Chitral Times

Jul 3, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

دھڑکنوں کی زبان – کیا ہمارے پاس صرف قومی ترانہ رہ گیا ہے؟ – محمد جاوید حیات

Posted on
شیئر کریں:

دھڑکنوں کی زبان – کیا ہمارے پاس صرف قومی ترانہ رہ گیا ہے؟ – محمد جاوید حیات

جی ہاں جب ہم ایک زندہ قوم کی حیثیت سے اپنے لیے ایک الگ وطن حاصل کر رہے تھے تو ہمارا نظریہ ، ہمارا نصب العین ، ہمارا عزم ، ہمارے خواب اور ارادے کچھ اور تھے اب آہستہ آہستہ ان میں سے کوٸی چیز ہم میں نظر نہیں آتی ایک ایک کرکے وہ چیزیں مٹتی گٸیں ۔اب ہمارے پاس صرف قومی ترانہ رہ گیا ہے جو حافظ جالندھری کا ہمیں عطا کیا ہوا ہے وہ جب یہ تخلیق کررہا تھا تو وہ شاید سراپا جذبہ تھا، خلوص تھا اس لیے اس کے ہر ہر لفظ سے جذبے کی خوشبو آتی ہے باقی کوٸی چیز ایسی نہیں رہی ۔اگر ہمارے تھری پیس میں ملبوس وزیر اعظم سے کوٸی پوچھے کہ تمہارا قومی لباس کیا ہے ؟ اس کے پاس کوٸی جواب نہ ہو ہماری نوجوان نسل شلوار قمیص میں شرم محسوس کرتی ہے ٹراوزر میں اسے فخر محسوس ہوتا ہے۔ تعلیمی اداروں کی پہچان پینٹ شارٹ ہے۔ جوانی کی شان، عورت کی خوبصورتی پینٹ شارٹ ہے ۔ہماری قومی زبان کب کے مرچکی ہے وہ دفتروں ، تعلیمی اداروں ، پارلیمنٹ ، تقریبات وغیرہ میں بہت پہلے مر چکی تھی اب عام بول چال ، ریڈیو ،ٹی وی باورچی خانوں ،دکانوں ، بازاروں میں بھی مر چکی ہے۔

 

کوٸی ان پڑھ عورت مرد تک بولتے ہوۓ انگریزی لفظ استعمال کرے گا حالانکہ اس کی زبان میں اسان لفظ ہوگا یہ لفظ اس کو آتا بھی ہوگا ۔وہ ٹنشن کہے گا ۔رسٹ کہے گا ۔رپلاٸی کہے گا ۔بیلنس کہے گا ۔ڈش کہے گا ۔ لیکن اپنی زبان میں بے چینی ، آرام ، جواب ، باقی ماندہ اور کھانا نہیں کہے گا ۔۔قومی عصبیت ،محبت ، اخلاص، مروت ختم ہو چکی ہے۔ درندگی کا بول بلا ہے ۔ امیر غریب کو کچل دیتا ہے۔ بیٹا باپ کا گلا دباتا ہے۔ آقا نوکری کو پیٹ پیٹ کر اس کا کچومر نکالتا ہے ۔عدل کا جنازہ نکلا ہوا ہے ۔انصاف کی دھاٸی دینے والا رل رہا ہے عدالت لندا بازار ہے جہاں انصاف کا نیلام ہوتا ہے ۔زبردست کی سنی جاتی ہے زیردست خاک میں مل جاتا ہے ۔محافظ پہ شک کیا جاتا ہے۔ پاسبان سے اعتبار اٹھ گیا ہے ۔استاد جھوٹ بولتا یے کلاس روم میں جو درس دیتا ہے وہ عملی زندگی میں کہیں نظر نہیں آتی ۔طلبا حیران و ششدر ہیں استاد سچ پڑھاتا ہے لیکن خود اس کا عملی نمونہ نہیں ۔استاد محنت اور کھرے پن کا درس دیتا ہے لیکن ہر دھوکے فریب میں خود آگے آگے ہے ۔چوری کی مزمت کرتا رہتا ہے لیکن امتحان کے ہال میں نقل کراتا ہے میرٹ کے لیےرشوتیں دیتا ہے انٹرویو میں کوٸی راستہ نکالتا ہے ۔

