Chitral Times

Jun 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

رودادِ بامِ دنیا – چاپلوسی، ہٹ دھرمی اور غذرایکسپر یس وے – تحریر: شمس الحق نوازش غذری

شیئر کریں:

غذر ایکسپریس وے کی زد میں آنے والی اراضیات کو کوڑی کے دام ہتھیانے میں سرکار کی معاونت اور عوام کی ملامت کے واسطے حکومت کے حصہ داروں کا آلہ کار بننے میں جو لوگ پیش پیش ہیں۔ اُن میں اکثریت اُن کی ہے جو نسبت اور تعلق کی بنیاد پر اپنی آراء کا تعین کرتے ہیں۔ زمینی حقائق واضح انداز میں نظروں کے سامنے موجود ہونے کے باؤجود بھی لگاؤ اور میلان کے محور کے طواف کو عبادت کا درجہ دیتے ہیں۔ اُن کی قوتِ مشاہدہ قابلِ اعتبار ہے اور نہ ہی قوتِ فیصلہ اُن کی مرضی کے تابع۔۔۔۔ایسے لوگ اوروں کی خوشامد کے جنوں میں اپنے سایے سے بھی ضد کرنے لگ جاتے ہیں اور اپنے اندر کے انسان سے بھی دست و گریباں رہتے ہیں۔ حالتِ نشہ میں کسی کے سوال سے واسطہ پڑے تو صحیح جواب ممکن ہے ورنہ اُن کا کردار اور گفتار طمع و حرص کے منبع سے چپکی رہتی ہے۔ حقائق کو مرضی کی عینک سے دیکھ کر اوروں کے مزاج کے مطابق تاویل اور تعبیر تلاش کرنا اس قسم کے لوگوں کی زندگی کا اصل منشاء اور مقصود رہا ہے۔ جن لوگوں کو ضمیر کی ملامت کا احساس نہیں یا جن کی خاکی بدن میں ضمیر کا وجود ہی نہیں۔ ایسے لوگ غیروں کی جائز اور ناجائز خواہشات کی تسکین کے لیے قوموں کی اجتماعی مفادات کو داؤ پر لگانے سے کتراتے ہی نہیں۔ غیروں کی عظمت کے گن گانے کے عوض خوشنودی کے طلب گاروں میں اپنوں کے دکھ درد کو محسوس کرنے کا مادہ کب کا دم توڑ چکا ہوتا ہے۔


ضمیر سے محروم انسانوں کو اجتماعی مفادات اور اجتماعیت کی آہ بکا سے کوئی سروکار ہی نہیں ہوتا۔ یہ اوروں کی خواہشات کے تکمیل کے واسطے اپنوں کو حالات کا رُخ حقیقت کے بالکل برعکس پیش کرنے کا تجربہ رکھتے ہیں۔ یہ کہیں بھیڑو کے روپ میں بھڑیا کا کردار ادا کرتے ہیں تو کہیں بھیڑیاکے روپ میں بھیڑوکی نقالی میں جگ ہنسائی کا سبب بن جاتے ہیں۔ اُن کی اصل کمین گاہ کہیں اور ہوتی ہے لیکن پیشے سے متعلق فنون کے مظاہرے کے لیے چھتری کہیں اور تلاش کرتے ہیں۔ ظاہر و باطن میں اس ڈھنگ کے متضاد کردار کے چاپلوس خایہ برداروں کے لیے اردو لغت میں لفظ ”منافق“ سے بھی کوئی بڑا لفظ ہونا چاہئے تھا۔
ایسے لوگوں کے کارتوت کی وجہ سے انسانی مسائل زہر آلود بن جاتے ہیں۔ یہی مسائل جب سنسنی خیزی کی جانب رُخ کرتے ہیں تو مسائل کا شکار انسانوں کے جذبے سے کھیلنے والے یہ فتنہ و شر کے پروردہ منظر عام سے ایسے غائب ہوجاتے ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔۔۔۔ انسانوں کے انتہائی بنیادی اور حقیقی مسائل سے روگردانی انسانوں کو انقلاب کی راہ پر دالتا ہے ہر ایکشن کا ری ایکشن فطری بھی ہے اور قانون ِ سائنسی بھی۔۔۔ کسی کو غم میں مبتلا کرنے کے ساتھ غم سے نڈھال انسان کے سامنے ڈرم بجایا جائے تو ردِ عمل ملائم اور لطیف ہوگا یا سنگین اور غضب ناک۔۔۔


