Chitral Times

Jul 4, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

روزہ تقوی کی بنیاد ہے …..تحریر سید جواد نقوی (تحریک بیداری امت مصطفٰی)

شیئر کریں:

روزے سے سب سے زیادہ توانائی آجاتی ہے ارادی طور پر قوی جاتا ہے، جسمانی طور پر کمزوری برداشت کرنا ارادی قوت کے بڑھنے کا سبب بنتا ہے اور یہ انسان کی اصل طاقت کا راز ہے ہم سے اکثر جرائم، معصیت، گناہ ارادی قوت کی کمزوری کی وجہ سے سرزد ہوتے ہیں ارادتاً اس فسق کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اس لیے روزہ تقوی کی بنیاد ہے روزے کا ماہ مبارک رمضان اور روزے دار مومن ہے تینوں معنیٰ بہت اہم ہیں، اس کی جزا اللہ کی ذات ہے یا تنہا جزا ہے جو اللہ قبول فرماتا ہے وہ روزہ ہے، یہ تنہا خصوصیت صرف روزے کے اندر ہے۔جن کے روزہ رکھنے میں کوئی رکاوٹ نہیں وہ خود رکاوٹ ہیں، عادتیں رکاوٹ ہیں، روزہ عادتوں کی قید سے آزادی دلاتا ہے۔ جو عادتوں سے نجات پا لے اور ارادے کے ساتھ زندگی بسر کرے جیسے اللہ کا وعدہ ہے۔

اللہ ہمیں حقیقی روزہ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے، اس ماہِ رمضان، ماہِ قرآن، ماہِ صیام میں اپنے نفوس کی تطہیر کی توفیق عطا فرمائے، ماہِ استغفار میں حقیقی استغفار کی توفیق عطا فرمائے، تمام انسانوں کو اپنی بندگی کی توفیق عطا فرمائے اور غفلتوں سے نکال کر اپنی ذات کا قرب عطا فرمائے۔مزید یہ کہ کریمانہ و کرم والارزق ہے یعنی وہ رزق ہے جو اللہ کی طرف سے ان کے لیے ہے اور اس رزق کی خصوصیت یہ ہے کہ اس رزق کا عنوان رزق کریم ہے۔کریم قرآن کریم کی ایک بہت اہم اور خوبصورت اصطلاح ہے جس کی طرف متعدد جگہوں پر اشارہ کیا ہے، یہ اصطلاح ہمارے ترجموں اور بول چال میں اپنا معنی کھو بیٹھی ہے، بہت نچلی سطح پر اس کا ترجمہ و معنی کیا جاتا ہے جبکہ قرآن کریم کے نزدیک اللہ کے اسمائے حسنہ میں سے ایک کریم ہے، قرآن کریم ہے، رسول اللہ کے اوصاف میں سے کریم ہے اور مومنوں کے لیے بھی کریم کا عنوان ذکر کیا گیا ہے اور یہ بہت اعلیٰ وصف ہے، یہ جامع ترین صفت ہے جو تمام اوصاف و کمالات کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔کہ جب مومن درجہ بہ درجہ اعلیٰ صفات پر پہنچتا ہے اور ان کو مکمل کرلیتا ہے تو عنوان کریم پر فائز ہوجاتا ہے۔

یہ ایک آیت نمونے کے طور پرپڑھی ہے کہ قرآن کریم نے انفاق کوایمان کا اور مومن ہونے کا بنیادی رکن قرار دیا ہے۔ نماز کے ساتھ دوسری چیز انفاق ہے جو اثر انسان پر اقامۃ الصلاۃ کا پڑتا ہے وہی انفاق کا بھی پڑتا ہے بلکہ بعض کچھ اور آیات میں اگر ہم غور کریں تو انفاق کا دائرہ تاثیر کے لحاظ سے اقامۃ الصلاۃسے وسیع ہوجاتا ہے کہ اقامۃالصلاۃمیں چہ بسا انسان دوسروں کے لیے اتنااہتمام نہیں کرتا جتنا انفاق کے اندر دوسروں کے لیے یہ اہتمام کرتا ہے۔سمجھنے کی پہلی بات یہ ہے کہ جب قرآن اتنی اہمیت دے کر انفاق کو بیان کررہا ہے اور قرآن کریم کے نزدیک ایمانی زندگی و معاشرہ اور امت مومنہ کے لیے انفاق بنیاد ہے تو اس سے مراد کیا ہے؟ انفاق کہتے کس کو ہیں؟ آیا چوک پر کھڑے ہوئے کسی فقیر کو یہی چند پیسے دیدینا یا اپنے پڑوس میں کسی نادار کی چند ٹکوں سے مدد کردینا یا کسی اور کار خیر میں اپنا حصہ ڈال دینا یہ انفاق کہلاتا ہے؟یہ جو ہم انفاق کے نام پر کر رہے ہیں یعنی اپنا مختصر مال اللہ کی راہ میں نیت الہٰی سے دیدیتے ہیں، یہ انفاق ہے؟مومن کی علامت یہ ہے کہ جب اس کے اوپر اللہ کی آیات تلاوت کی جائیں تو اس کے ایمان میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ آیات ایسے نہیں سنتا جیسے خبریں سن رہا ہے یا جیسے امتحان کے لیے درس پڑھ رہا ہے۔

