Chitral Times

Jul 3, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

دھڑکنوں کی زبان – ”بورڈ کے امتحانات اور ہمارے بچوں کے حاصل کردہ نمبر“ – محمد جاوید حیات

Posted on
شیئر کریں:

دھڑکنوں کی زبان – ”بورڈ کے امتحانات اور ہمارے بچوں کے حاصل کردہ نمبر“ – محمد جاوید حیات

کسی زمانے میں جب ہم امتحان دے رہےتھے تو بمشکل پاس ہوتے اور فرسٹ ڈوژن کی بہت بڑی اہمیت تھی۔لوگ مزے لے لے کر آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر کہتے کہ فلان فرسٹ ڈوژن میٹرک ہے ۔اس دور میں اوراس سے پہلے تعلیم میں دھوکے کا عنصرشامل نہیں تھا کاغذ کا ٹکڑا جسے ڈگری کہا جاتا ہے اس کی اتنی اہمیت نہیں تھی ۔میرے ابو سے کسی بڑے فارم میں پوچھا گیا کہ استاذ جی آپ کے زمانے کی تعلیمی معیار اور آج کے زمانے کے تعلیمی معیار پر اپنے تجربے کی روشنی میں تفصیلی بحث فرماٸیں ابو نے صرف ایک جملہ بولا اور خاموش ہوگیا مجمع چند ثانیے ہکا بکا رہ گیا پھر تالیاں بجانے لگے ۔ابو کا جملہ تھا ۔۔۔”بچو !ہمارے زمانے میں جو جس جماعت کو پاس کرتا تھا پھر اسی جماعت کو پڑھاتا تھا آج بچے ایسا نہیں کر سکتے “۔۔مجمع کی افرین کوٸی اچھنبے کی بات نہیں تھی بڑا معیاری فارمولا اور معیار بتایا گیا تھا ۔۔کیا سنہرا دور تھا تعلیم صلاحیتوں کا نام تھا ۔۔

 

محمد علی جوہر کی انگریزی اتنی مضبوط تھی کہ انگریز ان سے اپنی انگریزی درست کراتے تھے وہ یورپ سے تعلیم حاصل کرکے ہندوستان آۓ تو تین سول سروس کا امتحان دیا پاس نہ کر سکا ۔اقبال کہتے ہیں کہ میں یورپ جا کر اپنی انگریزی ”تھوڑی“ درست کی ۔ہمارے زمانے کے بڑے بڑے آفسرز کا تعلیمی ریکارڈ بمشکل فسٹ ڈوژن کا ہے لیکن آج کل بچوں کی جو نمبر سکورنگ ہے عقل دنگ رہ جاتی ہے بندہ چھ سو میں سے 595 نمبر لیتا ہے کٸ ایسے سکول ہیں جہاں ساٸنس لیبارٹری تک نہیں ہے ان کے طالب علم پریکٹیکل میں پورے کے پورے نمبر لیتے ہیں معذرت کے ساتھ ہم ہر سال ٹاپ ٹن بچوں کے پیپرز نیٹ سے ڈاون لوڈ کرکے دیکھتے ہیں اپنے مضمون میں کٸ کوتاہیاں نوٹ کی جاتی ہیں لازم ہے بچہ ریاضی میں طبیعات میں پورےنمبر لے سکتا ہے لیکن وہ ادب میں سو میں سے سو نمبر کس طرح لے سکتا ہے کیا یہ خیانت نہیں کہ اس کے جوابات چیک کیے بغیر اس کو نمبر دیے جاٸیں .

 

ہم ذاتی طور پر جن طلبا کو جانتے ہیں ان کے امتحانی ہالوں میں ان کو پرچہ حل کرتے ہوۓ کلاس روم میں ان کی محنت کو دیکھتے ہوۓ یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ بچے میں اہلیت کتنی ہے مگر جب اس کا امتحانی نتیجہ آتا ہے تو دھنگ رہ جاتے ہیں یہ نمبر سکورنگ بچوں کو ذہنی مریض بنا چکا ہے والدین بھی اس سکورنگ کو معیار سمجھ بیٹھے ہیں۔کوشش کرکے بچوں سے زیادہ نمبر حاصل کراتے ہیں خواہ اس کشمکش میں نقل کا سہارا ہی کیوں نہ لینا پڑے ۔ اسی طرح یہ امتحان اہلییت کا امتحان نہیں رہتا۔ایک سکورنگ کی دوڑ بن جاتی ہے ۔۔اس میں بچوں کا نقصان ہوتا ہے وہ بے حوصلہ ہوجاتے ہیں۔وہ محنت پر یقین نہیں کرتے وہ اپنی اہلیت کی جانچ نہیں کر سکتے ۔آگے جب مقابلے کے امتحانات ہوتے ہیں تو یہ نمبر سکورنگ کام نہیں آتے ۔۔ہمیں اپنے سسٹم پہ سوچنا چاہیے اور آگے امتحانات کی مکینیزم میں مثبت تبدیلی اور پرچوں کی چیکنگ میں نہایت صداقت سےبچوں کو ان کا حق دیا جاۓ ۔ یہ اداروں کی آگے بڑھنے کی دوڑ، یہ سرکاری اور پرائیویٹ کا مقابلہ ،یہ بورڈوں کی دوڑ ،یہ ضلعوں کا مقابلہ یہ سب تعلیمی عمل میں مثبت نتیجہ نہیں دیتا اس لیے کہ اس میں شفافیت کم ہوتی جا رہی ہے ۔وقت کی ضرورت ہے کہ معیار کے پیچھے جایا جاۓ فضول کی دوڑنہ لگاٸی جاۓ ۔۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
78216