انسانوں کی وراثتی جائیداد پر ڈاکہ بھی ہو۔۔۔ اور دفاع کی صورت میں سبق سیکھانے کی دھمکی بھی۔۔۔ماضی میں انسانیت کے ساتھ اس قسم کی ناروا سلوک نے انسانی جذبوں کو بھڑکتی ہوئی آتش کے شعلوں کی طرح بھڑکاتا رہا ہے۔ تاریخ میں چنگاریوں کے ساتھ طفلانہ طرز میں کھیلنے والے ہی گھر بار کو راکھ کا ڈھیر بنانے کا سبب خود بنتے رہے ہیں۔ اکثر اوقات یہ ہوا۔ مسائل اتنے پیچیدہ نہیں، جتنا مسائل سے دوچار انسانوں کے ساتھ چوہے کی جان کندنی (کنی) کے دوران بلی کی طرح تماشابین کا کردار ادا کیا گیا۔ مشکلات و مصائب کے بوجھ تلے دبے انسان متعلقہ اداروں کی طرف سے چشم پوشی اور روگردانی کو بے رُخی ہی نہیں اپنے خلاف بغض اور عداوت بھی سمجھتے ہیں۔ متعلقہ ذمہ دار اداروں کی ڈرامائی تجاہل عارفانہ ہی مسائل کو گھمبیر بنا دیتی ہے۔ جہاں متعلقہ اداروں کو عمومی طور پر ذمہ دارانہ کردار ادا کرنے کی عادت نہیں ہوتی وہاں کے انسان مسائل سے قبل کی افادیت کو اہمیت دینے کا مطالبہ کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ اس کے بعد اُن کے ممکنہ حل کے لیے ریاست اور ریاستی اداروں سے مادرانہ شفقت کی اُمید رکھتے ہیں۔


یہاں کے بعض انتظامی ادارے اور انتظامی اداروں کے اہل کار امن و امان کے شیدائیوں کو امن کا کریڈٹ دینے کے بجائے پرامن ماحول کے قیام کو بودا تصور کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ حالانکہ امن امان کو قائم و دائم رکھنا اس دور میں سب سے بڑا چیلنج ہے۔ مہذب اور شائستہ مزاج کے لوگ ہی امن و امان کے بقاء کی ضمانت ہیں۔ لیکن گنوار اور جاہل سوسائٹی کے نزدیگ نرم خوئی اور صلح جوئی بزدلی اور کمزوری کی علامت ہیں۔ ایسی ذہنیت کے لوگوں کو شاعر مشرق نے اپنے ان اشعار کے ذریعے سمجھانے کی کوشش کی ہیں۔
ہو حلقہئ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزِم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن


اس خطے میں امن و امان کی بقاء کو دوام بخشنے والے ازل سے فولادی کردار کے فن سے آراستہ و پیراستہ رہے ہیں۔ لیکن فولادی کردار کا ظہور ایسے انسانوں سے اُس وقت سرزد ہوتا ہے جب رزم گاہ میں معرکہ حق و باطل کے درمیان سجے۔


اگر متوقع غذر ایکسپریس وے کے ساتھ ساتھ قدم قدم میں سبز ہلالی پرچم یہاں کے باسیوں کی دلیری اور جوانمردی کے ثبوتِ استحقاق کے لیے کافی نہیں تو کیا حلقہئ یاراں میں دُشمنی مول لینا اور خونریزی برپا کردینا شجاعت و بہادری کی نشانی ہے۔
غیر مذہب انسانوں کے سماج میں صُلح کُل اور بے تعصب انسانوں کو کمزوری کی نگاہ سے دیکھا جانا کوئی معیوب عمل نہیں۔ کیونکہ غیر مہذب نامی براعظم میں لوگ ہی وہی رہتے ہیں جن کا طرزِ عمل جاہلانہ اور وہشیانہ ہوتا ہے۔ سوال یہ نہیں۔۔۔۔کہ اُس قسم کی سماج میں اس قسم کی سوچ پنپتے کیوں ہیں؟ بلکہ ستم ظریفی یہ ہے۔۔۔۔۔۔اگر ریاست کے بعض انتظامی ادارے بھی اپنے قول و فعل سے حلقہئ یاراں میں بریشم مزاج کے حاملین کو کم ہمت اور ڈرپوک تصور کرنے لگے۔ اگر شریفوں کی شرافت کو ذمہ دار اداروں میں بھی کمزوری کہنے کا مزاج پڑوان چڑھے اور اِن وجوہات کی بناء پر بجائے حقوق دینے کے ملکیتی اور پشتنی جائیدادیں من چاہے خواہش کے مطابق نیلام کرنے کی ٹھان لے۔ تو اس وقت متعلقہ انتظامی اہلکاروں کے در میں وفود کی صورت میں قطاروں میں کھڑے ہوکر ملتجی بننے کی ضرورت ہے۔ یا میدانِ عمل میں جارحانہ انداز میں جارح بننے کی۔۔۔۔؟


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
57335