Chitral Times

Jul 2, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

دادبیداد ۔ وزیر تعلیم حصہ سوم ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

Posted on
شیئر کریں:

دادبیداد ۔ وزیر تعلیم حصہ سوم ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

استاذ لاساتذہ حا جی محمد جناب شاہ (تمغہ خد مت) کو چترال کے طول وعرض میں وزیر تعلیم کے نا م سے یا د کیا جا تا ہے میرا خیال تھا کہ ان کی خد مات پر سابق ایم پی اے سر دار حسین کے جا مع مضمون کے بعد میرا صرف ایک کا لم کا فی ہو گا لیکن کا لم شائع ہونے کے بعد اندرون ملک اور بیرون ملک سے بے شمار پیغا مات آئے چترال بھر سے محبت بھرے خطوط آئے سابق ہیڈ ما سٹر امان اللہ خان ایو بی صاحب نے اس کا تر جمہ انگریزی میں شائع کیا نو جوان پر نسپل نو ر اللہ ساگر نے مر حوم کی خد مات پر ایک سیمینار منعقد کرنے کا عندیہ دیا سابق پرنسپل ممتا ز شاعر امین الرحمن چغتائی نے ان کو چترال کا سر سید قرار دیا سابق ہیڈ ماسٹر نا در عزیز نے مر حوم کو چترال کی تعلیم یا فتہ نسل کا محسن قرار دیا پرو فیسر اسرار الدین نے رائے دی کہ ان کی زند گی پر ایک کتاب آنی چاہئیے، تا کہ ان کی حیات و خدمات کا احا طہ کیا جا سکے

 

کرنل سردار محمد خان، گل امان شاہ المعروف گل جی (کینڈا) اور ڈاکٹر محبوب حسین نے مر حوم کی خد مات کو خراج تحسین پیش کیا، مشہور محقق اور آر کائیو سٹ ہدا یت الرحمن نے سر دار حسین کی بات کی تصدیق کر کے چترال پر وزیر تعلیم کے ایک تحقیقی مقا لے کی فائل عنا یت کی، مکہ مکرمہ سے قاری فیض اللہ چترالی نے حج کی مصروفیات کے باو جود فون ملا کر سابق وزیر تعلیم کے ساتھ اپنے والد گرامی کے تعلقات کا خصو صی حوالہ دیا دراصل نو شہرہ میں وزیر تعلیم کی ابتدائی تعلیم میں موڑ کھو بہراندور گہت سے تعلق رکھنے والے عالم دین مو لا نا محمد یو سف المعروف امام استاذ کا مر بیا نہ اور مشفقانہ کردار رہا ہے، ان کی مسجد چترال کے طلباء اور علماء کی سر پر ستی میں شہرت رکھتی تھی

 

استارو سے تعلق رکھنے والے قاضی حضرت الدین اور ان کے بھا قاضی محمد وزیر بھی دیو بند کا سفر کر نے سے پہلے مولانا محمد یو سف کی مسجد میں زیر تعلیم رہے، جناب شاہ صاحب جب چترال کی ریا ست میں وزیر تعلیم کے منصب پر فائز ہوئے تو بہراندور گہت جا کر امام استاد کی خد مت میں حاضر ی دی اور ان کو ریا ست کے قریبی سکول میں ملا زمت کی پیشکش کی لیکن انہوں نے مولانا محمد مستجابؒ اویر مولوی کے ہاتھ پر بیعت ہونے کی وجہ سے ریا ستی ملا زمت قبول کرنے سے معذرت کا اظہار کیاتاہم اس آخر عمر تک ان کو سلا کر تے رہے اور اپنی عقیدت میں کمی نہ آنے دی، ڈاکٹر محبوب حسین نے انکشاف کیا کہ 1927یا 1928ء میں ان کے پہلے سفر کے وقت کوراغ کے مقام پر میرے والد گرامی جلا ل الدین المعروف چھتو لا ل اپنے بڑوں کے ساتھ چترال جا تے ہوئے تیریچ سے آنے والے مسافروں کے ساتھی بن گئے زوندرانگرام سے پشاور جا نے والوں میں ان کا ہم عمر محمد جناب شاہ بھی تھا، وہ کہتا تھا کہ میں سبق پڑھنے کے لئے جا رہا ہوں ان کے ہاتھ میں لکڑی کی کمان کا بنا ہوا روایتی چترالی غلیل بھی تھا اس کی مدد سے وہ سبق کے ساتھ شکار کا شوق پورا کرنا چا ہتا تھا، بعد میں ہز ہائی نس نا صر الملک کے دربار سے منسلک ہوا تو ان کی زبان سے کئی بار یہ بات سنی کہ تیریچ سے تعلق رکھنے والا لڑ کا سبق مکمل کر کے آئیگا تو قوم کی قسمت جا گے گی،

