Chitral Times

Jul 1, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

دو قومی نظریہ کے خالق سرسید احمد خان کا یوم پیدائش – میری بات:روہیل اکبر

Posted on
شیئر کریں:

دو قومی نظریہ کے خالق سرسید احمد خان کا یوم پیدائش – میری بات:روہیل اکبر

تحریک پاکستان کی بنیاد رکھ کرمسلمانوں میں تعلیمی انقلاب پیدا کرنے والے دو قومی نظریہ کے خالق اور عظیم رہنما سر سیّد احمد خان کا206واں یوم پیدائش 17اکتوبرہے سر سیّد احمدخان اسی دن1817ء کو دہلی میں پیدا ہوئے وہ انیسویں صدی کے ایک عظیم رہبر تھے انہوں نے ہندوستانی مسلمانوں کوباعزت قوم بنانے کیلئے سخت جدوجہد کی سر سیّد احمد خان کی پوری زندگی قوم کی خدمت کرتے گزری وہ ایک بلند پایہ مفکر،مصنف اور جلیل القد رہنما تھے۔سر سیّد احمد خان نے اپنی ادبی تخلیقات سے مسلمانان ہند میں ایک عظیم انقلاب برپا کیا اسی وجہ سے علی گڑھ تحریک کی بنیاد پڑی۔سر سیّد احمد خان نے ادبی خدمات کیلیے1857ء میں محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کی بنیاد رکھی جسے1920ء میں یونیورسٹی کا درجہ ملا اور آج اسے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی حیثیت سے عالمی شہرت حاصل ہے۔سر سیّد ایک بلند پایہ مبلغ تھے انہوں نے انہوں نے قرآن پاک کی تفسیر لکھی لیکن اسے پایہ تکمیل تک نہ پہنچا سکے۔سر سیّد احمد خان کا قوم پر اتنا بڑا احسان ہے کہ بر صغیر کے مسلمانوں میں آج جو تعلیم عام نظر آتی ہے اس کی داغ بیل سر سیّد احمد خان نے ہی ڈالی تھی آپ 1867 سے 1876 تک بطور جج بھی خدمات سرانجام دیتے رہے سر سیّد احمد خان مسلمانوں کے مستقبل کوتعلیم کے بغیر ادھورا سمجھتے تھے یہی وجہ تھی کہ انہوں نے جدید سکولوں اور جرائد کی بنیاد رکھ کر اور اسلامی کاروباری افراد کو منظم کرکے مغربی طرز کی سائنسی تعلیم کو فروغ دینا شروع کردیا 1859 میں سر سیّد احمد خان نے مراد آباد میں گلشن سکول 1863 میں غازی پور میں وکٹوریہ سکول اور 1863 میں مسلمانوں کے لیے ایک سائنسی سوسائٹی قائم کی سر سیّد احمد خان تحریک پاکستان اور اس کے کارکنوں کے لیے ایک تحریک کانام بھی تھے اور پھر اسی تحریک میں علامہ اقبال اور محمد علی جناح بھی شامل ہوئے

 

انہوں نے قرآن کو سائنس اور جدیدیت کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے لیے اس کی ایک وسیع تر بنیاد پرست تشریح بھی کی انہوں نے مسلمانوں میں تعلیم کے شعبہ میں وہ کام کیا جو آج تک کوئی نہ کرسکا اسی لیے تو آج بہت سی یونیورسٹیوں اور سرکاری عمارتوں پر سرسید کا نام لکھا ہوا ہے سر سیّد احمد خان کا خاندان مغل حکمرانوں کے بہت قریب تھاانکے والد سید محمد متقی شہنشاہ اکبر کے قریبی ساتھی اور مشیر بھی تھے آپ کے نانا خواجہ فرید الدین نے شہنشاہ اکبر کے دربار میں بطور وزیر خدمات انجام دیں ان کے دادا سید ہادی جواد بن عمادالدین شہنشاہ عالمگیر کے دربار میں اہم منصب پر فائز تھے سر سیّد احمد خان تین بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے اپنے بڑے بھائی سید محمد بن متقی خان اور بڑی بہن صفی النساء کے ساتھ زیادہ وقت اپنے نانا کے گھر ہی گذرا اوران کی پرورش عظیم مغل روایات کے مطابق ہوئی سر سیّد احمد خان کی والدہ عزیز النساء نے سر سیّد احمد خان کی ابتدائی زندگی میں ایک اہم کردار ادا کیا ان کی پرورش سخت نظم و ضبط کے ساتھ کی اور جدید تعلیم پر زور دیا سر سیّد احمد خان کی تعلیم کا آغاز ان کے والد کے روحانی سرپرست شاہ غلام علی نے 1822 میں کیا تھا انہیں ایک خاتون ٹیوٹر اریبہ سحر نے قرآن پڑھنا اور سمجھنا سکھایا پھر انہوں نے دہلی میں مسلم بزرگوں سے روایتی تعلیم حاصل کی اور اپنے آبائی گھر سے متصل مکان میں ایک عالم دین مولوی حمید الدین کے زیر انتظام مکتب سے فارسی اور عربی اور اسکے ساتھ ساتھ ریاضی، فلکیات اور الجبرا کی تعلیم بھی حاصل کی سر سیّد احمد خان نے مسلمان اسکالرز اور مصنفین جیسے صہبائی، ذوق اور غالب کی تخلیقات کو پڑھاسر سیّد احمد خان تیراکی، شوٹنگ اور دیگر کھیلوں میں بھی ماہر تھے سر سیّد احمد خان کے بڑے بھائی نے دہلی سے ایک ہفتہ وار ”سید الاخبار” شروع کیا جو شمالی ہندوستان کے ابتدائی اردو اخباروں میں سے ایک تھا 1838 میں سر سیّد احمد خان کے والد کی وفات ہوئی تو اس وقت تک آپ کی نظروں سے بہت سے پردے اٹھ چکے تھے

