Chitral Times

Jul 2, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

درحقیقت ….( آئیں کہ اس عید کے حق آدا کریں ) …..تحریر :- ڈاکٹر محمد حکیم

شیئر کریں:

عیدالاضحٰی کے لئے کچھ ہی دن باقی رہ گئےھیں۔کوئی اپنے خاندان کے لئے کپڑے اورجوتے خریدنے میں مصروف ھے۔تو کوئی گاڑی بک کرکے مال مویشی خریدنے شہر کے اندر اور شہر سے باھر گھومتا جارہا ھے۔بچے اور بوڑھے گھر میں غریب کے بھی اور امیر کے بھی نئے چیزوں کے امید میں بیٹھے ھیں۔۔یقینًا یہی دو ہی قسم کے لوگ ھیں جنہیں ھمیشہ ھماری مدد کی ضرورت ھوتی ھے۔عید کے اس پرمسرت موقع پر ھمیں ان کا اپنے سے بھی بڑھ کر خیال رکھنا چاھئے۔یہ  بھی حقیقت ھےکہ کاروباری لوگ اس موقع پر حد سے زیادہ منافع لیں گے۔اور خریداری میں بہت سے لوگ بہت زیادہ قیمت ادا کرکے اپنے بچوں کے لئے کپڑے اور جوتے لیں گے۔اور لینا بھی چاہئے کیونکہ اللّٰہ پاک نے ان کو مال دی ھے۔پھر غریب لوگوں کے بچے ان کو دیکھ کر رشک کریں گے۔کہ کاش ان کو بھی کوئی تین تین جوڑے جوتے اور کپڑے خرید کر لے  آتے۔مگر یہ صرف قیامت تک آرزو ہی رھے گی۔اس آرزو کی تکمیل ھماری تھوڑی سی قربانی کی وجہ سے ھوسکتی ھے۔یقینًا جس کو اللّٰہ پاک نے دولت دی ھیں۔وہ اپنے بچوں کے لئے دس دس جوڑے جوتے اور کپڑے خریدیں۔اگر یہ خریداری کسی کی آرزؤں کے قتل کا سبب نہ بنیں۔آپ اکثر دیکھتے ھیں ۔کہ ایک ہی دوکان کے اندر دو بندے سودا کررھے ھوتےھیں۔ایک طرف غریب پوچھ رھا ھے۔کہ بھائی جان کوئی ایسا کپڑا دیکھائیں۔کہ جو سستہ ھو۔اور جس کو میں آسانی سے خرید سکتا ھوں۔مگر مخالف سمت سے گرجدار آواز آتی ھے۔بھائی جان ایسا کپڑا دیکھائیں جس کی ڈیزائن بہت نئی ھواور آج تک کسی نے نہیں پہنی ھو۔اور سب سے مہنگا ھو۔تاکہ میں اپنے گھر والوں کے لئے خرید سکوں۔بس یہی غیر فطری فعل ھے۔کیونکہ انسان اشرف ا لمخلوقات ھے۔اس طرح تو مجبوری میں جانور بھی ایک دوسرے کی مدد کرتے ھیں۔لیکن انسان کو پھر مسلمان ھونے کے ناطے یہ کبھی زیب نہیں دیتا کہ کوئی مالدار ایک دن کی اجتماعی خوشی کے دن خود خوشیان منائیں۔اور اپنے ھمسائےکو بھول جائیں۔یہ عید سب کے  لئے ھوتا ھے۔اور اس کی قربانی کرنا مالداروں کے لئے ھے۔اور اس قربانی سے برآمد شدہ گوشت صرف غریبوں کے لئے ھیں۔تاکہ سال میں ایک بار ان کے منہ میں بھی گوشت کی ایک لقمہ پہنچیں۔اکثر تجربہ میں یہ بات آئی ھے۔کہ بعض لوگ اپنے بال بچوں کو صرف ایک دن پہننے کے لئے زیادہ جوڑے کپڑے  اس لئے نہیں لیتے ھیں کہ یہ ان کا شرعی حق ھے۔بلکہ صرف اس لئے لیتے ہیں۔