Chitral Times

Jun 27, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

ذرا سوچئے……خود کُشی کرنے والے کا بھی کوئی قاتل ضرور ہوتا ہے……..تحریر: ہما حیات

Posted on
شیئر کریں:

لیبارٹی اور لیکچر روم کے درمیان بھاگ دوڑ میں ضرور میں نے اپنی تحریر بند کر دی ہو لیکن آنکھ اور کان بند کرنا ممکن نہیں ہے۔ اتنے مشکل وقت میں جہاں انسان خود کو وقت نہیں دے پاتا، ۹ گھنٹے کی مسلسل کام کے بعدجب تھک ہار کر بھی اسکی نیند حرام ہو جائے تو سمجھ جانا چاہئے کہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے کہ اسے نظر انداز کیا جاسکے۔ آپ کسی گہری سوچ میں ہوں اور کوئی اچانک آپ کے کندھے پر ہاتھ رکھ دے تو آپ کے تاثر کیا ہونگے؟؟
خود کشی کے مسلے پر اس سے پہلے بھی بات ہو چکی ہے اور اسکے لئے کئی حل بھی تجویز کئے جا چکے ہیں۔ بہت سے سوچ اور بہت سارے خیالات۔ کسی نے غربت، کسی نے ٹکنالوجی کا استعمال، تو کسی نے والدین کی تربیت کو مورد الزام ٹھرایا اور ان خیالات کے مطابق مختلف حل پیش کئے۔ لیکن افسوس نتیجہ کچھ ثابت نہ ہو سکا۔ یہ مسلہ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔
کسی معاشرے میں رہ کر اسے مکمل طور پر نظر انداز کرنا ناممکن ہے پر اس معاشرے میں رہ کر اسے برداشت کرنا بھی ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ میں کوئی فلاسفر نہیں ہوں نہ کوئی ماہر نفسیات کہ میں انسان کی فطرت کے ہر پہلو کو جان سکوں لیکن جتنی میری عمر ہے اس میں میرا اتنا تجربہ ضرور ہوا ہے کہ انسان کی ایک فطرت یہ بھی ہے کہ وہ آپ کے مثبت کاموں سے زیادہ منفی کاموں پر غور کرتا ہے یا آسان لفظوں میں یہ کہوں کہ اچھائی سے زیادہ برائی پر توجہ دیتا ہے۔ اب کوئی انسان ایسا بھی نہیں ہے جو یہ کہے کہ میں نے آج تک کوئی برائی نہیں کی ہے۔ایسے بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو جان بوجھ کر اور سوچ سمجھ کر کسی کیساتھ برا کرتے ہیں۔ ایسے بہت کم ہوتے ہیں۔ لیکن کسی کی غلطی کو اس کی برائی کہنا بھی مناسب نہیں ہوگا۔
آپ کے ارد گرد ایسے بہت سے لوگ رہتے ہیں جو بہت حساس ہوتے ہیں جو آپ کی بات کو برداشت نہیں کر سکتے اور ایسے ہی لوگ اکثر نادانی میں اپنی زندگی ختم کر دیتے ہیں۔اور اب قصور سارا ان کا بھی نہیں ہے۔
میں صنف نازک ضرور ہوں لیکن معاشرے کے حالات اور والدین کی بہترین تربیت نے میرے اداروں کو قوی، دل کو مظبوط اور صبر کو بڑھا دیا ہے۔لیکن ہر کسی کی کہانی ہما حیات کی نہیں ہوتی۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو آپ کی تنقید تو دور مذاق بھی برداشت نہیں کر سکتے۔

اسلئے اب وقت آگیا ہے کہ کوئی بڑا قدم لینے سے بہتر ہے کہ بنیاد سے ہی شروغ کیا جائے۔خود سے شروغ کریں آج ہی شروغ کریں۔ اپنی سوچ کو مثبت رکھیں۔ کسی کی جدت پسندی کو لیبریلزم کا نام نہ دیں۔ اور نہ ہی ان دونوں کا اشتراک کریں۔خود یہ غور کریں کہیں آپ کسی کی خود کشی کی وجہ تو نہیں بن رہے ہیں؟؟ کہیں آپ نہ چاہتے ہوئے بھی کسی کے ساتھ بُرا تو نہیں کر رہے ہیں؟؟ کہیں آپ اصلاح کے ململ میں لپیٹ کر لفظوں کے جنجر تو نہیں مار رہے ہیں؟؟ اور پھر ذرا سو چئیے۔۔۔۔۔۔۔ ذندگیاں یوں ہی ختم نہیں ہوتیں۔ خود کُشی کرنے والے کا بھی کوئی قاتل ضرور ہوتا ہے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
23502