Chitral Times

Jul 4, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

رمضان پیکیج۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔محمد شریف شکیب

شیئر کریں:

حکومت نے رمضان المبارک کی آمد پر عوام کو اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں ریلیف دینے کے لئے سرکاری سٹورز سے رمضان پیکج شروع کردیا ہے۔ وفاقی حکومت کی طرف سے رمضان پیکج کے لئے ڈھائی ارب روپے کی سبسڈی دی گئی ہے۔یوٹیلیٹی اسٹورز پر 32 اشیائے خوردونوش مارکیٹ ریٹ سے 5 سے 25 فیصد سستے نرخوں پر عوام کو فراہم کرنے کا اعلان کیاگیا ہے۔سرکاری دستاویز کے مطابق رمضان پیکج کے تحت چینی 68 روپے، گھی 175 روپے فی کلو دستیاب ہے۔ مشروبات کی قیمتوں میں 15 فیصد کمی کر دی گئی ہے۔رمضان پیکیج میں کھجور، چاول، بیسن، چائے دالوں اور دیگر اہم اشیاء کی رعایتی نرخوں پر دستیابی ممکن بنائی جائے گی۔باسمتی چاول 135اورٹوٹا باسمتی 75روپے فی کلوہوگی،گرم مصالحہ پاؤڈر،لال مرچ، ہلدی، دھنیا پاؤڈربھی پانچ سے دس روپے کم قیمت پر دستیاب ہوں گے۔سرکاری سٹور پربیسن140، دال ماش255روپے فی کلو ہوگی اور20 کلو کے آٹے کے تھیلے کی قیمت 800 روپے مقرر کی گئی ہے۔کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاون اور رمضان المبارک کی آمد پر حکومت کی طرف سے نقد امداد کے بعد رعایتی نرخوں پر اشیائے ضروریہ کی فراہمی کا فیصلہ قابل ستائش ہے۔ تاہم اس فیصلے پر عمل درآمد ہنوز سوالیہ نشان ہے۔قومی وسائل سے عوام خصوصاً غریبوں کے لئے ریلیف دینے کا اعلان تو کیا جاتا ہے مگر اس کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچ پاتے۔ سرکاری سٹورز پر دیگر تمام چیزیں تو دستیاب ہوتی ہیں لیکن رمضان پیکج کی اشیاء اکثر غائب ہوتی ہیں سرکاری سٹورز کے لئے آنے والی چینی، چاول، دالیں، گھی، کوکنگ آئل اور دیگر روزمرہ ضرورت کی چیزیں اوپن مارکیٹ میں فروخت کئے جانے کی شکایات کافی پرانی ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ کام سرکاری حکام کی ملی بھگت کے بغیر ممکن نہیں۔وفاقی کابینہ نے ذخیرہ اندوزی، ناجائز منافع خوری اور ملاوٹ کے خلاف آرڈیننس تو منظور کرلیا ہے جس کے تحت اشیاء کی مصنوعی قلت پیدا کرنے کے لئے انہیں گوداموں میں ذخیرہ کرنے والوں کو قید اور جرمانے کے علاوہ برآمد ہونے والا نصف مال بحق سرکار ضبط کیا جائے گا۔ لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ قانون صرف وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے لئے ہے کیونکہ وہاں بڑے سیاست دان، حکمران، بڑے افسران، سرمایہ دار اور جاگیردار رہتے ہیں۔ان لوگوں کے لئے آٹا، دال، سبزی، مرچ مصالحہ اور چاول پانچ دس روپے مہنگا ہونا بھی کوئی معنی نہیں رکھتا۔یہ آرڈیننس کراچی، حیدر آباد، سکھر، کوئٹہ، فیصل آباد، ملتان، لاہور، راولپنڈی، پشاور، نوشہرہ، صوابی، چارسدہ، ایبٹ آباد، سوات، وزیرستان، باجوڑ، دیراور چترال میں بھی نافذ کرنا چاہئے وہاں کے غریب لوگوں کو اس کی زیادہ ضرورت ہے۔لاک ڈاون سے متاثر ہونے والے مزدور پیشہ طبقے کے لئے احساس کیش پروگرام معاشی بحران کے باوجود حکومت کی طرف سے غریبوں کے لئے بڑا ریلیف ہے ملک بھر میں اب تک بارہ ہزار فی خاندان کے حساب سے پچاس ارب روپے تقسیم کئے جاچکے ہیں لیکن تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے پچاس فیصد غیر مستحق لوگوں نے غریبوں کے حق پر ڈاکہ مارا ہے۔ دیہی علاقوں میں بے نظیر انکم سپورٹ سے استفادہ کرنے والوں کو احساس پروگرام کا مستحق قرار دیا گیا ہے حالانکہ برسوں سے یہ امدادی رقم وصول کرنے والے ساٹھ فیصد لوگ غیر مستحق ہیں۔سندھ اور بعض دیگر علاقوں میں بی آئی ایس پی کی امداد وصول کرنے والے اعلیٰ افسروں کے نام تو فہرست سے خارج کردیئے گئے لیکن کروڑوں کی جائیدادیں اور لاکھوں روپے ماہانہ کمانے والے آج بھی تین ہزار روپے کی امداد وصول کرکے بیواوں، یتیموں اور بے سہارا خواتین کے حق پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں۔کورونا وائرس کی صورت میں عالمی وباء کے خوف نے انسانی معاشرے میں بہت کچھ بدل دیا مگر ہماری بے حسی کو وائرس کا خوف بھی ختم نہ کرسکا۔ ہم لوگ صرف سخت ترین سزاوں کے ڈر سے ہی قانون کی پاسداری کرتے ہیں اس لئے حکومت کو چاہئے کہ غریبوں کے لئے انہوں نے نامساعد حالات کے باوجود جو ریلیف پیکج دیا ہے وہ مستحق لوگوں تک پہنچ سکے اور ان کے دکھوں کا کچھ نہ کچھ مداوا ہوسکے۔احساس کفالت سکیم کی رقم تقسیم کرنے کے لئے ٹائیگرفورس کی خدمات حاصل کرنا ضروری ہے۔ رضاکاروں کی اس فوج کی نگرانی کے لئے فوج، پولیس اور نادرا کے اہلکاروں کی خدمات بھی حاصل کی جاسکتی ہیں۔امدادی رقم کی شفاف تقسیم سے ہی غریبوں کو ریلیف مل سکتا ہے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
34465