 

ڈاکٹر مریضوں کی جانوں سے کھیلتا ہے ۔اپنی کلینک کی کامیابی اور رابطہ کمپنیوں کی ترقی کے لیے کتنے تڑپتی جانوں کو برباد کر دیتا ہے ۔کرپٹ یعنی بدعنواں کا ہاتھ کوٸی نہیں روکتا اس کی حوصلہ افزاٸی ہوتی ہے ۔ہر ایک کوشش کرکے دوسرے سے ہاتھ کرجاتا ہے ہر طرف افراتفرای ہے۔کوٸی یہ نہیں سوچتا کہ میں کسی ملک میں رہتا ہوں اس کے ساتھ وفا کروں اس کی ترقی میری پہچان ہے اردگرد سب لوگ ترقی کر گۓ میں ڈوبتا جا رہا ہوں ۔میرے ملک کے ایک سرے سے دریا بہنا شروع ہوتا ہےاور دوسرے سرے میں سمندر میں گرتا ہے اس پانی کو اللہ کے اس عظیم عطیے کو استعمال میں لاٶں ۔میرے ملک میں زرعی پیداوار کی حد نہیں اس پہ توجہ دوں۔ روس اپنی خراب گندم کو سمندر میں ڈالنے کا حکم دیتا ہے لیکن اس کے پالیسی ساز کہتے ہیں کہ دنیا میں پاکستان نام کا ایک ملک ہے ہم یہ گندم اس کو اونے پونے بھیجدیں انھوں نےہمیں بھیجدیا ۔ ہم ”روس سے سستی گندم “ کہہ کر جشن مناتے رہے ۔

 

پوری دنیا میں اتنی نوعیت کے پھل پیدا نہیں ہوتے جتنی یہاں لیکن ان کی قدر کرنے والا کوٸی نہیں ۔اعلی قسم کا چاول ، دالیں یہاں پیدا ہوتی ہیں لیکن ان کو سنبھال کر دیانت سے بیج کر قومی خزانے میں جمع کرنے والا کوٸی نہیں ۔سال میں چار موسم اپنے جوبن پر ہوتے ہیں لیکن ہم بھاگ کر دنیا کے اس کونے میں پہنچ جاتے ہیں جہاں لوگ یا تو بہار کو ترستے ہیں یاخزان کی آرزو کرتے ہیں ۔اللہ نے ہمیں ہر نعمت سے نوازا ہے البتہ ایک شکر، سچاٸی، دیانت ، صداقت ، خلوص اور غیرت کی نعمت ہم سے چھین لی ہے ۔ہمیں اپنی سر زمین پہ فخر نہیں ۔دنیا کی باضمیر قومیں اپنی سر زمین کے لیے مرتی ہیں یہ ان کی غیرت کا سوال ہے۔ یہ ان کے لیے زندگی اور موت کا مسلہ ہے ۔ہم ایک دوسرے کو چور کہہ کر لذت حاصل کرتے ہیں ۔ہم پروپگنڈے کو سیاست کہتے ہیں ۔منافقت اور دھندوں کو خدمت کہتے ہیں دھوکہ دینے کو ہوشیاری کہتے ہیں ۔یہ اللہ کے نام پہ بنا تھا بس اللہ کی طرف سے کوٸی مسیحا ، کوٸی غیرت کوٸی انقلاب ہی آۓ ورنہ تو ہمارے صرف قومی ترانہ رہ گیا ہے ۔۔۔پاک سر زمین شادی باد ۔۔۔۔۔کشور حسین شادی باد


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
77351