Chitral Times

Jul 3, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

دوائے دل –  فرنگ کی رگ جاں پنجہئ یہود میں ہے! – مولانا محمد شفیع چترالی

Posted on
شیئر کریں:

دوائے دل –  فرنگ کی رگ جاں پنجہئ یہود میں ہے! – مولانا محمد شفیع چترالی

علامہ اقبالؒ نے آج سے پون صدی قبل اپنی سرزمین میں بقا کی جنگ سے دوچار کیے جانے والے فلسطینیوں کو مخاطب کرکے کہا تھا ؎
تری دوا نہ جنیوا میں ہے نہ لندن میں
فرنگ کی رگ جاں پنجہئ یہود میں ہے
سنا ہے میں نے، غلامی سے امتوں کی نجات
خودی کی پرورش و لذتِ نمود میں ہے

امریکا نے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں انسانی بنیادوں پر غزہ میں فوری جنگ بندی کے لیے پیش کی گئی قرارداد ایک بار پھر ویٹو کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ پون صدی کے بعد بھی فلسطینیوں کے دکھوں کا مداوا جنیوا و لندن یا نیویارک میں نہیں ہے کیونکہ فرنگ کی رگ جاں آج بھی پنجہئ یہود میں ہے بلکہ آج شاید کچھ زیادہ ہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آج کی اکیسویں صدی میں بھی اگر کسی مظلوم اور محکوم قوم نے آزادی اور حقوق حاصل کرنے ہیں تو اسے امریکا، اقوام متحدہ اور جنیوا و لندن کی طرف دیکھنے کی بجائے اپنی قوت باز و کو ہی آزمانا پڑے گا اور بین الاقوامی قوانین، عالمی اداروں اور مغربی اقوام کے دھوکے میں رہنے کی بجائے خودی کی پرورش و لذت نمود کے حصول پر توجہ دینا ہوگی۔

امریکا کی اسرائیل نوازی اور تمام تر بین لاقوامی ضابطوں اور اخلاقی اصولوں کو پامال کرکے اسرائیلی ظلم، قبضے اور ریاستی دہشت گردی کے خلاف آنے والی ہر قرار داد کو ردی کی ٹوکری میں ڈالنے کی واردات نئی تو نہیں ہے اور دنیا بخوبی جانتی ہے کہ ہمیشہ ؎
تو مشق ناز کر خون دوعالم میری گردن پر

کے مصداق قابض و غاصب صہیونی ریاست کی نہ صرف پشت پناہی کی ہے بلکہ عملاً اس ظلم و سفاکیت میں اپنے ہتھیاروں کے ساتھ شریک بھی رہا ہے تاہم غزہ پر گزشہ دوماہ سے جاری آتش و آہن کی بارش کے ہولناک مناظر دیکھنے کے بعد عالمی رائے عامہ میں پائی جانے والے غم وغصے اور تشویش کو سامنے رکھتے ہوئے توقع ظاہر کی جا رہی تھی کہ شاید اس دفعہ امریکا جنگ بندی کی قرارداد پر خط تنسیخ پھیرتے ہوئے کچھ شرم محسوس کرے۔ مگر ایسا لگتا ہے کہ شرم امریکا کی لغت میں ہی نہیں ہے۔