 

یہی وجہ تھی کہ انہیں اپنے دادا اور والد کے القاب وراثت میں ملے جبکہ شہنشاہ بہادر شاہ ظفر نے سر سیّد احمد خان کو عارف جنگ کے لقب سے نوازا تھا سرسید احمد خان کابطور مصنف کیریئر اس وقت شروع ہوا جب انہوں نے 1842 میں مذہبی موضوعات پر اردو میں مقالات کا ایک سلسلہ شائع کیااور وقت کے ساتھ انکے خیالات آہستہ آہستہ زیادہ آزاد ہوتے گئے 1842 میں شائع ہونے والا ان کا پہلا مقالہ محمد کا ایک سوانحی خاکہ تھا جسے جلہ القلوب بذکر المحبوب (محبوب کی یاد میں دلوں کی لذت) کہا جاتا ہے 1844 میں اپنے دوست نور الحسن کی حوصلہ افزائی پر اپنا دوسرا مقالہ تحفہ حسن (حسن کا تحفہ) شائع کیا یہ شاہ عبدالعزیز دہلوی کی تحفہِ اثنا اشعریہ (12 اماموں پر ایک مقالہ) کے دسویں اور بارہویں باب کا اردو ترجمہ ہے جو شیعہ عقائد پر تنقیدی تھا دسویں باب میں صحابی اور حضرت عائشہ کے خلاف شیعہ الزامات کا جواب دیا گیا ہے اور بارہویں باب تولی اور طبری کے شیعہ عقائد سے متعلق ہے ان کا تیسرا مقالہ کلمات الحق (حقیقی گفتگو) کے عنوان سے 1849 میں شائع ہوا تھا یہ پیر مرید کے رشتوں کے ارد گرد مروجہ صوفی طریقوں پر تنقید ہے جسکا پہلا حصہ پیری کے تصور کے لیے وقف ہے

 

اس حصے میں وہ دلیل دیتے ہیں کہ محمدﷺ واحد حقیقی پیر ہیں جبکہ دوسرا حصہ مریدی اور بیعت کے تصور پر مرکوز ہے۔ راہِ سنت در ردِ بدعت (بدعات کا سنت اور ردّ) ان کا چوتھا مقالہ 1850 میں شائع ہوا تھا 1852 میں نامیقہ دار بیان مسالہ تصوّرِ شیخ (تصور شیخ کی تعلیم کی وضاحت کرنے والا ایک خط) شائع کیا جس میں انہوں نے تصور شیخ کا دفاع کیا جو کسی کے روحانی رہنما کی تصویر کے اندر تصور کرنے کی صوفی مشق ہے 1853 میں سر سیّد احمد خان نے الغزالی کی کیمیا السعدہ (خوشی کی کیمیا) کے کچھ اقتباسات کا ترجمہ کیا 1862 میں سر سیّد احمد خان جب غازی پور میں تعینات تھے تو انہوں نے بائبل اور اس کی تعلیمات کی تفسیر پر کام شروع کیا جس کا مقصد انہیں اسلام کے حوالے سے سمجھانا تھاپھر انہوں نے اسکا اردو اور انگریزی میں 1862 سے 1865 تک تین حصوں میں تبین الکلام فی تفسیر التاورات و انجیل ملت الاسلام کے عنوان سے شائع کیا جس کا پہلا حصہ بائبل کی تحریروں کی طرف اسلامی نقطہ نظر سے متعلق ہے دوسرا اور تیسرا حصہ بالترتیب کتاب پیدائش اور میتھیو کی انجیل پر تبصرہ پر مشتمل ہے سر سیّد احمد خان نے 1877 میں تفسیر القرآن پر کام شروع کیا یہ سات جلدوں میں تفسیر القرآن کے نام سے شائع ہوا پہلی جلد 1880 میں شائع ہوئی اور آخری جلد ان کی وفات کے چھ سال بعد 1904 میں شائع ہوئی اس کام میں انہوں نے قرآن مجید کے 16 پاروں اور 13 سورتوں کا تجزیہ اور تفسیر کی پہلی جلد میں انہوں نے تحریر فی اصول التفسیر کے عنوان سے ایک تفصیلی مضمون بھی شامل کیا جس میں انہوں نے 15 اصول بیان کیے جو انکی تفسیر کی بنیاد بھی ہیں محسن قوم و ملت سر سیّد احمد خان 27مارچ 1898ء کو علی گڑھ میں انتقال کر گئے تھے انہیں وہیں پر دفن کیا گیا۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامین
80336