 

مگر ان کا یہ ارمان ان کی زند گی میں پورا نہیں ہوا 1943ء میں جناب شاہ اپنی تعلیم مکمل کر کے چترال آئے تو نا صر الملک وفات پا چکے تھے ان کی جگہ مظفر الملک مہتر چترال بن چکے تھے مگر انہیں کوئی فرق نہیں پڑا مظفر الملک نے اپنا بیٹا شہزادہ عزیز الرحمن انہی کے سکول میں داخل کیا اور سکول کی سر پرستی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، چترال کی تر قی کے مسائل اور امکا نات پر ان کے ہاتھ کا لکھا ہوا مسودہ انگریزی پران کے عبور کا آئینہ دار ہے ہو لڈر سے لکھے ہوئے فل اسکیپ کے 15اوراق میں کسی لفظ، حرف، نقطہ یا علا مت پر قلم نہیں پھیرا گیا، کٹ نہیں لگا یا گیا جن کو لکھنے کا تجربہ ہے وہ جا نتے ہیں کہ یہ کتنا مشکل ہے، مسودے کے ساتھ انہوں نے ذاتی خط لکھ کر اپنے دفتری تر سیلی نمبر 139کے ساتھ مورخۂ 30نو مبر 1954کے دن ایڈیشنل پو لیٹکل ایجنٹ کو بھیجا ہے خط میں لکھا ہے کہ آپ کی دفتری چھٹی 747-840مو رخۂ 13نو مبر 1954کی تعمیل میں یہ مضمون پیش خد مت ہے اس خط سے ظا ہر ہوتا ہے کہ اے پی اے سر دار بہرام خان نے ریا ست کے اندر تما م محکموں کے سربراہ ہوں کو خط لکھ کر چترال سٹیٹ کی تر قی کے مسائل اور امکانات پر اپنی تجا ویز پیش کرنے کی ہدایت کی تھی،

 

چنا نچہ اپنے مضمون میں جا بجا انہوں نے یہ صرا حت کی ہے کہ متعلقہ محکمہ تفصیلی رائے دینے کا مجا ز ہے، مضمون کے آغاز میں چترال کی تاریخ پر روشنی ڈا لی گئی ہے ریا ست کے حکمران خاندانوں کا مختصر ذکر ہے اور نظم و نسق کے بارے میں لگی لپٹی رکھے بغیر لکھا ہے کہ شخصی آمریت کا نظام تھا بردہ فروشی عام تھی اور لو گوں سے جبری بیگار لیا جا تا تھا، سما جی اور معا شرتی ترقی کا نا م و نشان نہ تھا انگریزوں کے ساتھ معا ہدے کے بعد رفتہ رفتہ حا لات میں بہتری آئی قیا م پا کستان کے بعد پرانے نظام کی جگہ چترال کو نیا دستور العمل دیا گیا اس کے بعد جعرافیہ کا حصہ آتا ہے اس میں ظا ہر ہے تریچ میر کی برف پوش چوٹی کا ذکر ہے، افغانستان، گلگت، سوات اور دیر کوہستان سے ملنے والے سر حدی دروں کا ذکر ہے اس کے بعد ریا ست کے ہر محکمے کا الگ باب ہے، مثلا ً مو اصلا ت، معدنیات، دستکاری، ریشم سازی، باغبانی، زراعت، صحت، تعلیم، محکمہ انہار، محکمہ امداد با ہمی، محکمہ دیہی تر قی، محکمہ ما لیہ ومحصو لات، محکمہ خزانہ، محکمہ جنگلات، محکمہ انتظا میہ وامن عامہ، محکمہ پو لیس، محکمہ دفاع، باڈی گارڈ، چترال سکا وٹس وغیرہ،

