بنا ہے۔ اس سے ملنے جارہی ہوں۔ عید کا بھی موقع ہے۔ خوشی دوبالا ہوجاٸے گی۔“ بوڑھی آنکھوں میں خوشی کے جانے کتنے دیپ جل رہے تھے۔                    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

  طیارہ کراچی پہنچنے ہی والا تھا۔۔ اپنے پیاروں سے ملنے کی چاہت، اپنی منزل پہ پہنچنے کی جلدی، عید کی خوشیاں منانے کی آرزو اور جانے کتنے ان گنت جذبات تھے جو دلوں میں مچل رہے تھے۔ کوٸی موباٸل میں گیم کھیل کر وقت گزار رہا تھا۔ کوٸی اپنے ساتھ بیٹھے ہم سفر سے محوِ گفتگو تھا۔ کوٸی روزے کی حالت میں اللہ کا ذکر کر رہا تھا۔ غرض ہر ایک اپنے پسندیدہ کام میں مشغول تھا۔۔   لیکن۔۔۔۔۔۔ اچانک یہ کیسی آواز تھی جو سناٸی دی تھی۔ زندگی۔۔۔۔۔ اس کی حقیقت۔۔۔ سب نظروں کے سامنے آگٸی تھی۔ ساری زندگی کیا کیا؟ کیا کھویا کیا پایا؟ ایک لمحے میں زندگی کی سچاٸی سامنے آگٸی۔ جہاز کے انجن نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا یہ دراصل عندیہ تھا کہ اب بس چند منٹوں کی دوری پر منزل ہے۔ منزل۔۔۔۔ حقیقی منزل کہ جس کی تیاری کا جانے کتنوں نے ابھی سوچا بھی نہ تھا۔ بچوں، عورتوں، جوانوں، بوڑھوں کی چینخیں اس وقت قیامت صغری کا منظر پیش کر رہی تھی۔ ہر ایک کے چہرے پہ اب خوشی کی جگہ خوف اور امید نے لے لی تھی۔ امید تھی تو ایک معجزے کی کہ جس کے ہونے سے ان سب کا بیڑا پار ہوجاٸے۔ سامنے کھڑی موت کے خوف نے سب پہ لرزا طاری کردیا تھا۔ ہوا وہ ہی جو تقدیر میں لھ دیا گیا تھا۔ ایک خو ناک دھماکہ اور پھر ایک گہری خاموشی۔۔۔۔۔۔۔ رمضان المبارک کے مہینے میں، جمعے کے دن، سفر کی حالت میں وہ سب  اپنے خالق حقیقی سے جاملے تھے۔  حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”جو شخص اللہ تعالی کی خوش نودی کے لیے ایک دن کا روزہ رکھے اور اس ہی حالت میں مرجاٸے  تو وہ جنت میں ضرور داخل ہوگا۔“ (مسند احمد 23324)
”جو شخص جمعے کے دن مرتا ہے۔ اللہ اسے قبر کے فتنے سے محفوظ رکھتا ہے۔“ ( ترمذی 1074)  مسافروں میں سے جو وزے سے ہوں گے ان کو یہ فضیلت حاصل ہوٸی ہوگی۔۔ جو روزے کی حالت میں ذکر اللہ کرتے ہوٸے اپنے رب سے ملے ہوں گے ان کی تو کیا ہی بات ہوگی۔ حادثاتی موت بھی شہادت ہی ہے۔ جانے والے تو چلے گٸے۔ دنیا کا سفر کرتے کرتے ابدی سفر پہ روانہ ہوگٸے۔ ان کے پیچھے رہ جانے والے۔۔۔۔آہ! ان کے غم کو کم کرنے کے لیے شاید وقت بھی مرہم نہ بن سکے۔ ان کی آنکھیں اب انتظار کرتے کرتے پتھر کی بھی ہوجاٸیں تب بھی ان کے پیارے ان کو واپس نہیں مل سکتے۔ غلطی کس کی تھی؟ یہ سوچنے کے بجاٸے اگر ہم یہ سوچ لیں کہ آج ان پہ اچانک موت کا حملہ ہوا ہے۔۔ کل کو ہم بھی ہوسکتے ہیں۔ وہ تو شہادت کی موت حاصل کرگٸے۔ ہم۔۔۔کیا ہمیں ایمان پہ بھی موت نصیب ہوسکے گی؟ یہ صرف ایک حادثہ تھا۔ ایک الارم تھا ہمیں جگانے کے لیے۔ کہ اب بھی وقت ہے اپنی حقیقی زندگی کی تیاری کرلو۔۔۔ جو لوگ اس حادثے میں دار فانی کوچ کرگٸے ہیں۔ وہ روزے سے تھے یا نہیں، وہ کیا تھے، کیسے تھے۔۔ اللہ پاک ان سب کی مغفرت فرما کر جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرماٸے۔ لواحقین کی صبر جمیل عطا کرے اور ہم سب کو زندگی کی حقیقت سمجھتے ہوٸے اپنے رب کی حضور حاضری دینے کی تیاری کرنے کی توفیق عطا فرماٸے۔ آمین


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامین
35892