امریکا نے دنیا بھر کے حقیقت پسنداور انصاف پسند انسانوں کے پر زور مطالبے، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی درد مندانہ اپیل اور سلامتی کونسل کے 15 میں سے 13 ارکان کی حمایت کے ساتھ غزہ میں بے گناہ فلسطینی شہریوں کا قتل عام روکنے کے لیے پیش کی جانے والی قرارداد کو ویٹو کرکے ایک بار پھر یہ بتا دیا کہ وہ اس دنیا کو ایک جنگل اور خود کو اس جنگل کا بادشاہ سمجھتا ہے اور اس کی نظر میں انسانیت اور انسانی اقدار کی کوئی قیمت ہی نہیں ہے اور اس نے فلسطین کے نہتے شہریوں پرصہیونی دہشت گرد ریاست اسرائیل کی صورت میں جو ایک باؤلاکتاچھوڑا ہوا ہے، اسے کوئی روکنے والا نہیں ہے۔ امریکا نے دنیا کو یہ پیغام بھی دے دیا ہے کہ اقوام متحدہ اور اس کی سلامتی کونسل کو وہ پرکاہ کے برابر بھی اہمیت نہیں دیتا اور یہ کہ جو اس کی آشیرباد کے بغیر ان اداروں سے داد رسی کی امید رکھے گا، اس سے بڑا احمق کوئی نہیں ہوگا۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک طرح سے اقوام متحدہ اور اس کی سلامتی کونسل کے کریا کرم ہونے کا اعلان ہے اور اگرچین اور روس جیسے دیگر بااثر ممالک نے اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کی امریکا اور اس کے لے پالک اسرائیل کے ہاتھوں بے توقیری اور پامالی کا سدباب نہیں کیا اور بین الاقوامی سیاست میں امریکا کی کھلی بدمعاشی کا راستہ نہیں روکا تو دنیا بھر کی مظلوم و محکوم اقوام میں بغاوت کا پہلے سے پکنے والالاوا پھوٹ پڑے گا اور معاملات بڑی طاقتوں کے ہاتھ سے نکل جائیں گے۔ اگر دنیا میں انصاف اور انسانیت کا اسی طرح قتل عام ہوتا رہا اور اقوام متحدہ اور اس کی سلامتی کونسل بین الاقوامی تنازعات کو حل کرکے دنیا میں امن قائم رکھنے میں اسی طرح ناکام رہیں تو پھر ظاہر ہے کہ بین الاقوامی معاہدے اور سرحدیں بھی بے معنی ہوکر رہ جائیں گی اور دنیا کے مختلف خطوں میں ایک ایسی جنگ چھڑ جائے گی جس کے شعلوں سے پھر کوئی بھی محفوظ نہیں رہے گا۔ اسرائیل کی ننگی جارحیت روکنے میں اگر اقوام متحدہ ناکام رہی تو پھر دنیا بھر کے بپھرے ہوئے مسلم نوجوان جذبہ جہاد سے سرشار ہوکر اپنے مظلوم فلسطینی بھائیوں کی مدد کے لیے مشرق وسطیٰ کا رخ کرنے لگیں گے اور امریکا اور برطانیہ پھر صہیونی ریاست کو نہیں بچا سکیں گے جس طرح افغانستان میں وہ اپنے آپ کو نہیں بچاسکے اور انہیں بالآخر بیس سال تک افغانستان میں خاک چاٹنے کے بعد خائب وخاسر وہاں سے بھاگنا پڑا۔

یہاں یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ اگر عالمی نظام ناکام ہوا اور جنگ ہی ہر مسئلے کا حل ٹھہری تو پھر یہ جنگ صرف مشرق وسطیٰ تک محدود نہیں رہے گی، دنیا کو کوئی بھی ملک اور شہر پھر محفوظ نہیں رہے گا۔ کوئی یہ نہ سمجھے کہ دنیا کے حالات یوں ہی رہیں گے اور دنیا کے دو ارب مسلمان اب بھی اپنے ناکارہ حکمرانوں یا اپنی بے بسی کا اشتہار بنے اقوام متحدہ جیسے اداروں کی طرف ہی دیکھتے رہیں گے۔ عمل اور ردعمل کا سائنسی اور فطری قانون ایک نہ ایک دن ضرور روبہ عمل آئے اور ظالموں کو اپنے ظلم کا حساب دینا ہوگا۔ اس وقت پوری دنیا دیکھ رہی ہے کہ قابض و غاصب صہیونی ریاست پاگل بھینسے کی طرح تمام بین الاقوامی جنگی قوانین کو روندتے ہوئے اور پوری دنیا کی مخالفت اور لعنت ملامت پر تھوکتے ہوئے غزہ کی محصور آبادی کی نسل کشی کر رہا ہے۔ سفاکیت، چنگیزیت اور بہیمیت کا عمل ایسا نہیں ہے جو صہیونی دہشت گرد فوج غزہ کے نہتے شہریوں اور معصوم بچوں اور خواتین پر باربار نہ دوہرا رہا ہو۔ غزہ کی سرزمین پر اس وقت جس طرح سے رقص ابلیس جاری ہے، آج کی اکیسویں صدی کی دنیا میں اس کا تصور ہی نہیں کیا جانا چاہیے۔ اس کے باوجود امریکا اور برطانیہ نہ صرف یہ کہ اس کی پیٹھ تھپتھپا رہے ہیں بلکہ اسے شہری آبادیوں پر برسانے کے لیے مہلک ترین بم اور ہتھیار بھی فراہم کر رہے ہیں۔