 

مضمون کا اسلو ب سادہ ہے انگریزی کی روانی کا مزہ آتا ہے جس طرح وزیر تعلیم کی تحریر قابل ذکر ہے اس طرح ان کی زبا نی گفتگو اور تقریر بھی بیحد دلچسپ ہوتی تھی 1984میں جنرل ضیا ء الحق نے نظام زکوٰۃ کا اجراء کیا تو ان کی قابلیت، دیانتداری اور تجر بے کو دیکھ کر مقا می حکام نے پہلے ضلعی زکوۃ چیئرمین کے لئے آپ کا نا م تجویز کیا، مجا ز حکام نے تقرر نا مہ جا ری کیا مگر سال سے زیادہ عرصہ گذرا، کوئی دفتر نہ ملا، کوئی فنڈ نہیں آیا، کوئی کام نہیں ہوا بے سرو سامانی کے اس عالم میں آپ کو ایک اعلیٰ سطح کی میٹنگ کے لئے بلا یا گیا میٹنگ میں فو جی حکام بھی تھے آپ کی باری آئی تو آپ نے شستہ انگریزی میں بر جستہ خطا ب کر تے ہوئے کہا ”مجھے جو دفتر ملا ہے وہ کھلی جگہ پر ہے چاروں طرف پہاڑ ہیں، نیچے مٹی کا فرش ہے اوپر آسمان کی چھت ہے ہم نے چند پتھروں کو چُن کر اپنے لئے کر سی کی جگہ استعمال کرنا شروع کیا تھا اب تک مر مت کی ضرورت نہیں پڑی، دفتری سٹیشنری کے لئے بڑی سہو لت حا صل ہے

 

ارد گرد سرکاری دفاتر میں میرے شا گرد بیٹھے ہیں ان سے کا غذ،قلم اور سیا ہی لے لیتا ہوں بڑی مشکل یہ تھی کہ مستحقیقن زکواۃ کو کیا جواب دیا جائے اس کا حل ہم نے یہ نکا لا ہے کہ سائلین کو اللہ پا ک کے رازق اور پالنہار ہونے کا سبق دیکر صبر کی تلقین کی جا ئے، آپ کی طنز بھری تقریر نے میٹنگ میں سماں با ندھ دیا سننے میں آیا ہے کہ یہ محکمہ زکوٰۃ میں آپ کی آخری میٹنگ تھی اس کے بعد فریقین میں جدائی ہو گئی اب تک یہ راز کسی پر فاش نہیں ہوا کہ آپ نے کمبل کو چھوڑا یا کمبل نے آپ کو چھوڑ دیا آپ کی اس تقریر کے عینی شا ہدین اور سامعین نے پرو فیسر اسرار الدین کو بتا یا کہ فو جی حکام کو توقع نہیں تھی کہ چترال سے آنیوالا پستہ قد بوڑھا شخص اپنی انگریزی دانی کا سہا را لیکر ہماری میزیں الٹ دیگا یہ واقعہ سن کر مجھے مو لانا محمد علی جو ہر یا د آگئے وائسرائے کی میٹنگ میں ان کی شستہ اور بر جستہ تقریر نے انگریزوں کو ششدر کردیا، وائسرائے نے پو چھا مو لوی صاحب آپ نے انگریزی کہا ں سیکھی؟ انہوں نے جواب دیا ”کیمبرج نا م کے ایک قصبے میں“ وزیر تعلیم جناب شاہ ہمارے سر سید بھی تھے مولانا محمد علی جو ہر بھی، اللہ پا ک ان کی روح کو ابدی سکون اور راحت نصیب کرے۔

 

 


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامین
90376