Chitral Times

Jul 1, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

دوائے دل…… جرأت کا نام……حضرت مولانا سمیع الحق شہیدؒ …..مولانا محمد شفیع چترالی

Posted on
شیئر کریں:

مخدوم محترم حضرت مولانا سمیع الحق کی صحت کافی عرصے سے خراب تھی، چند ماہ قبل ان کا دل کا آپریشن ہوا تھاجس کے بعد طبیعت کچھ بہتر تو ہوئی تھی تاہم 82 سال کی عمر میں دیگر عوارض کے ہوتے ہوئے عارضۂ قلب سے نبر د آزما رہنا کوئی آسان بات نہیں تھی، اس لیے ہروقت حضرت کے بارے میں کسی بری خبر کے آنے کا کھٹکا رہتا تھا۔ جب بھی برادرم مولانا اسامہ سمیع، مولانا عرفان الحق یا بھائی بابر حنیف کی کال آتی، دل گھبرا اٹھتا کہ کہیں دست اجل نے ہمارے سروں سے شفقت کا وہ سائبان کھینچ تو نہیں لیا، جس کی ٹھنڈک میں ہم ہی نہیں، ہماری طرح کے ہزاروں تشنگان محبت راحت و سکون پایا کرتے تھے۔ مگر پھر جلد ہی حضرت کے خصوصی سلام اور کسی خبر یا مضمون سے متعلق پیغام سے فیض یاب ہوکر یا حضرت کی شفقت بھری گفتگو سن کردل کو اطمینان ہوجاتا۔ یہ تو کسی وہم وگمان اور خواب و خیال میں بھی نہیں تھا کہ حضرت مولانا کی جدائی کی خبراتنے دل خراش، جگر پاش اورناقابل برداشت اندازمیں سننے کو ملے گی کہ کلیجہ منہ کو آجائے گا اورصبرو ضبط کے بندھن قائم رکھنا مشکل ہوجائے گا۔ فا نا للہ وانا الیہ راجعون۔
ویسے تو وطن عزیز پاکستان کی سرزمین بزرگ علماء کے خون سے پہلی بار رنگین نہیں ہوئی، 21برس قبل ٹھیک اسی 2نومبر کی تاریخ کو کراچی میں وقت کے ایک بڑے محقق عالم دین اور جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے رئیس حضرت مولانا حبیب اللہ مختارؒ اور ان کے دست راست، علم و عمل اور جہد مسلسل کے نشاں حضرت مولانا مفتی عبد السمیعؒ کو کراچی کی ایک سڑک پر نہایت بے دردی اور شقاوت کے ساتھ شہید کیا گیا تھا، اس سے پہلے بھی متعدد علماء اور دینی رہنما شہید ہوئے اور اس کے بعد بھی بیسیوں جید اور بزرگ علماء خاک و خون میں تڑپادیے گئے۔ مگر جس طرح کا مقتل مخدوم محترم حضرت مولانا سمیع الحق کے لیے سجایا گیا، حالیہ عرصے میں اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ ان سطور کے لکھے جانے کے وقت اس سانحے کے محرکات و اسباب سے متعلق کوئی واضح بات سامنے نہیں آئی ہے، مگر پاکستان اور خطے کے موجودہ حالات اور ملک و ملت کے خلاف کی جانے والی سازشوں کا ادراک کرنے والا ہر شخص اندازہ کرسکتا ہے کہ مولانا سمیع الحق کی صورت میں حق کی ایک دبنگ آواز کو خاموش کرانا کن قوتوں کی کارستانی ہوسکتی ہے۔ مولانا کی شہادت پر دہلی سے کابل تک بعض عناصر کی جانب سے جس طرح خوشی کے شادیانے بجائے جارہے ہیں، اس سے اس قتل کے محرکات کی طرف کچھ نہ کچھ اشارہ ضرور ملتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ حضرت مولانا نے جس شان سے مجاہدانہ زندگی گزاری، اس زندگی پر معذرت خواہی کی بجائے ہمیشہ ناز کیا، اس کو ایک عام سی موت نہیں مظلومانہ شہادت کا یہ اعلیٰ رتبہ ہی زیبا تھا۔ مولانا کی شخصیت کا کوئی ایک حوالہ نہیں تھا، وہ ایک جید عالم دین، ایک بہترین قلمکار و مصنف، ایک مثالی مدرس، ہر دل عزیز مہتمم اور ایک بین الاقوامی شہرت یافتہ دینی و مذہبی رہنما، پارلیمنٹیرین اور بزرگ سیاست دان تھے۔ ان میں سے ہر جہت پر ایک مستقل کتاب لکھی جاسکتی ہے، اتنی ساری حیثیتوں کے ہوتے ہوئے مصلحت کوشی و عافیت کیشی کے حیلے پاؤں کی زنجیر بن جایاکرتے ہیں، مگر مولانا شہید کی بات ہی الگ تھی۔ وہ لایخافون لومۃ لائم کی عملی تفسیر تھے۔ ابھی تین چار دن پہلے کی بات ہے۔ آسیہ مسیح کی رہائی کے معاملے پر ملک بھر میں احتجاج شروع ہوا، ہمارے میڈیا نے حسب دستور اس کا بلیک آؤٹ کردیا، سوشل میڈیا پر احتجاج کی رپورٹیں چل رہی تھیں، اکوڑہ خٹک میں عظیم الشان اجتماع دکھا یاجارہا تھا، جس سے مولانا خطاب فرمارہے تھے۔ میں نے دیکھا، مولانا کے جسم اور چہرے پر بڑھاپے اور بیماری کے اثرات دکھائی دے رہے تھے، مگر ان کے لہجے میں کسی قسم کی نقاہت یا کمزوری نہیں تھی، وہی طنطنہ، وہی دبدبہ، وہی للکار اور وہی حقانی گفتار۔