کہ وہ لوگوں کو دیکھائیں کہ ان کے پاس کتنی دولت ھے۔لیکن غریب لوگوں کے بچوں کو بہت کم پتہ ھوتا ھے۔کہ ان کے ھمسایا اس مالدار کے گھر کی بجلی کی لائن آج بل ادا نہ کرنے کی وجہ سے کاٹی گئی ھے۔اور فلانہ جگہ سے ایک بندے نے کال کیا تھا۔کہ مجھے میرے پیسے بیجھ دیں یار بہت عرصہ ھوا ھے۔یہ بندہ جو ایک دن خوشی مناکر دوسروں کے ساتھ مزاق کا سبب ، دکھ اور غم کا زریعہ بن جاتا تھا۔خود ھمیشہ دنیائے غم کا بے تاج بادشاہ بن چکا ھوتا ھے۔کیونکہ دن اور رات تو ایک ہی رہتے ھیں لیکن حالت بدلنے میں لمہہ نہیں لگتا۔آج کا غریب کل کا امیر اور آج کا امیر کل کا غریب بن جاتا ھے۔اس لئے ھمیں ایسے حالات سے اشنائی سے پہلے قربت غریب اور دوستی بھی اختیار کرنا چاھئے تاکہ اللّٰہ ناقابل برداشت اور آزمائش والے دن سے سب کو بچائیں۔چلیں اس معاشرے میں رھتے ھوئے کوئی بات نہیں۔اگر آپ اپنے ایک بچے کے لئے عید میں تین جوڑے جوتے اور کپڑے لینے کی طاقت رکھتے ھیں۔کوئی مسلہ نہیں آپ بیشک خریدیں اور دن اس کے لئے الگ تعین کریں تاکہ کسی کی آرزؤں کا قتل  عید کے خوشی کے دن نہ ھوسکےاور پاس سر پکڑھ کر روتا ھوا ایک بے یارو مددگار ھمسائے کی طرف بھی  نظر ھو۔کیا اس کے گھر کے بھی اخراجات ضرورت کے برابر ھے ۔آیا نہیں ھے۔تو پھر کیوں نہ اس عید کو اپنے ھمسایوں کے لئے قربانی والا عید ہی کے طور پر منالیں خود بھوک برداشت کریں اور قربانی کے گوشت جو خود کیا ھو۔اور باھر سے آیا ھو۔گزشتہ سال کی طرح اپنے فریج میں چار مہینے رکھنے کے بعد اچانک ایک دن لوڈشڈنگ ھونے کی وجہ سے سارے گوشت دریاء میں رات کو چھپکے سے جاکر دوبارہ نہ ڈالیں۔جوخودکھایا ،جانور کھایا نہ کسی اور نے کھایا بس صرف دریاء  میں مچھلیوں کے بھی اجتماعی قتل کے سبب بننے۔بحیثیت مسلمان ھم اللّٰہ پاک کے احکامات کو سمجھیں اور اس پر عمل کرکے باقی دنیا کے لئے ایک عظیم امت کا نمونہ بن جائیں۔ آئیں کہ عہد کریں قربانی والا عید ھم اجتماعی طور پر قربانی کے طور پر ہی منانے پر اکتفا کریں۔جس سے جتنا ھوسکتا ھے۔اس کے مطابق اپنا حصہ شامل کریں۔اپنے اللّٰہ کے رضاء کا سبب بن جائیں۔تاکہ رب کائنات آجکل کے اس پریشان دور فتن میں ھم پر اپنے رحمت کے ناتمام بارش برسائیں۔جس سے ھمارے دل مسرور ھوں اور ھمارہ معاشرہ معطر ھو۔پھر لوگ ھماری مثال دینے لگیں۔کیونکہ پہلے مسلمان معاشرہ میں نظر آتا تھا۔اب بس تاریخی کتابوں کے صفحوں میں وفات شدہ مسلمان زندہ اور معاشرہ میں چلتا پھرتا مسلمان مردہ نظر آتا ھے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامین
37918