![Chitral Times - The voice of Chitral | دروازہ پاس کا سفر............عماد الدین broghil](https://chitraltimes.com/wp-content/uploads/2018/10/broghil.jpg)
دروازہ پاس کا سفر…………عماد الدین
بروغل کے آرقاون گاؤں سے دروازہ پاس تک کا سفر تین گھنٹے پر مشتمل ہے۔ راستے میں پانچ جھیلیں آنکھوں کو طراوٹ اور دل کو مسرت کا پیعام دیتی ہیں ان جھیلیوں کا رقبہ شندور جھیل کے برابر ہے ان کی خصوصیت یہ ہے کہ ان کی دھارائیں کہیں بہتی ہوئی نہیں جاتی اور نہ ہی یہ جھیلیں گلیشیئر کے پانی سے بنی ہیں بلکہ زیر زمین پانی کا کوئی سوتا ان کے وجود کا سبب ہے۔ ان میں مرغابیاں لہروں سے اٹھکھیلیاں کرتی ہوئی نظر آئیں۔ لیکن یہ بات میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ کس نے یہ بات ان کے گوش گزار کی تھی کہ اس اجنبی مسافر میں شکار سے دلچسپی کے جراثیم موجود ہیں اس وجہ سے وہ کنارے کی طرف آنا اپنی کسر شان سمجھ رہے تھے۔ مجبورا مجھے آہ سرد بھرتے ہوئے دل کو تسلی دینا پڑی کہ یہ کھانے کی نہیں بلکہ
ہے دیکھنے کی چیز اسے باربار دیکھ.
اسے آپ میری کم ظرفی پر محمول کیجئے کہ چلتے وقت میں نے بندوق بھی اٹھالیا تھا تاکہ کوئی شکار ملے تو خون ناحق کو اپنی جیت کا تمغہ سمجھ لوں لیکن قدرت کو غالبا مجھ پر رحم آگیا اور میری بندوق سے نکلنے والی گولی نے پرسکون ماحول کا سینہ چاک کرنے کی جسارت نہیں کی۔ یا ان شاطر مرغابیوں نے ایسی کوئی حکمت عملی مرتب کی ہوگی جس سے میں قاتل بے درد بننے سے محروم رہ گیا۔
گائیڈ محمد شریف کی رہنماائی میں ان دلکش نظاروں سے مسرور ہوتے ہوئے ہم دروازہ پاس پہنچ گئے۔ یہاں چار قابل دید چیزیں دعوت نظارہ دیتی ہیں۔ ڈیورنڈ لائن پاکستان اور افغانستان کے درمیان بین الاقوامی سرحد ہے جو 2430 کلومیٹر پر محیط ہے۔ یہ 1896 میں ایک معاہدے کے تحت طے پایا جو کہ Sir Mortimer Durrand اور افغان حکمران امیر عبدالرحمان کے درمیا ن ہوا تھا۔ اس کی حد بندی کا تعین کرنے کی خاطر پتھروں سے چھوٹے چھوٹے مینار نما ٹیلے بنائے گئے ہیں جو اپنی اصلی شکل میں ابھی تک موجود ہیں۔ دوسری اہم چیز وہ مشہور پہاڑ ہے جس کے بارے میں علامہ محمد اقبال نے کہا تھا۔
مقصد ہو اگر تربیت لعل بدخشاں
بے سود ہے بھٹکے ہوئے خورشید کا پرتو
جی ہاں میری مراد لعل بدخشاں کا پہاڑ ہے جو اپنی سنہری رنگت کی وجہ سے دامن دل کھینچ لیتا ہے۔ اسے دیکھنے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پہاڑ کے درمیای حصے تک ریت میں سونے کے سنہرے ذرات ملاکر لپائی کی گئی ہو اور اس کی برفیلی چوٹی چاندی کا تاج پہنے ہوئے نظر آتا ہے۔ یہ خوبصورتی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ صرف بیان کرنے سے اس خوبصورتی کا حق ادا نہیں ہوپاتا۔ کیونکہ دل یہی چاتہا ہے کہ پلک جھپکائے بغیر دیکھتا رہوں۔
اللہ رے اضطراب تمنائے دیدار
اک فرصت نگاہ میں سوبار دیکھنا
جدید ٹیکنالوجی اس حسن کوقید کرنے سے محروم ہے جو ایک صاحب دل اپنے اندر کی آنکھ سے دیکھ سکتا ہے۔ میں اپنے بوسیدہ کیمرے سے وہ لمحات محفوظ کرنے سے قاصر رہا جو اس لمحہ موجود میں محسوس کررہا تھا۔
تیسری چیز جس نے فوراً میرا دھیاں اپنی جانب کھینچنے میں کامیاب ہوئی وہ چٹانوں کی سرزمین میں موجود جھیل تھی جو اپنے نیلگوں پانی سے کتنی ہی مخلوقات کو زندگی کی نوید سناتی ہے۔ یہ دل نما جھیل واخان کی چراگاہ میں واقع ہے اس کو آنسو جھیل بھی کہا جائے تو بے جا نہ ہو کیونکہ اس کی بناوٹ اپنے گردوپیش کی وجہ سے عجیب نظارہ دیتی ہے۔ ایک سمت سے دیکھا جائے تو دل سے مشابہت رکھتی ہے اور دوسری طرف سے اشکوں کی بوند لگتی ہے۔ گرمیوں میں چاروں طرف پھیلی سرسبز و شاداب چراگاہ میںیہ اپنی حیثیت تو منواتی ہی ہوگی مگر اکتوبر کے سردو خشک مہینے میں بھی ایک شان بے نیازی سے اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہے۔ آخری چیز جس نے ہمارا دھیاں کھینچا وہ دریا تھا۔ جو بدخشاں سے نکل کر ہماری سمت آتے ہوئے دکھائی دیتا ہے مگر پھر افغانستان کے حدود میں داخل ہو کر نظر سے اوجھل ہوجاتا ہے۔ اس دریا کے بارے مںی ہمارے گائیڈ کا کہنا ہے کہ یہ دریائے آمو ہے اور س کا سوتا پامیر کے پہاڑوں سے پھوٹتا ہے۔ ہمیں اس سے کیا غرض کون کہاں سے نکلا اور کہاں چلا گیا لیکن اپنی اس جھلک میں منفرد سی اپنائیت رکھتا ہے۔ سورج کی تیز شعاعوں میں یہ پگھلی ہوئی چاندی کی دھار معلوم ہوتا ہے۔ قدرت کی ان انمول تخلیقات کا عکس آنکھوں میں اور یادیں دل میں بسائے ہم نے واپسی کا راستہ اپنالیا۔ بروغل اور دروازہ پاس کا یہ دلچسپ سفر میری یادوں کے سرمائے میں خوشگوار اضافے کا ذریعہ ثابت ہوا۔