منافقت کی انتہا یہ ہے کہ ایک جانب امریکا دنیا کو دکھانے کے لیے اسرائیل کو شہری آبادی کو نشانہ نہ بنانے کی تلقین کرتا ہے تو دوسری جانب اس حقیقت کے باوجود کہ اسرائیل نے اس جھوٹی تلقین پر کبھی توجہ نہیں دی بلکہ جس دن کسی امریکی عہدیدار کی جانب سے شہری آبادی کو نشانہ نہ بنانے کا ڈھکوسلا سامنے آتا ہے، اس دن اسرائیل کی جانب سے مزید خوفناک اور وحشیانہ بمباری کی جاتی ہے۔ امریکا اور برطانیہ شاید یہ سمجھتے ہیں کہ اس طریقے سے وہ دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں کامیاب ہو جائیں گے مگر شایہ وہ بھول رہے ہیں کہ آج کی دنیا ماضی سے بہت مختلف ہے۔ آج ہر شخص کو سوشل میڈیا اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بدولت معلومات تک براہ راست رسائی حاصل ہے اور آج کی دنیا میں عالمی رائے عامہ کو زیادہ دیر بے وقوف نہیں بنایا جاسکتا۔ آج دنیا کا ہر باشعور انسان اس حقیقت سے واقف ہوچکا ہے کہ اسرائیل کی اپنی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ وہ تمام تر بڑھکوں اور گیدڑ بھبکیوں کے باوجود اور لاکھوں ٹن بارود برسانے کے باوجود دو ماہ سے زائد عرصہ میں غزہ پر قبضہ نہیں کرسکا اور اپنے یرغمالیوں کو رہا نہیں کروا سکا ہے تاہم امریکا اور برطانیہ کے فراہم کردہ ہتھیاروں اور جنگی جہازوں سے بزدلانہ فضائی بمباری کرکے وہ عام شہریوں کا خون بے دریغ بہا رہا ہے اور انسانیت کے خلاف جرائم میں تمام حدود کو پار کر رہا ہے۔ دنیا اس کی اور اس کے سرپرستوں کی شقاوت، وحشت اور سفاکیت کا بچشم خود نظارہ کر رہی ہے۔ اگر عالمی قوتوں نے ذمہ داری کا احساس نہیں کیا اور امریکا اور اسرائیل کا محاسبہ نہیں کیا گیا تو پھر دنیا کے امن کی کوئی ضمانت نہیں دے سکے گا اور معاملات کسی کے قابو میں نہیں رہیں گے۔

برسبیل تذکرہ! افغانستان کا مسئلہ بھی بالآخر مسلح مگر منظم جدوجہد کے نتیجے میں حل ہوا، فلسطین کا مسئلہ اگر آج پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بنا ہے تو حماس کی منظم منصوبہ بندی اور مسلح جدوجہد کے نتیجے میں ہوا ہے اور اگر ہمیں کشمیر کا مسئلہ حل کرانا ہے تو یہ بھی منظم عسکری آپریشن سے ہی ممکن ہے۔ اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔

 


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
82910