Chitral Times

Jun 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

ذرا سوچئے۔ روڈ بلاک ۔ تحریر: ہما حیات سید، چترال

شیئر کریں:

ذرا سوچئے۔ روڈ بلاک ۔ تحریر: ہما حیات سید، چترال

“پتھروں اج میرے سر پہ برستے کیوں ہو؟” یہ غزل ساز میں جب بجتا ہے تو کانوں کو راحت ملتی ہے لیکن اگر حقیقت میں یہ واقعہ پیش اۓ تو شاید ہی اپ اپنی دل کی دھڑکنوں پر غور کر پائیں، کانوں کی راحت تو دور کی بات۔

واقعہ کچھ یوں تھا کہ گزشتہ دن  یعنی 30 جون کو مروئی کے مقام پر عوام کا ایک بڑا احتجاج تھا، جس میں ان کے بجلی کے لوڈشیڈنگ کےحوالے سے کچھ مطالبات تھے جو منوانے کے لیے انھوں نے سڑک بند کیا ہوا تھا۔

مجھے ان کے احتجاج پر کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن جو رویہ میں نے اس دن دیکھا تو مجھے بہت افسوس ہوا۔یہ احتجاج صبح 7 بجے سے شام 5 بجے تک جاری رہا۔ 11 بجے کے قریب ہم مروئی پہنچے، 12 بجے تک ہم کڑی دھوپ میں انتظار کیا۔ میرے ساتھ بڑی بہن بھی موجود تھی۔ وہ رات کی پشاور سے نکلی ہوئی تھی اور صبح چترال پہنچی تھی۔ ایک تو سفر کی تھکن، اوپر سے کڑی دھوپ میں گاڑی میں انتظار سے اس کی حالت اور خراب ہو گئی تو میں نے کہا کہ چلو گاڑی اگے نہیں چھوڑ رہے ہم پیدل تھوڑا اگے چل کر گاڑی کا بندوبست کرتے ہیں۔ انھوں نے ہامی بھر لی اور میرے ساتھ چل پڑی۔ تھوڑا اگے اۓ تو سڑک سنسان تھی۔ ہم تھوڑا اور اگے کیا اۓ اپر سے پہاڑ گرنا شروع ہو گئے۔ اوپر دیکھا تو کچھ نوجوان اوپر سے بھاری پتھر گرا رہے تھے اور ہمیں دھمکی دے رہے تھے کہ اگے مت اؤ۔ اتنے میں ایک نوجوان اگے سے اۓ تو انھوں نے پتھر گرانا بند کر دیا۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوۓ ہم بھی اگے بڑھے۔ جب اس نوجوان نے سڑک پار کیا تو ہم سڑک کے بیچ پہنچ چکے تھے۔ چونکہ بڑی بہن کی طبیعت زیادہ خراب تھی اس لیے وہ اہستہ چل رہی تھی۔ اتنے میں اس نوجوان نے زور سے اواز لگائی “پھتر گراؤ۔ انسان کے لیے سب سے قیمتی اس کی جان ہوتی ہے لیکن اس سے بھی بڑھ کر اگر کسی اور کی جان کی ذمہ داری اپ پر ہو اور اپ کے کانوں میں اواز گونجے “پتھر گراؤ” تو اپ میری کیفیت کا اندازہ خود لگا لیں۔

 

اتنے میں پھر پتھر گرنا شروع ہو گئے۔ میں نے ڈوپٹے کا پلو سنبھالا، بڑی بہن کا ہاتھ پکڑا اور کڑی دھوپ میں چپل پہن کر گرم پتھروں پر ایسی دوڑ لگائی کہ بعد میں جب ٹھنڈے پانی میں پیر رکھا تو اندازہ ہوا کہ کربلا میں اہل بیت پر کتنا ظلم ہوا ہو گا۔ جب سڑک پار کیا اور خود پر غور کیا تو پتہ چلا کہ پیاس سے میرے حلق میں کانٹے چبھ رہے ہیں اور دل میں دوڑنے کی وجہ سے تیز جلن ہو رہی ہے سانس بحال کرنے کے لیے تھوڑا روکی تو ایک اور مصیبت سامنے منتظر تھی۔ سر اٹھا کر دیکھا تو اہتجاج میں سڑک پر بیٹھے لوگ بلند اواز میں ہوا میں ڈنڈے لہرا کر ہمیں اوپس جانے کا کہ رہے تھے۔ اب اگے جائیں تو لوگوں کا ہجوم، پیچھے موڑ جائیں تو بھاری پتھر۔ میں نے ان لوگوں دیکھ کر سورۃ الناس کی کتنی بار تلاوت کی ہو گی مجھے نہیں پتہ لیکن جب ہوش ایا تو پتہ چلا کہ کافی دور نکل انے کے بعد بھی میری زبان پر سورۃ الناس کی تلاوت جاری تھی۔ کافی دور نکل کر بہن پر غور کیا جس کا ہاتھ اب بھی میرے ہاتھ میں تھا۔ خوف سے اس کا چہرہ زرد تھا اور اس کے انکھوں میں مو ٹے انسو تھے جنھیں وہ گرنے نہیں دے رہی تھی گویا بڑی ہونے کا احساس جتا کر میری ہمت بند رہی تھی۔

 

ایسی صورت حال میں ایک دوسرے کے گلے مل کر رونا انسانی فطرت اور موقع کی مناسبت سے بالکل درست تھا۔پر امن احتجاج اپ کا حق ہے۔ سڑک بند کرنا درست ہے یا نہیں اس پر میں کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتی۔ لیکن صنف نازک پر پتھر گرانا کیا اپ کو زیب دیتا ہے؟ کیا عورتوں کو جان کی دھمکی دینا ہمارے تہذیب ہے؟ نہیں، بالکل نہیں. یہ نہ ہمیں زیب دیتا ہے نہ ہماری تہذیب ہے۔ بعد میں مجھے پتہ چلا کہ اوپر پہاڑ پر موجود ان نوجوانوں کے ساتھ کچھ ذہنی طور پر معذور افراد بھی موجود تھے۔ کیا ایسے لوگوں کو ساتھ لے کر پتھر گرانا انسانی جانوں کے ساتھ کھلوار نہیں ہے؟ اور پھر ذرا سوچئے… حکومت شاید اپ کے مطالبات مان لے اور اپ کے گھروں کی تاریکی دور کرے لیکن اپ کے زہنوں پر مسلط تاریکی کا کیا ہوگا؟


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
63090