کچھ عرصہ قبل ایک ٹی وی چینل سے وابستہ دوست نے رابطہ کیا کہ ہماری ایک خاتون اینکر مولانا سمیع الحق صاحب کا انٹرویو کرنا چاہتی ہیں، اگر آپ مولانا سے بات کرکے ان کو آمادہ کریں۔ راقم نے مولانا سے گزارش کی تو انہوں نے فرمایا کہ میں آج کل چینلوں کو انٹرویو نہیں دیتا، کیونکہ جو باتیں ہم لوگوں کو بتا نا چاہتے ہیں، وہ یہ نشر نہیں کرتے اور جو باتیں وہ ہم سے کہلوانا چاہتے ہیں وہ ہم کہنا نہیں چاہتے لیکن آپ کہتے ہیں تو میں ان کو وقت دے دیتا ہوں۔ یہ وہی مشہور انٹرویو تھا جس میں مولانا سے شیخ اسامہ بن لادن کے بارے میں پوچھا گیا تو مولانا نے جواب دیا تھا کہ میں شیخ اسامہ کو اسلام کا مجاہد اور شہید فی سبیل اللہ سمجھتا ہوں۔ اس انٹر ویو پر لبرل حلقوں میں بڑے لے دے ہوئی۔
راقم کو قلم گھسیٹنے کی مشق کے توسط سے جن بزرگوں کی بے پناہ شفقتیں میسر آئیں، ا ن میں حضرت مولانا سمیع الحق شہیدؒ سرفہرست تھے۔ یہ حضرت مولانا کی ہی عظمت اور بڑا پن تھا کہ ہم جیسے ادنی طالبعلموں اور نو آموز لکھاریوں کی دل کھول کر حوصلہ افزائی فرماتے۔ مولانا میرے کالموں باقاعدہ قاری ہی نہیں بلکہ بہت محبت کرنے والے بھی تھے۔ حضرت نے راقم کو پابند کیا تھا کہ جب بھی پشاور آنا ہو یا گاؤں جانا ہو، اکوڑہ سے ہوکر جانا۔ جب بھی حضرت کی خدمت میں حاضری ہوئی، بہت محبت سے نوازا، اصرار کرکے کھانا کھلایا اور درسگاہ میں ساتھ بٹھاکر طلبہ سے تعارف کرایا۔ مولانا کی محبتیں زندگی کا سرمایہ ہیں مگر یہاں جو بات بتلانا مقصود ہے وہ یہ کہ ایک دفعہ حضرت نے جامعہ حقانیہ کی تعلیمی سال کی افتتاحی تقریب میں شرکت کی دعوت دی۔ میں حاضر ہوا تو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ پاکستان اور افغانستان کے جید علماء اور بڑی بڑی پگڑیاں پہنے حقانی فضلاء تقریب میں موجود تھے۔ تقریب میں افغانستان کی امارت اسلامیہ کے نئے امیر کی مکمل حمایت کا اعلان کیا گیا اور سابق امیر ملا محمد عمر مجاہد کی خدمات کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا گیا۔ تقریب کے بعد کھانے کی نشست پر راقم نے عرض کیا کہ حضرت ہم کراچی اور پنجاب والے اہل مدارس تو اب طالبان کا نام لیتے ہوئے بھی گھبراتے ہیں اور آپ یہاں اس قدر کھل کر ان کی حمایت کر رہے ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ افغان طالبان ہمارے وجود کا حصہ ہیں، ہم ان کو خود کو کیسے الگ کریں۔ ہم ان کے ساتھ جہاد میں تو عملا شریک نہیں ہیں، ہم اپنے ملکی آئین اور قانون کے پابند ہیں مگر ہم قابض افواج کے خلاف طالبان کی جدوجہد کو جہاد سمجھتے ہیں اور اس جہاد کی حمایت کوئی جرم نہیں ہے۔ مولانا نے عالمی میڈیا کے لیے انگریزی میں مرتب کی گئی اپنی کتاب بھی مرحمت فرمائی جس میں ان کے اس موقف کی پوری وضاحت موجود ہے۔
جیساکہ اوپر عرض کیا گیا، مولانا شہید رحمہ اللہ کی زندگی کے بہت سے پہلو ہیں، ان میں ایک نمایاں پہلو ان کی علمی خدمات کا بھی ہے جوبیسیوں کتابوں اور ہزاروں مضامین پر محیط ہے۔ حضرت زندگی کے آخری لمحات میں حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ کے تفسیری افادات کو مرتب کرنے میں ہمہ تن مصروف تھے اور اس کا م کا بیشتر حصہ مکمل فرماچکے تھے۔ ان کی سب سے بڑی خواہش اس کام کی تکمیل تھی۔ امید ہے کہ حضرت کا یہ وقیع کام بھی جلد سامنے آئے گا اور حضرت کے لیے ایک اور صدقہ جاریہ ثابت ہوگا۔ اللہ تعالیٰ حضرت مولانا سمیع الحق شہید کی کامل مغفرت فرمائے اورجملہ پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق دے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
15320