Chitral Times

Jul 4, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

دروازہ پاس کا سفر…………عماد الدین

شیئر کریں:

بروغل کے آرقاون گاؤں سے دروازہ پاس تک کا سفر تین گھنٹے پر مشتمل ہے۔ راستے میں پانچ جھیلیں آنکھوں کو طراوٹ اور دل کو مسرت کا پیعام دیتی ہیں ان جھیلیوں کا رقبہ شندور جھیل کے برابر ہے ان کی خصوصیت یہ ہے کہ ان کی دھارائیں کہیں بہتی ہوئی نہیں جاتی اور نہ ہی یہ جھیلیں گلیشیئر کے پانی سے بنی ہیں بلکہ زیر زمین پانی کا کوئی سوتا ان کے وجود کا سبب ہے۔ ان میں مرغابیاں لہروں سے اٹھکھیلیاں کرتی ہوئی نظر آئیں۔ لیکن یہ بات میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ کس نے یہ بات ان کے گوش گزار کی تھی کہ اس اجنبی مسافر میں شکار سے دلچسپی کے جراثیم موجود ہیں اس وجہ سے وہ کنارے کی طرف آنا اپنی کسر شان سمجھ رہے تھے۔ مجبورا مجھے آہ سرد بھرتے ہوئے دل کو تسلی دینا پڑی کہ یہ کھانے کی نہیں بلکہ
ہے دیکھنے کی چیز اسے باربار دیکھ.

broghil visit23
اسے آپ میری کم ظرفی پر محمول کیجئے کہ چلتے وقت میں نے بندوق بھی اٹھالیا تھا تاکہ کوئی شکار ملے تو خون ناحق کو اپنی جیت کا تمغہ سمجھ لوں لیکن قدرت کو غالبا مجھ پر رحم آگیا اور میری بندوق سے نکلنے والی گولی نے پرسکون ماحول کا سینہ چاک کرنے کی جسارت نہیں کی۔ یا ان شاطر مرغابیوں نے ایسی کوئی حکمت عملی مرتب کی ہوگی جس سے میں قاتل بے درد بننے سے محروم رہ گیا۔
broghil visit

 

 

 

broghil4
گائیڈ محمد شریف کی رہنماائی میں ان دلکش نظاروں سے مسرور ہوتے ہوئے ہم دروازہ پاس پہنچ گئے۔ یہاں چار قابل دید چیزیں دعوت نظارہ دیتی ہیں۔ ڈیورنڈ لائن پاکستان اور افغانستان کے درمیان بین الاقوامی سرحد ہے جو 2430 کلومیٹر پر محیط ہے۔ یہ 1896 میں ایک معاہدے کے تحت طے پایا جو کہ Sir Mortimer Durrand اور افغان حکمران امیر عبدالرحمان کے درمیا ن ہوا تھا۔ اس کی حد بندی کا تعین کرنے کی خاطر پتھروں سے چھوٹے چھوٹے مینار نما ٹیلے بنائے گئے ہیں جو اپنی اصلی شکل میں ابھی تک موجود ہیں۔ دوسری اہم چیز وہ مشہور پہاڑ ہے جس کے بارے میں علامہ محمد اقبال نے کہا تھا۔
مقصد ہو اگر تربیت لعل بدخشاں
بے سود ہے بھٹکے ہوئے خورشید کا پرتو

broghil visit24
جی ہاں میری مراد لعل بدخشاں کا پہاڑ ہے جو اپنی سنہری رنگت کی وجہ سے دامن دل کھینچ لیتا ہے۔ اسے دیکھنے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پہاڑ کے درمیای حصے تک ریت میں سونے کے سنہرے ذرات ملاکر لپائی کی گئی ہو اور اس کی برفیلی چوٹی چاندی کا تاج پہنے ہوئے نظر آتا ہے۔ یہ خوبصورتی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ صرف بیان کرنے سے اس خوبصورتی کا حق ادا نہیں ہوپاتا۔ کیونکہ دل یہی چاتہا ہے کہ پلک جھپکائے بغیر دیکھتا رہوں۔
اللہ رے اضطراب تمنائے دیدار
اک فرصت نگاہ میں سوبار دیکھنا

broghil visit2
جدید ٹیکنالوجی اس حسن کوقید کرنے سے محروم ہے جو ایک صاحب دل اپنے اندر کی آنکھ سے دیکھ سکتا ہے۔ میں اپنے بوسیدہ کیمرے سے وہ لمحات محفوظ کرنے سے قاصر رہا جو اس لمحہ موجود میں محسوس کررہا تھا۔
تیسری چیز جس نے فوراً میرا دھیاں اپنی جانب کھینچنے میں کامیاب ہوئی وہ چٹانوں کی سرزمین میں موجود جھیل تھی جو اپنے نیلگوں پانی سے کتنی ہی مخلوقات کو زندگی کی نوید سناتی ہے۔ یہ دل نما جھیل واخان کی چراگاہ میں واقع ہے اس کو آنسو جھیل بھی کہا جائے تو بے جا نہ ہو کیونکہ اس کی بناوٹ اپنے گردوپیش کی وجہ سے عجیب نظارہ دیتی ہے۔ ایک سمت سے دیکھا جائے تو دل سے مشابہت رکھتی ہے اور دوسری طرف سے اشکوں کی بوند لگتی ہے۔ گرمیوں میں چاروں طرف پھیلی سرسبز و شاداب چراگاہ میںیہ اپنی حیثیت تو منواتی ہی ہوگی مگر اکتوبر کے سردو خشک مہینے میں بھی ایک شان بے نیازی سے اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہے۔ آخری چیز جس نے ہمارا دھیاں کھینچا وہ دریا تھا۔ جو بدخشاں سے نکل کر ہماری سمت آتے ہوئے دکھائی دیتا ہے مگر پھر افغانستان کے حدود میں داخل ہو کر نظر سے اوجھل ہوجاتا ہے۔ اس دریا کے بارے مںی ہمارے گائیڈ کا کہنا ہے کہ یہ دریائے آمو ہے اور س کا سوتا پامیر کے پہاڑوں سے پھوٹتا ہے۔ ہمیں اس سے کیا غرض کون کہاں سے نکلا اور کہاں چلا گیا لیکن اپنی اس جھلک میں منفرد سی اپنائیت رکھتا ہے۔ سورج کی تیز شعاعوں میں یہ پگھلی ہوئی چاندی کی دھار معلوم ہوتا ہے۔ قدرت کی ان انمول تخلیقات کا عکس آنکھوں میں اور یادیں دل میں بسائے ہم نے واپسی کا راستہ اپنالیا۔ بروغل اور دروازہ پاس کا یہ دلچسپ سفر میری یادوں کے سرمائے میں خوشگوار اضافے کا ذریعہ ثابت ہوا۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
14622