اللہ کی آیات کا نتیجہ ایمان میں اضافہ ہے۔مزید یہ ہے کہ مومن وہ ہے جو زندگی کے ہر مرحلے اور ہر قدم پر اللہ کی ذات پر بھروسہ کرتا ہے اور اللہ کے علاوہ کسی کو متبادل و جانشین نہیں مانتا، یہ نہیں کہتا کہ اللہ بھی ہے اور اللہ کے علاوہ اور بھی بہت سارے منابع ہیں جن کا میں سہارا لے سکتا ہوں۔ ہماری جو تہذیب ہے جس میں ہم گھر میں پڑھتے ہیں تو اس میں سب سے پہلے ہمیں ماں باپ پر بھروسہ سکھایا جاتا ہے کہ ہر چیز میں ماں باپ پر بھروسہ کرو خود ماں باپ یہ نہیں سکھاتے چونکہ وہ خود اللہ پر بھروسہ نہیں کررہے ہوتے ہیں لہٰذا جب بچہ چھوٹا ہوتا ہے تو بچے کو سکھاتا ہیں کہ ماں باپ پر بھروسہ کریں اور جب ماں باپ بوڑھے اور بچہ جوان ہوجاتا ہے تو پھر الٹ ہوجاتا ہے۔کہ بچہ ماں باپ کا بھروسہ بن جاتا ہے اور ماں باپ سارا اعتماد بچے پر کرتے ہیں۔ اسی طرح ہمیں کوئی بھی موثر عنصر اپنی زندگی میں نظر آئے تو ہم فوراً اللہ کی جگہ اسی کو لے لیتے ہیں جبکہ مومن ایسا نہیں ہوتا، مومن فقط اللہ کی ذات اور اللہ کے نظام پر بھروسہ کرتا ہے۔قرآن کے ترجموں، تفاسیر میں یا عام معنی جو اس کا رائج ہوگیا ہے وہ یہ کہ”نماز پڑھتے ہیں“۔ پہلے یہ اشارہ کیا تھا کہ چند چیزوں کا ترجمہ کردیا گیا ہے جیسے صوم کا ترجمہ روزہ کردیا ہے اور صلاۃ کا ترجمہ نماز کردیا ہے۔

لیکن کچھ چیزوں کا ترجمہ نہیں کیا ہے او ر اچھا کیا ہے جیسے زکوٰۃ، خمس اور امربالمعروف و نہی عن المنکر وغیرہ کا ترجمہ نہیں کیا گیا ہے جو درست کام کیا گیا ہے۔جن قرآنی اصطلاحات و دینی معارف کا کسی اور زبان میں ترجمہ نہیں ہوا ہے۔بلکہ عربی و قرآن اصطلاح ہی باقی رکھی گئی ہے اور اس کی تفسیر کی گئی ہے یہ اچھا کا م کیا گیا ہے، یہ عالمانہ کام ہے۔ ترجمہ کرکے اس کے اندر تھوڑا سا کچھ اور شائبہ ڈال دیا ہے یعنی فہم کو مشکل بنادیا گیا ہے، صلاۃ کی جگہ نماز اور اقامۃ کی جگہ پڑھنا کردیا ہے دونوں نے اس حقیقت کو دشوار کردیا ہے قرآن سمجھانا چاہ رہا ہے۔ہم حتی المقدور یہی اصطلاح قائم رکھیں:


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
47665